Thursday, November 29, 2007

اے میرے پیارے وطن ( My Beloved Nation)

اے میرے پیارے وطن

اے میرے پیارے وطن ، جنّت نشاں ہندوستاں

یہ جہاں اک شہر ہے ، تیری زمیں ہے گلستاں

گاندھی نہرو کی زمیں ،سردار و جوہر کا وطن

دھرتی یہ آزاد کی ، آزاد ہے اس کا گگن

امرت ہے یہ گنگ و جمن، باغِ عدن اس کے چمن

عکس تاروں کا تیرے ذرّوں میں اب بھی ہے نہاں

اے میرے پیارے وطن ، جنّت نشاں ہندوستاں

حال بھی تو ہی میرا ،تو ہی میرے خوابوں کا کل

تو میرا ارمان ہے ، آموجہء خوں میں مچل

آمیری آواز بن ، آجا میرے نغموں میں ڈھل

میری آواز و قلم سب ہی ہیں تیرے نغمہ خواں

اے میرے پیارے وطن ، جنّت نشاں ہندوستاں

ایک ہے یہ گلستاں ،گو رنگ و بو ئے گل جدا

ایک ہیں بندے سبھی ، اور ایک ہے ان کا خدا

ایکتا کے درس سے مہکی ہوئی اس کی فضا

تیرے دامن میں نہاں ہے آرزوئوں کا جہاں

اے میرے پیارے وطن ، جنّت نشاں ہندوستاں

یومِ آزادی ( Independence Day)

یومِ آزادی

آزاد یہ زمیں ہے آزاد یہ گگن ہے

آزاد ہیں ہوائیں آزاد یہ چمن ہے

دامن میں بھر کے اپنے خوشیاں ہزار لایا

تریخ ہند میں یہ دن یاد گار آیا

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

آزاد ہم ہوئے تھے تفریقِ من و تو سے

آزادیاں ملیں ،جب سینچی زمیں لہو سے

اہلِ وطن کو جینا تب سازگار آیا

تاریخ ِہند میں یہ دن یاد گار آیا

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

باپو کی آس ہے یہ نہرو کا خواب ہے یہ

آزاد کی تمنّا اک آفتاب ہے یہ

بامِ افق ہے روشن اک زرنگار آیا

تاریخ ِہند میں یہ دن یاد گار آیا

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

راتیں وہ ڈھل چکیں ہیں راہیں کھلی ہوئی ہیں

کچھ دور منزلیں ہیں آواز دے رہی ہیں

اجڑے ہوئے چمن میں بن کر بہار آیا

تاریخ ِہند میں یہ

دن یاد گار آیا


Wednesday, November 28, 2007

نغمہ استقبالیہ (Welcome Song)

نغمہ استقبالیہ

یہی ہے راہ، معرفت ، ہے منزلوں کا یہ نشاں

ہے فکرو فن کا یہ جہاں ، حکمتوں کا راز داں

علم کی ہے یہ زمیں ، فضیلتوں کا آسماں

مہک اٹھی فضائیں بھی ہر ایک سمت روشنی

مرحبا اس انجمن میں آمد آپ کی

خوش آمدید خوش آمدید

قدم قدم ہے فرش گل ،نظر نظر ہے کہکشاں

نگاہِ دلنواز میں بلندیاں ، تجلّیاں

ہے اک خرا مِ ناز سے یہ قافلہ رواں دواں

دیارِ علم و فضل میں ہے آمد اک بہار کی

مرحبا اس انجمن میں آمد آپ کی

خوش آمدید خوش آمدید

یہ پتّیاں ، یہ کونپلیں ، یہ برگِ گل ،رویدگی

یہ فرشِ خاک ، یہ زمیں ، نموپزیر زندگی

بشارتِ جہانِ نو ، نوید ہے بہار کی

نگاہ و دل ہے فرشِ گل ،ان آہٹوں پہ آپ کی

مرحبا اس انجمن میں آمد آپ کی

خوش آمدید خوش آمدید


Tuesday, November 27, 2007

پیڑنہ کٹنے پائے (Let no tree be cut)

پیڑنہ کٹنے پائے

پھولوں سے ہر شاخ لدی ہے

ٹھنڈک ہر سو پھیل رہی ہے

دنیا ان سے ہری بھری ہے

پیڑ ہمارے ہمسائے

دیکھو پیڑ نہ کٹنے پائے

چین و سکوں ان ہی سے پایا

اس دھرتی کا یہ سرمایہ

دھوپ میں تپ کر دیں یہ سایہ

جینے کا انداز سکھائے

دیکھو پیڑ نہ کٹنے پائے

دور دور سے پنچھی آئیں

پیڑ پہ بیٹھیں گیت سنائیں

سرد پڑی ہیں گرم ہوائیں

پیڑ پھلوں کے تحفے لائے

دیکھو پیڑ نہ کٹنے پائے

آو پیڑ لگائیں (Let's Plant Trees)

آو پیڑ لگائیں

آئو بچائیں

اس دھرتی کو کمہلانے سے

برساتوں کو رک جانے سے

ہرے بھرے ہر منظر کو

دھویں کے اندر کھو جانے سے

آئو پیڑ لگائیں !

اس دھرتی کو خوب سجائیں

ہرے بھرے ان پیڑوں کی

جھنڈی لے کر

بادلوں کی رکی ہوئی

ٹرین کے آگے لہرائیں

آئو ہم سب پیڑ لگائیں !

پوچھو کیوں ؟ (Ask Why?)

پوچھو کیوں ؟

ڈال پہ بیٹھی اک چڑیا

گاتی ہے چوں چوں چوں

پوچھو، پوچھو، پوچھو کیوں؟

باغ میں ہے اک پھول کھلا

ہرسو سبزہ ہرابھرا

جھرنے کا پانی بہتا

بول رہا ہے کابک میں

ایک کبوتر غٹرغوں

پوچھو، پوچھو، پوچھو کیوں؟

مہکی مہکی ہوا چلی

اٹھلاتی ہے اک تتلی

نیل گگن میں پتنگ اڑی

پنکھ پسارے جنگل میں

مور کرے پیہوں پیہوں

پوچھو، پوچھو، پوچھو کیوں؟

بوند آسماں سے ٹپکی

سوندھی سوندھی مہک اٹھی

بادل میں ہے دھنک تنی

پچھواڑے گلیارے میں

کتّا بھونکا بھوں بھوں بھوں

پوچھو، پوچھو، پوچھو کیوں؟

مالک ڈنڈا برسایا

کتّا کوئی نیا آیا

چور کو کوئی دوڑایا

آج اچانک صبح صبح

بلّی بولی میائوں میائوں میائوں

پوچھو ، پوچھو ، پوچھو کیوں؟

مکّھن دودھ نظر آیا

پیار سے کوئی سہلایا

یا پھر بلّا غرّایا!

Sunday, November 25, 2007

ممّی پاپا (Mummy Daddy)

ممّی پاپا

٭

گاڑی کے دو پہیوں جیسے

میرے ممّی پاپا

سائیکل جیسا چلتا پھرتا لگتا ہے یہ گھر ؛

برسوں ان کے ساتھ رہے ہم

ان سے سیکھا

مل جل کر سب کو اپنانا

کام سبھی کے آنا

آگے بڑھتے جانا

٭

چندا سورج جیسے دونوں

روشن ان ہی سے ہے

میرے گھر کا یہ آکاش

سکھ دکھ میں یہ بڑا سہارا ،

ایک بڑا آدھار

بارش جیسا ہم پر برسے

ان کا پیار دلار

٭

باغ کے جیسا گھر ہے اپنا

ممّی پاپا مالی

اس کے پیڑوں کی کرتے ہیں

دھیان سے یہ رکھوالی

ممّی پاپا سے ہے ہم نے

پیار بہت سا پایا

ان ہی کے سائے میں رہ کر ہم کو جینا آےا !

Saturday, November 24, 2007

پتنگ

پتنگ

دھرتی کا پیغام لئے

چلی ہوا میں

اڑی گگن میں

دیکھنے والے رہ گئے دنگ!

اتنی سی تو جان ہے یہ

اڑنے کا ارمان ہے یہ

آسمان کو چھونے کا

کرتی ہے سپنا پورا

دھرتی سے لو دورہوئی

پھر بھی نہیں توڑے اس نے

مٹّی سے اپنے بندھن

اک دھاگے کے بل پر یہ

دھرتی سے ہے جڑی ہوئی

دھرتی کو آکاش سے میں

ملواتا ہوں اس کے سنگ

دیکھو دیکھو اڑی پتنگ!



پتنگ (Kite)

پتنگ

دھرتی کا پیغام لئے
چلی ہوا میں
اڑی گگن میں
دیکھنے والے رہ گئے دنگ!

اتنی سی تو جان ہے یہ
اڑنے کا ارمان ہے یہ
آسمان کو چھونے کا
کرتی ہے سپنا پورا
دھرتی سے لو دورہوئی
پھر بھی نہیں توڑے اس نے
مٹّی سے اپنے بندھن
اک دھاگے کے بل پر یہ
دھرتی سے ہے جڑی ہوئی

دھرتی کو آکاش سے میں
ملواتا ہوں اس کے سنگ
دیکھو دیکھو اڑی پتنگ!

Thursday, November 22, 2007

آگے بڑھتے جائےں گ (We march ahead)

آگے بڑھتے جائےں گے


آکاش کھلا ہے آئو چلو

مٹّھی میں سورج بھرلو

چاند ستاروں کو چھولو

ہم یہ کر کے دکھائیں گے

آگے بڑھتے جائیں گے

مشکل سے گھبرائیں کیا

خطروں سے ڈر جائیں کیا

ہارے تو شرمائیں کیا

آگے بڑھتے جائیں گے

جیون ہے اک بار ملا

جینے کو سنسار ملا

ہر اک سے ہے پیار ملا

ہم قرض بھی یہ لوٹائیں گے

آگے بڑھتے جائیں گے

جینا ہے بے مقصد کب

کہتا ہے یہ ہم سے رب

وہ راضی تو اپنا سب

اس کو خوش کر جائیں گے

آگے بڑھتے جائیں گے

جیت کے اک دن آئیں گے

تارے بن کر چمکے ہم (We shine like stars!)

تارے بن کر چمکے ہم

چمک چمک کر بولے رات ستارے

’ڈوبا ہے اندھیارے میں

دنیا کا ہر اک گوشہ

تم ہو کیوں چپ چاپ پڑے

ہم جیسا تم چمکونا !

چمکونا ، چمکونا ، چمکونا !

نکلے تارہ بن کر ہم

چمکے ہم ، چمکے ہم

باغ میں ننھا پھول کھلا

بولا ہم سے :’ مہکو نا

تیز سواری ہے یہ ہوا

خوشبو اس پر لدوا دو

گھر گھر خوشبو پہنچا دو

تم بھی ہم سا مہکو نا

ہاں بھائی ہاں! کہہ کے ہم

پھولوں جیسے مہکے ہم

چوں چوں کرتی اک چڑیا

دیکھ کے ہم کو یہ بولی :

’ٹوٹے دل کو نہ غم دو

تم لوگوں کو مرہم دو

بات ہمیشہ بھلی کہو

تم بھی مجھ سا چہکو نا

کب تک چپ چپ رہتے ہم

چڑیا جیسے چہکے ہم

چڑیا جیسے چہک اٹھے

پھول بنے اور مہک اٹھے

بن کر تارا چمک اٹھے

سالِ نو مبارک (Happy New Year)

سالِ نو مبارک

مبارک مبارک نیا سال سب کو

نہ چاہا تھا ہم نے تو ہم سے جدا ہو

مگر کس نے روکا ہے بہتی ہوا کو

جو ہم چاہتے ہیں وہ کیسے بھلا ہو

اے جاتے برس! تجھ کو سونپا خدا کو

مبارک مبارک نیا سال سب کو

مبارک گھڑی میں یہ ہم عہد کر لیں

بصد شان ہم زندگی میں سنور لیں

گلوں کی طرح گلستاں میں نکھر لیں

بنیں ہم بھی سورج گگن میں ابھر لیں

مبارک مبارک نیا سال سب کو

اندھیروں نے لوٹی اجالوں کی دولت

اڑا لے گیا وقت اک خوابِ راحت

نہ لوٹے گی بیتی ہوئی کوئی ساعت

جو اب بھی نہ جاگے تو ہوگی قیامت

مبارک مبارک نیا سال سب کو

امیدیں ہیں راہیں عزائم سواری

خبر دے رہی ہے یہ بادِ بہاری

مہکتی ہوئی منزلیں پیاری پیاری

کہ صدیوں سے تکتی ہیں راہیں ہماری

مبارک مبارک نیا سال سب کو

مبارک مبارک نیا سال سب کو

سردی (Winter)

سردی

تھر تھر کرتی آئی سردی

اب کے برس تو حد ہی کردی

اس کے اپنے الگ ہیں کپڑے

اس کی اپنی وردی

بوٹ کوٹ اور سویٹر مفلر

سبھی پہن کر نکلے باہر

تھر تھر تھر تھر کوئی کانپتا

بیٹھ کے کوئی آگ تاپتا

کٹ کٹ کٹ کٹ دانت بجاتے

بچّے ہیں اسکول کو جاتے

کانپے ڈر کر سردی سے ہم

بھایا پھر بھی یہ موسم

Wednesday, November 21, 2007

ٹوپی (Cap)

ٹوپی

ٹوپی سے عزّت ہے ملتی

کام سے لیکن باقی رہتی

بھانت بھانت کی رنگ برنگی

جیسے لوگ ہیں ویسی ٹوپی

جاگوپیارے(Wake up my dear)

جاگو پیارے

چڑیا اپنی چونچ میں تھامے

دال کا دانہ لائی

ننّھی تتلی پر سے اپنے

رنگ لپیٹے آئی

سورج اپنے کاندھے پر

کرنوں کا بھنڈار اٹھا کر لایا

پھولوں کے دامن کو چھو کر

ہوا معطّر ہو آئی

پیڑ بھی اپنی شاخ شاخ پر

لایا ہے پھل رنگ برنگے

ذرّہ ذرّہ سر پر رکھ کر

چیونٹا چیونٹی فوج بنا کر نکلے ،

ہاکر ڈال گیا اخبار

اس میں بھی یہ خبرچھپی ہے؛

بھری پری اس دنیا میں

دن چڑھ آیا

صبح ہوئی تو ساری دنیا

اپنے کام پہ نکلی !

بس اک تم ہو

بستر ہی میں سوئے پڑے ہو !

برس رہا ہے پانی چھم چھم (pitter patter rain drops)


برس رہا ہے پانی چھم چھم

موسم نے کروٹ ہے بدلی
آسمان پر چھائی بدلی
سر سر سر سر ہوا چلی

بادل کے رتھ گھوڑے دوڑے
بجلی نے ہتھ گولے چھوڑے
برسے سب کے سر پہ ہتھوڑے

کڑکڑ کڑ کڑ بجلی چمکی
منّی ڈر کر گھر میں دبکی
اب تو سٹّی گم ہے سب کی

سوندھی سوندھی مہک اٹھی ہے
پیڑ پہ چڑیا چہک اٹھی ہے
ساری دھرتی لہک اٹھی ہے

پل بھر میں بدلاہے موسم
گرمی کا اب ہوا قہر کم
برس رہا ہے پانی چھم چھم



برسات آ گئی ہے (Here comes the rain)

برسات آ گئی ہے

گرمی کے ظلم سے یہ دنیا دہک رہی تھی

پیاسی زمین کب سے آکاش تک رہی تھی

موسم کو کیا ہوا ہے پل میں بدل گیا ہے

لُو بن کے چل رہی تھی یہ تو وہی ہوا ہے

دیکھو چلی ہوائیں چلّائیں سائیں سائیں

بادل کو ساتھ اپنے ہر سمت لے کے جائیں

تھم تھم چلے ہیں بادل ڈم ڈم بجے ہیں بادل

کھولی ہے آسماں نے بادل کی اپنی چھاگل

پانی برس رہا ہے موسم یہ ہنس رہا ہے

بارش میں بھیگتا ہے کیچڑ میں پھنس رہا

بستے اٹھائے بچّے اسکول کو چلے ہیں

کھیتوں کی سمت اپنے دہقاں نکل پڑے ہیں

ہر سمت پانی پانی ندیوں میں ہے روانی

پنچھی چہک رہے ہیں خوشیوں کی ہے نشانی

گرمی کو کھا گئی ہے ہر سمت چھا گئی ہے

دل کو لبھا گئی ہے برسات آگئی ہے

گرمی (Summer)

گرمی

گرمی کا موسم ہے آیا

ساتھ میں لا یا

کولر، پنکھے، اے ۔سی۔

شربت ، لسّی

آئس کریم، چھٹّی اور آم

تربوز اور خربوزے

ٹھنڈے پانی کے مٹکے

گھبرائے چکرائے سارے

لوگ ہےں گھر کے اندر

اور اک گرم ہوا ہے،

گھر سے باہر

دو پہر میں

بھوکی پیاسی دھک دھک کرتی

سڑکوں پر پھرتی دیوانی

کون اسے سمجھائے؟

دشمن جیسا گرم ہے موسم

تیز دھوپ کی چم چم کرتی

پھرتا ہے تلوار سنبھالے

اس سے اگر تم

بچنا چاہو

کچھ ہتھیار سنبھالو خود بھی

نہتھے ہو کر

گھر سے باہر

اس طرح نہ قدم نکالو

اپنے سر اور کانوں پر

کچھ اوڑھو اور لپیٹو

پانی پی لو

دھوپ کا کالا چشمہ پہنو

جان کا دشمن موسم ہے یہ

پھر بھی نہ گھبرائو!

گرمی کے ہےں مزے نرالے

اس کی اپنی رنگینی

اس کو گر تم سمجھ سکو تو

لطف بھری ہے گرمی!