Friday, August 21, 2009

tree plantation, mahauliyat, ماحولیات, جنگلات کا تحفّظ



جنگلات کا تحفّظ 
  

فرزانہ اسد

قدرت نے انسان کو اپنی نعمتوں کے بیش بہا خزانے عطا کئے ہیں ،جنگلات بھی ان ہی میں شامل ہیں ۔جنّت کی نعمتوں میں باغات اور نباتات کا خصوصی تذکرہ ملتا ہے ۔کرّۂ ارض پر ان ہی سر سبز و شاداب وادیوں کے سبب انسانی زندگی جنّت کا نمونہ بنی ہوئی ہے ۔انسانوں کی بیشمار ضروریات ان ہی جنگلات کی مرہونِ منّت ہیں۔نباتات کو زمین کے منظرنامہ سے خارج کر دیا جائے تو انسانی زندگی کا تصّور ہی نہیں کیا جاسکتا
۔

یہی جنگلات ہماری غذائی ضروریات کے علاوہ ایندھن ،غلّہ ،پھل ،پھول،اور ادویات کے علاوہ ایندھن کے طور پر استعمال ہونے والی لکڑی بھی مہیّا کرتے ہیں ،جنگلات ہی جانوروں ،چرندوں اور پرندوں کا مسکن ہیں ۔علاوہ ازیں حیوانی زندگی کا وجود انسانوںکی سماجی ،نفسیاتی ،اور جمالیاتی زندگی کی تکمیل کے لئے بے حد ضروری ہے۔اگر جنگلات صفحئہ ہستی سے مٹ گئے تو ان کے ساتھ حیوانی زندگی کا وجود بھی ختم ہو جائے گا ۔راستے میں سایہ دار درختوں کا وجود نہ صرف مفید ہے بلکہ ایک فرحت بخش احساس ہے۔ انسانی زندگی کے سفر میں بھی یہی درخت ایک وفادار ،مخلص اور معاون دوست کی طرح ہر قدم پر موجود ہیں ۔

  سفر ہے شرط مسافر نواز بہتیرے
ہزار ہا شجرِسایہ دار راہ میں ہیں

ہندوستان کی آبادی کا ۲۲فیصد حصّہ قدرتی جنگلات سے ڈھنکا ہوا ہے ۔دنیا کے نقشے میں ،خصوصابرّاعظم افریقہ میں بڑے بڑے جنگلات موجود ہیں۔انّیسویں صدی میں یورپ میں صنعتی ترقّی کا آغاز ہوا ۔سائنسی ایجادات نے اس ترقّی کو پر لگا دئے اس کے نتیجے میں شہری آباد کاری کا عمل بڑے پیمانے پر ظہور پذیر ہوا ۔اس ترقّی و تعمیر میں خرابی کی یہ صورت پیدا ہوئی کہ وہاں بڑے پیمانے پر جنگلات کاٹے گئے اور اسی صنعتی ترقّی کے جاری اور روز افزوں ہونے کے سبب پوری دنیا میں جنگلات کا بڑی تیزی سے صفایا ہو رہا ہے ۔چونکہ درخت ماحولیات کے توازن کو برقرار رکھنے ،بارش کے آنے اور زمین کے کٹاؤ کے عمل کو روکنے میںبڑے معاون ثابت ہوئے ہیں ، اسی کے ساتھ ۱۹۵۰ سے ۱۹۹۰ تک دنیا کی آبادی دگنی ہو گئی یعنی ۳۔۵ ملین کا اضافہ ہوا ۔انسانی آبادی کے ساتھ اس کی رہنے سہنے کی اور اسکی دیگر ضروریات بھی بڑھنے لگیںجن میں لکڑی کا استعمال بطور ایندھن ،فرنیچر،مکانات اور دیگر بہت سے کام بھی شامل ہیں ۔ اسی لئے پوری دنیا نے قدرتی جنگلات کے کاٹے جانے کو ایک بھیانک خطرہ کے طور پر محسوس کیا اورساری دنیا میں جنگلات کے تحفّظ کے لئے ایک مہم چھٰیڑ دی گئی 

یہ وہی زمانہ ہے جب ایندھن کے طور پر لکڑی جلائی جاتی تھی ۔ایک رپورٹ کے مطابق ترقّی پذیر ممالک میں ۹۰ فیصد دیہی آبادی ایندھن کے طور پر لکڑی کا استعمال کرتی رہی ہے۔ ہر سال جنگلات کا ۸۲۵ملین مربّع میٹر رقبہ نذرِآتش کیا جاتا ہے ۔بجلی اور گیس کے استعمال کی وجہ سے ایندھن کے طور پر جلائی جانے والی لکڑی کا استعمال کم ہوا ہے،یہ ایک خوش آئند بات ہے ،البتّہ اس کے باوجودرختوں ی کٹائی کا کام جاری ہے ۔فیکٹریوں کے قیام اور شہروں کو بسانے کے علاوہ عمارتی لکڑی اور دیگر ضروریات کے لئے مستعمل لکڑی حاصل کرنے کے لئے اب بھی بڑے بڑے جنگل کاٹے جاتے ہیں۔
 
ان جنگلات کی کٹائی کو روکنے کی غرض سےؑ ؑاعا لمی پیمانے پر حکومتیں اور فلاحی ادارے سر گرمِمل ہیں ۔لیکن ان کی کوششوں کے باوجود قدرتی جنگلات جس تیزی سے ختم ہو رہے ہیں وہ پوری انسانیت کے لئے ایک خطرہ کی گھنٹی ہے ۔بیشتر حکومتوں نے اور خصوصا ہمارے ملک میں بھی ہرے بھرے اور بڑے پیڑوں کو کاٹنے کے لئے حکومت کی اجازت ضروری ہے ۔بعض پیڑوں کا کاٹنا بھی ممنوع ہے ۔اس کے باوجود قانون کی خلاف ورزی کرنے والے قانون کی گرفت سے بچے رہتے ہیں ۔درختوں کی کٹائی سے ہونے والی کمی کو پورا کرنے کے لئے دو طرح کے اقدامات کئے جا رہے ہیں ۔ایک درختوں کو بچانے کی کوشش اور دوسرے نئے پیڑ لگانے کی مہم ۔

درختوں کو بچانے کی کوششوں میں چپکو موومنٹ کا تذکرہ ضروری ہے ۔یہ وہ ادارہ ہے جو ماحولیات کے توازن کو برقرار رکھنے کے لئے اور فضائی آلودگی کی روک تھام کے علاوہ خصوصی طور پر قدرتی جنگلات کے تحفّظ کے لئے خدمات انجام دے رہا ہے ۔اس کا مقصد عوام میں جنگلات کے تحفّظ کے لئے بیداری پیدا کرنا ہے ۔اس کے علاوہ ہمارے سرکاری اور تعلیمی اداروں کے ذریعے بھی قدرتی جنگلات کے تحفّظ کے لئے عوام کو بیدار کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے ۔سرکاری دفاتر کے آس پاس درخت لگانے کی مہم انتظامیہ کی جانب سے چلائی گئی ہے جس کے خاطر خواہ نتائج برامد ہو رہے ہیں ۔اسکولوں ،کالجوں اور دیگر تعلیمی اداروں میں طلبہ کے ذریعے شجر کاری کرواکر ،ریلیاں اور مورچے نکلوا کر ،شجر کاری کی حمایت میں نعرے لگواکر ان میں یہ احساس جگایا جاتا ہے کہ وہ جنگلات کی اہمیت سے واقف ہوں اور ان کو بچانے میں معاون و مدد گار ثابت ہوں۔

شجر کاری کی مہم خواہ وہ سرکاری ادارہ کی جانب سے چلائی جائے یا تعلیمی و انفرادی اداروں کی طرف سے اس سے نئے پیڑ پودے وجود میں آنے کے امکانات روشن ہو جاتے ہیں لیکن جنگلات کی کٹائی سے شجر کاری مہم کا موازنہ کیا جائے تو یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ ایک درخت کو اگنے اور بڑا ہونے میں برسوں لگ جاتے ہیں اس کے برعکس جن درختوں کو کاٹا جاتا ہے ہم ان سے فورا محروم ہو جاتے ہیں اس لئے جہاں نئے درخت لگانا ضروری ہے وہیں جنگلات کی کٹائی کو روکنا بھی وقت کی ایک اہم ضرورت ہے۔

Wednesday, August 19, 2009

Ghazal - Rastay Manzilon Ke


غزل
محمّد اسد اللہ

راستے منزلوں کے نو حہ گر

منزلیں راستوں کے ماتم میں



زندگی دم بہ دم یہی طوفاں

تم ہراساں ہو ئے ذرا دم میں



خاک پیروں تلے وہی لیکن

سانس لیتے ہیں اور عالم میں



رات رانی سا تو مہکتا ہے

میری یادوں کے
سبز البم میں



ایک شمعِ امیدِ صبح تو ہے

اس پگھلتی ہو ئی شبِ غم میں


Monday, August 10, 2009

ہندوستانی بچّوں کا گیت Patriotic song of Iqbal (Urdu)


ہندوستانی بچّوں کا گیت

علامہ اقبال 

چشتی نے جس زمین میں پیغامِ حق سنایا 
نانک نے جس چمن میںوحدت کا گیت گایا 

تاتاریوں نے جس کو اپنا وطن بنایا 
جس نے حجازیوں سے اپنا وطن چھڑایا

میرا وطن وہی ہے ،میرا وطن وہی ہے 

یونانیوں کو جس نے حیران کر دیا تھا 
سارے جہاں کو جس نے علم و ہنر دیا تھا 
مٹّی کو جس کی حق نے زر کا اثر دیا تھا 
ترکوں کا جس نے دامن ہیروں سے بھر دیا تھا 

میرا وطن وہی ہے ،میرا وطن وہی ہے 

بندے کلیم جس کے ،پربت جہاں کا سینا
نوحِ نبی ؑ کا آ کر ٹھہرا جہاں سفینہ 
رفعت ہے جس زمیں کی بامِ فلک کا زینہ 
جنّت کی زندگی ہے جس کی فضا میں جینا

میرا وطن وہی ہے ،میرا وطن وہی ہے