Friday, April 23, 2010



اے مِرے دل
نظم
غزالہ امرین
uuuuuuuuuuuuuuuuuuuuuuuu
اے مِرے دل دور چل 
بہت دور 
جہاں کو ئی نہ ہو 

جہاں بندش نہ ہو 
نہ ڈر ہو 
جہاں شکوہ نہ ہو کسی سے ،
بلند و پست کا سایہ نہ ہو جہاں 
نہ رنگ و نسل کا امتیاز کو ئی ،
گناہ ہو 
نہ گناہوں پہ کو ئی پچھتاوہ 
آ نسوؤں کی بارش ہو 
نہ ما یو سیوں کی زرد دھوپ 

اے مِرے دل دور چل 
بہت دور 
جہاں کو ئی نہ ہو 

جہاں محفل میں رہ کر بھی
 کو ئی کبھی تنہا نہ ہو 
جہاں نہ بھیڑ کی گھٹن ہو
 نہ بھیڑ میں کھونے کا ڈر ستائے 


جہاں ہر طرف
 آ سودگی ہو رقصاں
ہر طرف خو شی ہو 

جہاں لالچ نہ ہو ،ہوس نہ ہو
ہو جہاں 
اُنس محبّت اور وفا 
جس زمیں پر کو ئی بے وفا نہ ہو 

اے مِرے دل دور چل 
بہت دور 
جہاں کو ئی نہ ہو 

جہاں پھولوں کی خوشبوؤں کے
 ڈھیر ہوں 
جہاں بکھر اپڑا ہو خزانہ چاندنی کا
جہاں مستی ہو ،رعنائی ہو 
 ہر خواب کی تعبیر ہو ، خوشی ہو

کیا کبھی آپ نے 
 دیکھی ہے ایسی سر زمیں 
جہاں میں اور 
میرا یہ بے چین دل 
قدم رکھ سکے ؟




Tuesday, April 13, 2010

Seerat e Nabi S.A.S. ..زندگی سنواریئے...

سیرت نبی  ﷺسے زندگی سنواریئے

محمّد شریف ،ناگپور
,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,
عموماً رواج یہ ہوگیا ہے کہ وبیع الاول کے مہینہ میں سیرت کے جلسے ہوتے ہیں۔ سیرت پر بیانات اور تقریریں ہوتی ہیں۔ اخبارات اور رسائل میں سیرت پر تحریریں لکھی جاتی ہیں جن میں زیادہ تر حضورؐ کے معجزات کا بیان ہوتا ہے۔ آپ کے مرتبہ اورعلوشان کے تذکرے ہوتے ہیں۔ اور یہ ہونا بھی چاہئے۔ آپ کا ذکر گویا اللہ ہی کا ذکر ہے۔ اور آپ کی تعریف کرنا اللہ ہی کی تعریف کرنا ہے۔ آپ کے معجزات اللہ ہی کی قدرت کا مظہر ہے۔ مگر ان تقریروں اور تحریروں میں ایک پہلو نظر انداز کیا جارہا ہے جس کی وجہ سے عمل سے بھی نظر انداز ہورہا ہے وہ یہ ہے کہ ہم جب رحمت اللعالمین کے امتی ہیں تو ہم آپ کی سیرت سے کیافائدہ اٹھاسکتے ہیں۔ کیاآپ کی زندگی ہمارے لئے قابل اتباع نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ تو آپ کی زندگی کو ایمان والوں کے لئے اسوہ اور نمونہ قرار دے رہا ہے۔ فرمایا : لقد کان لکم فی رسول اللہ اسوۃ حسنۃ ، لمن کان یرجولقاء اللہ۔ رسول اللہ ﷺ میں تمہارے لئے بہترین نمونہ ہے اس کے لئے جو اللہ سے ملاقات کی امید رکھتا ہے۔ 

حضورؐ کی سیرت کا ایک پہلو جو عام مسلمانوں کے لئے نہایت سہل اور قابل اتباء ہے وہ آپ کی معاشرت ہے۔ اگر ہم ذرا سا دھیان دیں اور عادت ڈالنے کی کوشش کریں تو ہمارے عام معمولات سنت نبوی کے مطابق ہوسکتے ہیں اور ہمارا سنت کے مطابق ان کاموں کا کرنا ہمارے لئے ذخیرہ آخرت اور دنیا میں برکات کا سبب ہوسکتا ہے۔ اور اگر ہم نے رفتہ رفتہ ترقی کر کے اس کو مضبوطی سے پکڑ لیا تو اللہ کی طرف سے بہت بڑے بڑے انعامات کے مستحق بن سکتے ہیں۔ مثلاً رسول اللہؐ نے فرمایا من تمسک سنتی عند فساد امتنی فلہ اجر مائۃ شہید ۔ جس نے میری امت کے بگاڑ کے زمانہ میں میری سنت کو مضبوطی سے پکڑا اس کے لئے سو شہیدوں کا اجر ہے۔ اور حضورؐ کے معاشرت یعنی عام رہن سہن کے طریقہ ایسے نہیں ہیں جو ہمارے بس کے نہ ہو بلکہ آسان ہیںاور قابل عمل ہیں۔ اور فطرت انسانی کے عین مطابق ہیں اور ان میں کوئی تکلیف نہیں ہے۔ صرف تھوڑا دھیان دینے کی ضرورت ہے۔ مثلاً آپ کا کھانے پینے کا طریقہ یہ ہے کہ سیدھا ہاتھ استعمال کریں ۔ بیٹھ کر کھائیںیا پئیں۔ کھانے پینے سے پہلے بسم اللہ کہہ لیں اور فارغ ہونے کے بعد الحمد للہ کہہ لیں۔ یہ ایسا کونسا مشکل کام ہے جو ہم سے نہیں ہو سکتا اس کے باوجود بہت سے مسلمان بائیں ہاتھ سے پانی اور چائے پیتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔ یہ ان کی غفلت ہے جو انہیں حضورؐ کی سنتوں سے محروم کئے ہوئے ہیں۔ ایسے سادہ اور آسان پاکیزہ طریقے حضورؐ کی سنت میں موجود ہیں۔ مگر یہ فائدہ نہیں اٹھاتے ان کی مثال ان کروڑ پتی اولاد کی طرح ہے جو کروڑوںکی جائیداد کے باوجود پھٹے پرانے کپڑوں میں بھوک پیاس کی حالت میں پھر رہے ہیں اور جھوپڑوں میں زندگی گذاررہے ہیں۔ یعنی اپنی جائیداد سے کچھ فائدہ نہیں اٹھاتے۔ جب بھی مسجد میں داخل ہوں یا باہر نکلیں حضورؐ کا طریقہ ہے ۔ داخل ہوتے وقت دایاں قدم پہلے اندر رکھیں اور اللھم افتح لی ابواب رحمتک پڑھ لیں یعنی اے اللہ میرے لئے اپنی رحمت کے دروازے کھولدے۔ اسی طرح باہر نکلتے وقت اللھم افتح لی ابواب فضلک ۔یعنی اے اللہ میرے لئے اپنے فضل کے دروازے کھول دے۔ یہ دستور ہے کہ جب آدمی مانگتا رہتا ہے تو ملتا بھی رہتا ہے۔ جب دن بھر میں کم از کم ۵! مرتبہ اللہ سے اس کا فضل اور رحمت مانگے گے تو کیا محروم رہے گے جبکہ اس کی طرف سے ادعونی استجب لکم کا وعدہ موجود ہے۔ 

حضورؐ کی معاشرت کا ایک طریقہ ہے السلام قبل الکلام یعنی بات سے پہلے سلام کرو۔ ایک گھر کے افراد اور باہر کے بھی بار بار ملنے جلنے والے لوگ بلا سلام سامنے آتے ہی بات شروع کردیتے ہیں۔ اس میں کیا مصیبت ہے کہ پہلے کوئی ایک السلام علیکم کہہ دے اسی طرح فون یا موبائیل سے بات کرتے وقت Hello کہنا غیروں کا طریقہ کیوں اختیار کررکھا ہے۔ اس میں کیا پریشانی ہے کہ جب ہمیں اپنے فون پر Bell سنائی دے ہم پہلے السلام علیکم کہیں۔ اگر اس کااحتمال ہے کہ فون کرنے والا غیر مسلم بھی ہوسکتا ہے تو بھی کوئی حرج نہیں ہے۔ ہم اسے سلامتی کی دعا دے رہے ہیں اور سلامتی بغیر اسلام کے نہیں ملتی گو یا ہم اسے مسلمان ہونے کی ہی دعا دے رہیں ہے۔ اگر ہم نے کسی کو call کیا اور وہ Hello کہہ دے تو ہم سلام کرلیں۔ اگر وہ ہم سے چھوٹا ہے تو بھی پہل کرلینا نفع کی بات ہے نہ کہ نقصان کی۔ ایسے ہی ہمارے روازنہ کے معمولات میں ہے استنجا یا بیت الخلاء کے لئے جانا آنا۔ اس میں بھی حضورؐ کا طریقہ اختیار کرنا کونسا مشکل ہے۔ داخل ہونے سے پہلے اللھم انی اعوذ بک من الخبث والخبائث پڑھ کربایاں پیر اندر داخل کریں اور جب باہر نکلیں تو دایاں پیر باہر نکالیں۔ اور یہ دعا پڑھ لیں۔ غفرانک الحمد للہ الذی اذھب عنی الاذیٰ و عافانی ۔ اے اللہ تیری معافی، تما م تعریفیں اس اللہ کے لئے ہے جس نے مجھ سے اذیت کی چیز کو دور کر دیا اور عافیت بخشی۔ کیسا بہترین طریقہ ہے حضورؐ کا کہ بیت الخلاء بھی اللہ سے قرب دلانے والا ہے۔ ایمان بڑھانے والا ہے اور د نیا کے مصائب کو دور کرنے والا ہے۔ جو شخص اہتمام سے اس دعا کو پڑھتا ہے و ہ پیشاب پاخانہ رک جانے کی بیماری سے محفوظ رہتا ہے۔ 

اسی طرح کپڑے پہنا ہمارے معمولات میں سے ہے۔ اس میں حضورؐ کا طریقہ کیا مشکل ہے۔ پہنتے وقت سیدھا ہاتھ یا سیدھا پیر پہلے داخل کریں۔ اور اتارتے وقت بایاں ہاتھ یا پاجامہ ہے تو بایاں پیر پہلے نکالیں۔ سائیکل ،موٹر سائیکل ،کا ر ،بس ، ریل ، ہوائی جہاز کی سواریوں کا استعمال عام ہے۔ جب بھی کسی سواری پر سوار ہوں ، دایاں پیر پہلے داخل کریں ، بسم اللہ کہتے ہوئے۔ جب سوار ہو جائیں الحمد للہ کہہ لیں۔ اور یہ دعا پڑھ لیں۔ سبحان الذی سخرلنا ھذا وما کنا لہ مقرنین و انا الیٰ ربنا لمنقلبو ن ۔ ذرا ترجمہ پر غور کریں کیسا اللہ سے تعلق پیدا ہوتا ہے۔ پاک ہے وہ ذات جس نے ہمارے لئے اس کو مسخر کردیا ہم ہر گز اس پر قابو نہ پاتے اگر وہ ہمیںقابو نہ دیتا اور ہم اپنے رب ہی کی طرف لوٹ کر جانے والے ہیں۔سواریوں کے استعمال کے وقت اس دعا کا اہتمام رہے تو آدمی سواری کے شر سے محفوظ رہتا ہے۔ Accidents کے تدار ک کا یہ آسان نسخہ ہے۔ مگر ہماری ظاہربیں نگاہیں وہی کہہ رہی ہیں جو بغیر ایمان والے کہہ رہے ہیں کہ traffic controll صحیح نہیں ہے۔ جب سواری چلنے لگے تو یہ استغفار پڑھ لیں۔ سبحانک انی ظلمت نفسی فاغفرلی لایغفر الذنوب الا انت ۔ یعنی ’’ تو پاک ہے بے شک میں نے اپنے نفس پر ظلم کیا ہے پس مجھے معاف کردے، تیرے علاوہ گناہوں کا معاف کرنے والا کوئی نہیں ہے ‘‘ ۔ 

اس دعا کے پڑھنے کے بعد اپنے ساتھی یا آسمان کی طرف دیکھ کر مسکرائے۔ یہ مسکرانا بھی ایک خاص مصلحت سے ہے۔ جب بندہ یہ استغفار پڑھتا ہے تو اللہ تعالیٰ مسکراتا ہے اور فرماتا ہے کہ میرا بندہ جانتا ہے کہ میرے سوا کوئی مغفرت کرنے والا نہیں ہے۔ اور مغفرت کردیتا ہے۔ کیسا بہترین دین ہے کہ دنیا بھی بن رہی ہے اور آخرت بھی۔ سواری کا استعمال کر کے لمبے لمبے فاصلے آسانی سے طے ہوجارہے ہیں حادثات سے بھی حفاظت ہورہی ہے اور اللہ سے تعلق بھی بڑھ رہا ہے اور مغفرت بھی ہورہی ہے۔ اس میں سواری کی تخصیص نہیںہے۔ حضورؐ کے زمانہ میں صرف جانوروں کی سواریاں تھیں لیکن اللہ تعالیٰ نے اپنے کلام پاک میں قیامت تک ایجاد ہونے والی تمام سواریوں کی خبر اجمالی طور پر دے دی ہے۔ فرمایا : الخیل والبغال و الحمیر لترکبواھا وزینۃ ویخلق مالا تعلمون ۔ یعنی ’’ ہم نے تمہارے لئے اونٹ، گھوڑے اور خچر پیدا کئے جن پر تم سوار ہوتے ہو، اور زینت دکھاتے ہو اور ہم ایسی چیزیں پیدا کرینگے جس کو تم جانتے نہیں ہو ‘‘۔ سائیکل سے لیکر ہوائی جہاز تک تمام سواریاں مالا تعلمون میں داخل ہیں۔ یہ سیرت نبی کا وہ حصہ ہے جو ہر مسلمان آسانی سے اپنا سکتا ہے اور اپنی زندگی کو مزین کر سکتا ہے۔ واقعی حضورؐ کے طریقے آدمی کی زندگی کے لئے رونق اور زینت ہیں۔ حضورؐ کی معاشرت کے بغیر مسلمانوں کی زندگی بے نور ، بے رونق اور ظلمتوں سے بھری ہوئی ہے۔ اسی طرح اپنی زندگی کے ہر گوشہ میں غور کریں کہ ہم اس میں حضورؐ کی سیرت سے کیا داخل کرسکتے ہیں۔ ایک پہلو حضورؐ کی سیرت کا یہ ہے کہ ہم اپنا سلوک اور برتاؤ تمام انسانوں کے ساتھ بلکہ تمام مخلوق کے ساتھ منصفانہ اور کریمانہ بنائیں ۔ ہم اخلاق میں جتنی ترقی کرینگے حضورؐ سے مشابہت میں ترقی ہوگی، حضورؐ سے تعلق میں ترقی ہوگی۔ 
حضورؐ کے اخلاق کا ایک نمایاں وصف عدم تکبر یعنی تواضع ہے۔ حضورؐ کائنات کی تمام مخلوق میں سب سے بڑے ہیں لیکن تواضع کا یہ عالم ہے کہ فرماتے ہیں میں اس ماں کا بیٹا ہون جو سوکھا ہوا گوشت پکا کر کھایا کرتی تھی۔ راستہ چلتی ہوئی کوئی غریب بڑھیا بھی آپ کو بلا تکلف روک کر آپؐ سے جتنی چاہتی بات کرلیتی تھی۔ مرتبہ تو اتنا بلند کہ جبرائیل علیہ السلام بھی آپ کے پاس بغیر اجازت نہیں آتے تھے۔ اور تواضع اتنی کہ اعرابی یعنی دیہاتی بھی آپ کے مجلس میں بیٹھ کر سوالات کرلیتے تھے۔ معراج کے سفر میں براق آپؐ کی سواری ہے اور زمین پر اپنے گھر میں آپ اپنے نواسوں حسن اور حسین کے لئے خود سواری بنے ہوئے ہیں۔ آپؐ فرماتے ہیں انا سید ولد آدم ولا فخر یعنی میں اولاد آدم کا سردار ہوں لیکن مجھے اس پر فخر نہیں ہے۔ سیرت پاک کا یہ پہلو بھی امت کے لئے قابل عمل ہے۔ گو کہ ہم اخلاق کی اس بلندی پر نہیں پہنچ سکتے مگر اس کی تمنا کر کے کوشش تو کرسکتے ہیں۔ آپ کے اخلاق کی عمدگی کی سند خود اللہ رب العالمین فرمارہا ہے۔ انک لعلیٰ خلق عظیم ۔یعنی ’’ آپؐ اخلاق عظمہ پر ہیں ‘‘۔ آپ کی زوجہ محترمہ ام المومنین سیدہ حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ خلقہ القرآن ، آپ کے اخلاق قرآن ہیں۔ یعنی قرآن میں اخلاق کی جو کچھ تعلیم دی گئی ہے بدرجہ اتم وہ آپؐ میں موجود ہیں۔ ہم بھی اس کی کوشش کریں کہ ہمارے اخلاق حضورؐ کے اخلاق سے قریب تر ہوتے جائیں۔ ورنہ سیرت مبارکہ صرف تقریر وتحریر کی زینت بن کر رہ جائیگی۔ دنیا کو اس کی ضرورت ہے کہ آپؐ کے ماننے والے اپنی زندگی میں ان اخلاق کا مظاہرہ کریں جو سیرت میں حضورؐ کی زندگی میں نظر آتے ہیں۔ پھر دنیا آپ کی قدر کرینگی۔ ورنہ آپ کے اخلاق اور آپ کی زندگی کو حضورؐ کی زندگی سے مختلف پاکر آپ کی دشمن بنے گی۔ 

اس لئے تمام مسلمان حضورؐ کی سیرت طیبہ کو اپنانے کا فیصلہ کریں۔ آپؐ غصہ کے عالم مین بھی حد سے اور حق سے تجاوز نہیں فرماتے تھے۔ دشمن پر بھی کبھی آپؐ ظلم نہیں کرتے تھے۔ ظالموں کو معاف کرنا آپؐ کی عام عادت تھی۔ اللہ کی اطاعت کا آپ نے حق ادا کردیا اس کے باوجود اللہ سے استغفار کرتے تھے۔ ہمیشہ اپنی بندگی کا اظہار کرتے تھے ۔ اللہ تعالیٰ تمام مسلمانوں کو آپؐ کی سیرت پاک کی اتباء کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین۔

Friday, April 02, 2010

parents responsibilities Urdu .. والدین کی ذمّہ داریاں


ابتدائی سطح پر و الدین کی ذمّہ داریاں
::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::
زبیدہ بیگم، ناگپو
ر

اااااااااااااااااااااااااااااا
ءءءءءءءءءءءءءءءءءءءءءءءءءءءءءءءءءءءءءءءءءءءءءءءءءءء
اس پوسٹ کو کسی اخبار یا رسالہ میں تقل کرنے کی صورت میں بلاگ کا پتہ 
  دینا لازمی ہے http://bazmeurdu.blogspot.com/

ءءءءءءءءءءءءءءءءءءءءءءءءءءءءءءءءءءءءءءءءءءءءءءءءءءءءء

موجودہ دور سائنس اور تکنولوجی کی ترقّی کے سبب علم و ہنر کا سنہرا دور کہلانے کا مستحق ہے ۔ریل ،جہاز ،کمپیوٹر اور انٹر نیٹ جیسی سائنسی ایجادات نے زندگی کو برق رفتار بنا دیا ہے ۔
نئی نسل بھی ذہنی اعتبار سے بہت تیز ہے۔یہ سب علم کی کار فرمائی ہے ۔ جو لوگ اس بات کو سمجھتے ہیں وہ علم کے حصول میں سر گرم ہیں۔ اپنے بچّوں کو زیورِ تعلیم سے آراستہ کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑتے ۔ ان حالات میں طریقۂ تعلیم میں بھی تبدیلی کی ضرورت ہے ۔حکومتِ وقت اسی ضرورت کے پیشِ نظر مناسب اقدامات اٹھا رہی ہے ۔ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہم وقت کے تقاضوں کو سمجھ نہیں پا رہے ہیں یا ان کو پورا کرنے کے لئے ذہنی طور پر تیّار نہیں ہوئے ہیں ۔ عام زندگی کے دیگر معاملات کی طرح ہم اپنے بچّوں کے تربیت کے معاملہ میں بھی اسی لکیر کو پیٹ رہے ہیں ۔ ہماری اسی غلط سوچ کا نتیجہ ہے کہ ہمارے بچّے ابتدائی تعلیم کے زمانہ میں لا پرواہی کا شکار ہو جاتے ہیں او رپھر اعلیٰ تعلیم سے محرو م ہو جاتے ہیں ۔

والدین کے ضروری ہے کہ وہ بچّوں کی ابتدائی تعلیم پر خصوصی توجّہ دیں ۔اگر کسی طالبِ علم کی ابتدا کمزور رہی تو وہ بنیادی چیزوں کو سمجھ نہیں پاتا ۔اسی لئے اسکول کے کام پورے نہ کر پانے کی وجہ سے اس میں تعلیم سے دلچسپی کم ہونے لگتی ہے اکثر نفرت اور ڈر پیدا ہونے سے وہ اسکول سے دور رہنے کی کوشش کرتا ہے ۔بچّہ اپنے اسباق کو اگر سمجھ لیتا ہے تو تعلیم سے اس کی دلچسپی برقرار رہتی ہے ۔ اسی لئے والدین کو اپنے بچّوں کے اس قسم کے مسائل حل کرنے کی کوشش کرنی چاہئے ۔ بچپن ہی سے انھیں محنت کا عادی بنائیں ۔ انھیں خود پڑھائیں اور مخصوص مضامین کے معاملہ میں اگریہ ان سے ممکن نہ ہو تو مناسب لوگوں کی مدد حاصل کریں ۔
گھرکے بڑے بچّے بھی اس سلسلہ کار آمد ثابت ہو سکتے ہیں ۔والدین اگر بچوں کی ابتدائی تعلیم پر توجّہ دیں تو وہ لائق بنیں گے ۔ہم بچوں کو اسکول کے حوالے کرکے بے فکر ہوجاتے ہیںجبکہ مذہبی نقطۂ نظر بھی ان کی تعلیم و تربیت ہمارا فرضِ اوّلین ہے۔ بچپن ہی سے دینی اور اخلاقی تعلیم سے رغبت پیدا کی جائے تو بچّے بڑے ہو کر ہر گز بے راہ روی کا شکا ر نہ ہوں گے ۔نئی نسل کی گمراہی کی ایک اہم وجہ یہ بھی ہے کہ اسے گھرسے جو تعلیم و تربیت بچپن میں حاصل ہونی چاہئے وہ اس سے محروم ہے ۔ والدین اور اساتذہ سے درخواست ہے کہ وہ اپنی ذمّہ داریوں کو محسوس کرتے ہوئے بچوں پر خوب توجّہ دیں اور ان کی سر گرمیوں پر نظر رکھیں ۔ اﷲ تعالیٰ ہمیں اپنی اولاد کی اچھّی تعلیم و تربیت کی توفیق عطا فر مائے ٭