Saturday, May 14, 2011

Masajid

مساجد کی تعمیر اور تزئین

محمّد شریف ناگپور

مسجد یں اللہ کے گھرہیں۔ اور تمام مساجد بیت اللہ کی بیٹیاں یعنی بیت اللہ کی شاخیں ہیں۔ اس لئے مسجد کی تعمیر بہت بڑا کار ثواب ہے۔ حدیث میں ہے کہ جواللہ کے لئے مسجد بناتا ہے اللہ اس کے لئے جنت میں گھر بناتا ہے اور مساجد کی تعمیر مسلمان کے ایمان کی علامت ہے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں فرمایا انما یعمر مساجد اللہ من اٰمن باللہ والیوم الااٰخر ۔ مسجدوں کو تو وہی لوگ تعمیر کرتے ہیں جو ایمان رکھتے ہیں اللہ اور آخرت کے دن پر۔ بحر حال مسجدوں کی تعمیر اسلا م میں محمود چیز ہے۔ یہ اس لئے بھی کہ مسلمان اور مسجد کا گہرا تعلق ہے۔ مومن کا وجود ہی بغیر مسجد کے مشکل ہے۔ جہاں ایمان والے ہونگے وہاں مسجد ضرور ہوگی کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : المومن فی المسجد ک السمک فی الماء یعنی مومن مسجد میں ایسا ہے جیسے مچھلی پانی میں ۔مچھلی کی زندگی ہی پانی کے بغیر دو بھر ہے۔ اگر کوئی مسلمان مسجد کے بغیر جی رہا ہے تو اس کی یہ زندگی اسلامی اور ایمانی زندگی نہیں ہے بلکہ یہ زندگی حیوانی ہے۔ اس لحاظ سے مساجد کی تعمیر مسلمانوں کے لئے بہت ضروری ہے مگر تعمیر میں مبالغہ اور اس کی تزئین یعنی decoration منشاء نبوت کے خلاف ہے۔ مسجدوں کو بہت زیادہ پر تکلف بنانا اور سجانا اور ان میں نمائش کے ایسے ساماں رکھنا کہ مسجد میں داخل ہو کر آدمی مسجد کے درودیوار کو دیکھنے ہی میں اٹک جائے مسجد کے مقصد ہی کو فوت کردیتا ہے۔ مسجد یں تو اللہ سے تعلق کو بڑھانے کے لئے ہیں۔ مسجد کی عمارت کو بہت شاندار اور عالی شان بنانا قرب قیامت کی علامت ہے۔
حضورؐ کی مسجد تمام مسلمانوں کے لئے نمونہ ہے۔ آپ کی مسجد کتنی سادی تھی۔ کوئی پختہ عمارت نہیں تھی۔ کھجور کی ٹٹیوں کی بنی ہوئی تھی۔ اسی کی چھت بھی تھی۔ دھوپ اور بارش دونوں چھن کر مسجد میں آتے تھے۔ مسجد میں فرش پر بچھانے کے لئے کوئی مصلیٰ یا جاء نمازیں نہیں تھی۔ مٹی پر سجدہ ہوتا تھا۔ دروازے اور کھڑکیا بھی نہیں تھے۔مسجد کے بند ہونے کا سوال ہی نہیں تھا۔ مسجد کچی تھی لیکن نمازی اتنے پختہ تھے کہ تمام انسانوں کے لئے نمونہ قرار دیئے گئے۔ مسجد کی مادی تعمیر کمزور تھی لیکن روحانی تعمیر بہت مضبوط۔ یہ روحانی تعمیر مسجد کی آبادی ہے۔ حضورؐ کی مسجد
۲۴! گھنٹے اعمال سے آباد رہتی تھی۔ مسلمانوں کے تمام اجتماعی کاموں کا مرکز مسجد تھی۔ مسجد صرف پنچ وقتہ نمازوں کے ادا کرنے کی جگہ نہیں تھی۔ مسجد نبوی میں صحابہ کرام سیکھنے سکھانے میں مصروف رہتے تھے۔ دین کو عالم میں پھیلانے کے مشورے بھی مسجد میں ہوتے تھے۔ وہیں سے لشکروں کی روانگی بھی ہوتی تھی۔ آنے والے وفود کو مسجد ہی میں ٹہرایا جاتا تھا وہیں ان کی خدمت ہوتی تھی۔ رسول اللہ ﷺ جو کچھ اللہ کی طرف سے نازل ہوتا وہیں مجمع کو سنایا کرتے تھے۔ لوگ انفرادی طور پر بھی عبادات میں لگے رہتے ، غرض کسی وقت بھی ہمارے زمانہ کی طرح مسجد خالی نہیں ہوتی تھی۔ مسجد کو آباد رکھنا ہی اصل مسجدکی تعمیر ہے۔
مسجدوں میں اتنا غیر ضروری سامان نہ بھریں کہ جس کے چوری ہوجانے کا اندیشہ ہو اور پھر نماز کے بعد تالا لگانے کی ضرورت محسوس ہو۔ مسجد میں نمازیوں کی ضرورت کا ہر سامان موجود ہو۔ نمازیوں کو راحت رسانی کی پوری فکر ہو لیکن نمائش نہ ہو۔ آج کل ممبر اور محراب ہی پر ہزاروںروپئے صرف کئے جارہے ہیں جو اسراف ہیں اور صرف آنکھوں کی لذت کا ساماں ہے۔ روحانی غذا کا اس میں کوئی انتظام نہیں ہے۔ حضرت عمرؓ نے مسجد نبوی میں جو محراب بنوایا اس کی حکمت امام کی آواز کو پوری مسجد میں پھیلانے کی تھی وہ محراب کروی آئینہ کی قسم مقعر آئینہ کی طرح ہوتا تھا اور امام کا منھ اس آئینہ کے نقطہ ماسکہ (focus) پر ہوتا تھا یہ آواز اس محراب میں ٹکرا کر پوری مسجد میں بغیر مائک کے پھیلتی تھی۔ حضرت عمرؓ کا نقطہ نظر سائنسی تھا نہ کہ صرف ڈیزائن تھی۔ اب اس زمانہ میں صرف محراب کی ڈیزائن رہ گئی وہ مقعری ساخت نہیں رہی۔ اور نہ ہی اس کی ضرورت باقی رہی۔ اس کی جگہ اب لاؤڈ اسپیکر نے لے لی ہے۔ حضرت عمرؓ کی اس نشانی کو باقی رکھیں لیکن اس میں سادگی ہو اس میں بلاوجہ اسراف نہ ہو۔ اس کی بجائے مسجد میں محلہ کے سو فیصد مسلمان حاضری دیں اور مسجد صبح سے شام تک اعمال سے آباد رہے اس کی فکر کریں۔
مسجدوں میں لوگوں کے لئے ایسے انتظامات کریں کہ لوگ اپنے خالی اوقات مسجد میں گذارا کریں۔ اس کے لئے اجتماعی طور پر کسی ایک نماز کے بعد مصلیوں کے لئے تقریباً آدھا گھنٹہ کے لئے حدیث کی تعلیم کا نظم ہو اس میںخصوصاً فضائل کی حدیثیں سنائی جائیں تاکہ لوگوں کے اندر اعمال کاشوق اور جذبہ بڑھتا رہے۔ اور یقین میں تبدیلی ہوتی رہے مادی اور غیر یقینی اسباب سے ہٹ کر یقینی حقیقی اسباب یعنی اعمال کی طرف آئے ۔اس کے ساتھ ایک آدھ گھنٹہ کے لئے لوگوں کو ان کی ضرورت کی باتیں سیکھنے سکھانے کا نظم ہو جیسے حضورؐ نے اس کا نظم کیا کہ آپ کے صحابہ میں سے ہر ایک دین کے علم میں گہرا تھا۔ اعمقھم علما یہ صحابہ کی مشترک صفات میں سے ہے۔ وہ سب کے سب دین کے جاننے والے تھے۔ اس سیکھنے سکھانے کے عمل سے لوگون کا وقت مسجد میں گذرینگا۔ ورنہ اس وقت یہ حال ہے کہ جو لوگ فارغ ہیں یعنی ریٹائرڈ قسم کے ہیں نمازوں کے بعد مسجد کے باہر بیٹھ کر لایعنی اور گپ شب میں وقت گذارتے ہیں اور اپنے اعمال خراب کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ انفرادی مطالعہ کے لئے مسجدوں میں دین کی ضروری کتابیں رکھی جائیں۔ ہر مسجد میں کم از کم ایک الماری دینی کتابوں کے لئے مختص ہو۔ جس میں قرآن پاک کی تفسیریں، حدیث کی کتابیں، کچھ سیرت رسول اور سیر صحابہ اور سیرت صلحاء و اولیاء کی کتابیں کچھ فقہی مسائل کی کتابیں ہوں۔ اگر یہ کتابیں موجود ہوگی تو پڑھے لکھے لوگ ضرورت کے وقت ان کتابوں کو لیکر مسجد ہی میں بیٹھنگے۔ خود بھی نفع اٹھائینگے دوسروں کو بھی پہنچائینگے۔
ابھی یہ حالت ہے کہ کئی مسجدوں میں وہ بھی شہر کی ،قرآن پاک کے نسخے بھی نہیں ہیں۔ صرف
۳۰! پاروں کی چند پیٹیاں رکھی ہیں جو قرآن خوانی کے وقت کام آتی ہیں۔ مقتداؤں کی طرف سے بھی کوئی ایسی ترغیب نہیں دی جاتی کہ مسلمان روزانہ قرآن کی تلاوت کیا کریں۔ بعض مسجدوں میں ایک بھی مترجم قرآن شریف نہیں ہے۔ چاہتے ہیں کہ مسلمان جاہل رہیں۔ اگر یہ پڑھنے پڑھانے کا سامان مسجد میں موجود ہوگا تو جہالت میں کمی آئے گی۔ مسجدوں سے انس بڑھے گاتو دینداری بھی بڑھے گی۔ مسجد مسلمان کے لئے تربیت گاہ ہے۔ یہ تربیت اسی وقت ہوگی جب مسلمان مسجد میں وقت دیں اور یہی اصل تعمیر مسجد ہے۔ درودیوار کی تعمیر حقیقی تعمیر نہیں ہے۔ گوکہ ثواب اس پر بھی ہے اور اس میں بھی مصلیوں کی ضرورتوں کا اصل انتظام ہے۔ اوروہ موجودہ زمانہ کے لحاظ سے لوگوں کی بودوباش کا خیال رکھتے ہوئے ہو۔ مسجد میں پنکھے اور کولر لوگوں کی ضرورت کے مطابق ہو۔ کافی جاء نمازیں ہوں مائک کا انتظام صحیح ہو۔ مسجد میں بیت الخلاء اور استنجا خانے، غسل کانہ صاف ستھرے ہو۔ اس معاملہ میں بہت لاپرواہی کی جاتی ہے۔ لوگ مسجد کے استنجا خانوں اور بیت الخلاء کو بہت گندا کرتے ہیں اسی کی دیواروں پر تھوکتے ہیں۔ اس معاملہ میں لوگوں کی تربیت کی جائے، جمعہ کے بیانات میںاس پر تنبیہ کی جائے۔ اور صفائی کے لئے مسجدوں میں مستقل خادم رکھے جائیں سارا کام موذن پر ہی نہ رہے۔ وضو خانہ کو بھی صاف ستھرا رکھا جائے۔ موسم کے لحاظ سے نمازیوں کے لئے وضو کے واسطے گرم اور ٹھنڈے پانی کا انتظام ہو۔ پینے کے پانی کا بھی معقول انتظام ہو۔ لوگ اگر ٹھنڈا fridge کا پانی پینے کے عادی ہوگئے ہوں تو ٹھنڈے پانی کی مشین بھی مسجد میں مہیا کی جائے۔ مسجد میں اگر بجلی کی وجہ سے لوگوں کو بار بار تکلیف ہوتی ہو تو invertor کا بھی انتظام ہونا چاہئے۔
یہ ضرورت کے سامان ہیں جو کسی زمانہ میں ضروری نہیں تھے لیکن اب لوگوں کامعیار زندگی اتنا بلند ہوچکا ہے کہ اگر مسجد میں یہ چیزیں نہ ہوگی تو لوگ مسجد میں زیادہ نہیں ٹہرسکے گے۔ بلکہ بعض لوگ تو ان ہی ضرورتوں کے فقدان کو بہانہ بنا کر مسجد میں نہیں آئینگے۔ اس لئے ان چیزوں کو اسراف نہ خیال کریں۔ مسجد کی عمارت میں ہوا دار کھڑکیاں، روشنی کا بھی معقول انتظام ہو لیکن اس میں حد سے آگے نہ بڑھیں۔ مثلاً جو کام
۵! ہزار روپئے میںآسانی سے ہوسکتا ہے محض نمائش اور decoration کے لئے ایک لاکھ روپئے خرچ کئے جائیں۔ بے ضرورت P.O.P. کی ڈیزائن بنائی جائے یہ اسراف ہے۔ دیوارون پر tiles لگائے جائیں محض اچھا دکھنے کے لئے یہ بھی اسراف ہے اس سے کوئی ضرورت متعلق نہیں ہے۔ مسجد کی فلور بھی بقدر ضرورت ہی چکنی اور پرکشش ہو۔ آخر اس پر جاء نماز تو بچھتی ہی ہے۔ اس میں بھی لوگوں کے معیار کے مطابق ہی جاء نمازہو۔ ہر جگہ قالین کی ضرورت نہیں ہے۔ جاء نماز صاف ستھری ہو۔ نرم ہو۔ چوڑائی میں اتنی کم نہ ہو کہ لوگوں کو نماز پڑھنے میں دقت ہو۔ مسجد میں امام ایسے ہوں جو لوگوں کی دینی ضرورت کو پورا کرسکیں۔ تربیت کریں سب کو لیکر چلیں۔ حلیم مزاج اور معمر ہوں۔ ایسے کم عمر لڑکے جن کے حلیہ سے بھی لوگوں کو کراہیت ہو ، کو امام نہ بنائیں۔ اما م پنچ وقتہ نمازوں میں حاضر باش ہو۔ صحیح قرآن پڑھنے والاہو۔ گروپ بندی کرنے والا ، ٹولیاں بنانے والے نہ ہو بلکہ زھد اور تقویٰ کی صفت اس میں پائی جاتی ہو۔
یہ سب چیزیں تعمیر مسجد میں داخل ہیں اور اس کے کرنے پر وہ سارے فضائل حاصل ہوسکتے ہیں جو تعمیر مسجد پر بیان کئے گئے ہیں۔ اصل پر نظر نہ رکھتے ہوئے محض رسمی تعمیر کوئی چیز نہیں ہے۔ بلکہ بغیر اخلاص کے ایسی تعمیرات بجائے نجات کے پکڑ کا ذریعہ بن سکتی ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں مساجد کو معمور رکھنے کی تو فیق عطا فرمائے۔ آمین

Thursday, May 12, 2011

hazal....Izhare Ishq Karte Hain Jooton Se Mar Ke


ہزل

محمّد اسد اللہ

ناگپور

اظہارِ عشق کرے ہیں جو توں سے مار کے

معنی بدل گئے ہیں یہاں کل سے پیا ر کے

سر ہے وبالِ جان تو اس کی بھی ہے دوا

رکھ دیتے ہیں ہمارے یہاں سر اتا ر کے

ہیں مبتلائے حالتِ فکرِ معاشِِ بد

سب تھک گئے ہیں قوم کی حالت سدھار کے

سن رکھ کہ کان پو ر میں ہڑ تال ہو گئ

سن سن کے یہ تقاضے ترے بار بار کے

کچھ ایسا کر کہ تو بھی اسے بے قرار کر

سنتا نہیں وہ نا لے دلِ بے قرار کے

ہم نقدِ جاں لئے ہو ئے بس سوکھتے رہے

سپنے وہ لے کے چل دیا ان سے ادھار کے

پبلک میں کیا سدھار ہے ہر گز نہ پو چھئے

لیڈر کے رخ پہ دیکھئے جلوے نکھا رکے

دانے گرے تو پیڑوں سے سارے اتر پڑے

پنچھی بنے ہو ئے ہیں سبھی ایک ڈار کے

کیونکر زبانِ درازی ِ بلبل و گل رکے

دیکھے ہیں سب نے فائدے چینخ و پکار کے

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔