Wednesday, December 31, 2008

happy new year,poem


Hamd

Hamdo Sana Usi Ki Jis Ne Jahan Banaya
Mitti mien Jan Dali , Aarame Jan Banaya

Ghunche Khilaye Us Ne Pholon KoTazgi Di
Izhare Iltija Ko Hrfo Bayan Banaya.

Pairon Tale Hamare Mamta Bhari Zameen Di
Mushfiq Sa Apne Sar Par Ik Aasman Banaya

Raheen Usi Ki Sanat , Samtein Usi Ki Qudrat
Bakhshe Hain Ham Qadam Bhi Aur Karwan Banaya

Barbadiyon Mein Rakh Di Amno Aman Ki Soorat
Ishrat Kadon Ko Us Ne Ibrat Nashan Banaya

Lafzoon Ki Sari Duniya Us Ki Sana Se Qasir
Ik Lafze Kun Se Us Ne SaraJahan Banaya








NAYE SAL KE LIYE EIK NAZM


Naya Sal Aaya Ujalon Ko Le Kar
Nirale Hain Sapne bahut Hain Yeh Sundar

Gagan Bbhi Vahi Hai ,Yeh Dharti Yahi Hai
Magar Soch Is Bar Badli Hooi Hai

Yeh Duniya Vahi Hai Vahi Nivasi
Purani Si Lagne Lagi hai Zarasi

Naya Din Naye Pan Ka Ehsas Laya
Bahut Door Tha Jo Use pas Laya
Muhabbat Ke Dariya UmangoN Ke Jharny

Sunhare Dinon ke Hain Sapne Salon
Ujalon Bhare Din MaHakti Yeh Shamein
Naye Varsh Ke sath Aasha Ki Kirnen

Naiye Varsh Ki Eik Khamoosh Basti
Mahakti Hooi Sham ,Ujle Se Din Ki

……………….







poem for new year


نئے سال کی ایک خاموش بستی 
(سالِ نو کے لئے ایک نظم )



نیا سال آ یا اجالوں کو لے کر 
نرالے ہیں سپنے بہت ہیں یہ سندر 

گگن بھی وہی ہے یہ دھرتی وہی ہے 
مگر سوچ اس بار بدلی ہو ئی ہے 

یہ دنیا وہی ہے وہی ہیں نواسی 
پرانی سی لگنے لگی ہے ذراسی

نیا دن نئے پن کا احساس لایا 
بہت دور تھا جو اسے پاس لایا 

محبّت کے دریا امنگوں کے جھرنے 
سنہرے دنوں کے ہیں سپنے سلونے 


اجالوں بھرے دن مہکتی یہ شامیں 
نئے ورش کے ساتھ آ شا کی کر نیں 

نئے سال کی ایک خاموش بستی 
مہکتی ہوئی شام اجلے سے دن کی


Tuesday, December 16, 2008

نظم ۔۔۔۔۔میں اپنی مٹّی سے خالی


میں اپنی مٹّی سے خالی ہوتا جا رہا ہوں 
                      ۔۔نظم ۔۔۔

ہویدا ہیں مجھ میں وسعتیں پھر 
میں اپنی مٹّی سے خالی ہوتا جا رہا ہوں
ابھر رہی ہے صدا ئے تیشہ یہاں تو ہر سو 
اور گر گر کے ڈھیر ہو تے جا رہے ہیں 
میری انا کے کٹے صنوبر
جیسے سرحد سے آ رہی ہو ں
شکست کی بار بار خبریں 
میری رگوں میں دھنسی ہو ئی ہر 
جڑ اکھاڑ ی جا رہی ہے ۔ 

افق کے اس پار نم ہو ائیں
آ ندھیوں کے سفر کا سامان باندھتی ہیں 
پہاڑ کی جڑ میں اک فرشتہ 
زمین میں سوئے زلزلوں کو جگا رہا ہے 
پرانے صندوق میں چھپا ایک زرد چوہا 
میری قمیصوں کی آ ستینیں کتر رہا ہے 

ہویدا ہیں مجھ میں وسعتیں پھر
لمحہ لمحہ 
میں اپنی مٹّی سے خالی ہوتا جا رہا ہوں۔


Monday, December 15, 2008

review تبصرہ



گلّی ڈنڈا۔ایک تجزیہ

ڈاکٹر محمّد اسد اللہ

گلّی ڈنڈا ان چند اہم افسانوں میں شامل ہے جس کے بارے میں یہ کہا جا سکتا ہے یہ پریم چند کے خاص رنگ کی نمائندگی کرتا ہے ۔دیہی زندگی اور اس سے جڑے ہوئے افراد کی فطری سادگی ،غر یبی کے ہاتھوں ستائے ہو ئے لوگوں ا ورنخوت و پندار سے سرشار آسودہ حال طبقہ کے درمیان پائی جانے نفسیاتی کشمکش اور تفاوت پریم چند کے مرغوب موضوعا ت ہیں۔ اس خاص شعبہ میں جس قدر مہارت کا ثبوت انھوں نے پیش کیا ہے شاہد ہی کسی ادیب کو یہ اعزاز حاصل ہو ا ہو۔گلّی ڈنڈا بھی اسی قسم کی ایک نمائندہ تحریر ہے۔

افسانہ کی ابتدا بڑی سہج اور فطری انداز لئے ہوئے ہے ۔۔۔’میں‘ کے حوالے سے بچپن کی یادوں کی گرہیں یکے بعد دیگرے کھلنے لگتی ہیں۔آپ بیتی کا لب و لہجہ قاری کو اپنے اعتماد میں لے لیتا ہے اور بظاہر محسوس ہوتا ہے کہ یہ ایک ناسٹیلجیائی کیفیت کی حامل تحریر ہے مگر بہت جلدافسانہ نگار انگریزی اور د یسی کھیلوںکا موازنہ کرکے ہمیں اس فضا کچھ دیر کے لئے باہر نکال کر اپنے مخصوص تصوّرات کے تبلیغ کا اہم فریضہ انجام دینے لگتا ہے ۔:

ولایتی کھیلوں میں سب سے بڑا عیب یہ ہے کہ ان کے سامان بہت مہنگے ہوتے ہیں ۔جن تک کم از کم ایک سو خرچ نہ کیجئے کھلاڑیوں میں شمار ہی نہیں ہوسکتا ۔یہاں گلّی ڈنڈا ہے کہ ہینگ لگے نہ پھٹکری چوکھا رنگ دیتا ہے ۔لیکن ہم انگریزی کھیلوں پر ایسے دیوانے ہو رہے ہیں کہ اپنی سب چیزوں سے ہمیں نفرت سی ہو گئی ہے ۔‘
(گلّی ڈنڈا )
افسانہ آگے بڑھتا ہے اور کھیل کا رنگ چڑھتے ہی ہم اس فضا میں سانس لینے لگتے ہیں جہاںایک ایک سطر میں گاؤں کی سیدھی سادی زندگی اپنی مخصوص مہک بکھیرنے لگتی ہے ۔ گلّی ڈنڈے کے حوالے سے مصنّف نے بچّوں کی دنیا میں پائی جانے والی معصومیت اور رنگا رنگی کو نمایاں کیا ہے۔

بچپن کی یادوں میں گلّی ڈنڈا ہی سب سے شیریں یاد ہے وہ علی الصبح گھر سے نکل جانا، وہ درخت پر چڑھ کر ٹہنیاں کاٹنا ،وہ جوش و خروش، وہ لگن ،وہ کھلاڑیوں کے جمگھٹے ،وہ پدنا پدانا ۔وہ لڑائی جھگڑے ،وہ بے تکلّف سادگی جس میں چھوت چھات اور غریب و امیر کی کوئی تمیز نہ تھی ۔جس میں امیرانہ چونچلوں کی،غرور اور خود نمائی کی گنجائش نہ تھی۔‘ ۔۔۔۔۔ گلّی ڈنڈا
گلّی ڈنڈا میں مصنف کے علاوہ سب سے اہم کردار ہے، گیا،ایک معمولی چمار کا بیٹا اور مصنّف تھانے دار کا بیٹا ہے۔ آگے چل کر ایک ضلع انجینئر بن جاتا ہے اسکی تعلیم شہر ہی میں ہوئی لیکن جب وہ ضلع نجینئر بن کر اسی گاؤں لوٹتا ہے جہاں اس نے بچپن میں گیا کے ساتھ بہت سا وقت گزارا تھا وہ ان تمام یادوں کے ساتھ گاؤں لوٹا ہے مگر وقت کے پُل تلے بہت سا پانی گزر چکا ہے ۔ گلّی ڈنڈا کھیل کے دوران کی گئی نا انصافیاں ابھی تک اس کی یادداشت کا حصّہ ہیں۔ وہ گیا کو ڈھونڈ نکالتاہے اور دوبارہ وہی کھیل کھیلنے کی خواہش ظاہر کرتا ہے۔

یوں کہا جاتا ہے کہ بچپن معصوم اور ہر قسم کے امتیازات سے پاک ہوا کرتا ہے ۔اس طرف پریم چند نے بھی مذکورہ بالا اقتباس میں اشارہ کیا ہے، لیکن اس کے باوجو
بچّوں کے دل و دماغ میں موجود اس بھید بھاؤ کی جڑوں کو پریم چند نے بڑی خوبی کے ساتھ ظاہر کیا ہے ۔

جب گیا نے میرا امرود کھایا تو پھر اسے مجھ سے داؤ لینے کا کیا حق حاصل ہے ۔۔۔امرود دو پیسے کے پانچ والے تھے جو گیا کے باپ کو بھی نصیب نہ ہوں گے ۔۔۔میں تھانے دار کا لڑکا ایک نیچ ذات کے لونڈے کے ہاتھوں پٹ گیایہ مجھے اس وقت بھی بے عزّتی کا باعث معلوم ہوا ۔ ‘۔۔۔۔۔ گلّی ڈنڈا

ظاہر ہے یہ افسانہ اس دور کی تحریر ہے جب سماج میں معاشی برتری سے زیادہ ذات پات کا بھید بھاؤ ایک اہم مسئلہ تھا اس کی گونج ہمیں پریم چند کی دیگر تحریروں میں بھی سنائی دیتی ہے ۔گیا بھی اسی طبقہ سے تعلّق رکھتا ہے جو اسی احساسِ کمتری کا شکار ہے ۔اس کے بارے میں یہ بیان ملاحظہ فرمائیے

مجھ سے دو تین سال بڑا ہوگا،دبلا لمبا ،بندروں کی سی پھرتی ،بندروں کی سی لمبی لمبی انگلیاں،بندروں کی سی جھپٹ گلّی کیسی ہی ہو اس پر اس طرح لپکتا تھا جس طرح چھپکلی کیڑوں پر لپکتی ہے۔ معلوم نہیں اس کے ماں باپ کون تھے، کہاں سے آئے تھے ۔کیا کھاتا تھا پر تھا ہمارے کلب کا چمپین ۔جس کی طرف وہ آجائے اس کی جیت یقینی تھی ۔‘ ۔۔۔۔ گلّی ڈنڈا
پریم چند کا یہ مخصوص انداز ہے وہ اکثر انسانی فطرت میں موجود صفات کی نشاندہی کے لئے جانوروں کی مثالیں استعمال کرتے ہیں مثلاً مشہور افسانہ کفن میں مادھو اور گھیسو کو کنڈلی مار کر سوئے ہوئے دو اژدہوں سے تشبیہ دی گئی ہے ۔گیا کے کردار میں وجہ تشبیہ محض اس کے جسمانی قوّت اور چستی پھرتی کو ظاہر کرتی ہے ۔البتّہ یہ جاندار اپنے شکار کے لئے جو رویّہ اپناتے ہیں اس کے نمونے گیا کے کردار میں افسانہ کے آخری حصّہ میں دکھائی دیتے ہیں ۔لیکن گیا کے کردار کی اصل خوبی یہ ہے کہ حسبِِمراتب کالحاظ اور انسانیت کا پاس اس کی شخصیت کو بلندی عطا کرتا ہے ۔ گیا کا کردار جہاں دیہی زندگی کی جفاکشی اور سادگی کا مظہر ہے وہیں ہٹ دھرمی اور اس کے اندر چھپی ہوئی انسانیت خلوص اور محبّت کی بھی نمائندگی کرتا ہے ۔بچپن میں وہ اپنا داؤ حاصل کرنے پر پوری طرح بضد تھا ۔

ہاں میرا داؤ دئے بغیر نہیں جا سکتے۔‘
’میں تمہارا غلام ہوں ؟‘
’ہاں تم میرے غلام ہو۔‘
’میںگھر جاتا ہوں دیکھو تم میرا کیا کر لیتے ہو ۔‘
’گھر کیسے جاؤ گے کوئی دل لگی ہے داؤں دیا ہے داؤں لیں گے ‘(گلّی ڈنڈا )

لیکن مصنّف جب ایک بڑے عہدیدار کی حیثیت سے اس کے آگے آتا ہے تو وہ اس کی برتری کو احتراماً قبول کرلیتا ہے ۔اس کی ساری بدعنوانیوں کو ایسے نظر انداز کردیتا ہے جیسے وہ کوئی بچّہ ہو ۔گاؤں لوٹنے کے بعد دوبارہ اس کے ساتھ گلّی ڈنڈا کھیلنے کی خواہش کو وہ نہ صر ف پورا کرتا ہے بلکہ داؤ لینے کی باری آتی ہے تو وقت زیادہ ہونے کا بہانہ کرکے آگے بڑھ جاتا ہے کہ مصنف یہ سوچنے لگتا ہے شاید اس کی کھیلنے کی مشق چھوٹ گئی ہے ۔ اسکے بعد اگلے دن ہونے والے میچ میں اس کا کھیل یہ ثابت کرتا ہے کہ اس میں وہی دن خم باقی ہے ۔

پدانے والوں میں ایک نوجوان نے کچھ بے عنوانی کی اس کا دعویٰ تھا کہ میں نے گلّی دبوچ لی ہے۔ گیا کا کہنا تھا کہ گلّی زمین سے لگ کر اچھلی ہے، اس پر دونوں میں تال تھونکنے کی نوبت آئی ۔ نوجوان دب گیا ۔گیا کا تمتمایا ہوا چہرا دیکھ کر وہ ڈر گیا‘۔ ۔۔۔۔۔
گلّی ڈنڈا

پریم چند نے اس افسانہ میں انسانی رشتوں کی بدلتی ہوئی نوعیت کو بہت ہی خوبصورت انداز میں پیش کیا ہے۔ اسی کے ساتھ ا اعلیٰ عہدہ اور مرتبہ حاصل ہونے کے ساتھ ہی بہت سی چیزوں کے چھِن جانے کی کسک بھی گلّی ڈنڈا میں پوری طرح نمایاں ہے ۔

میں اب افسر ہوں ۔یہ افسری میرے اور اس کے درمیان اب دیوار بن گئی ہے میں اب اس کا لحاظ پا سکتا ہوں ادب پا سکتا ہوں لیکن اس کا ہمجولی نہیں بن سکتا ۔۔۔یہ عہدہ پا کر اب میں اس کے رحم کے قابل ہوں وہ اب مجھے اپنا جوڑ نہیں سمجھتا ۔وہ بڑا ہو گیا ہے میں چھوٹا ہوگیا ہوں‘ ۔۔۔۔۔۔ گلّی ڈنڈا

گلّی ڈنڈا پریم چند کے مشہور افسانوں میں شامل ہے اس میں انسانی نفسیات کے نازک گوشوں کی عکاسی نہایت خوبصورت انداز میں کی گئی ہے ۔اس کا آپ بیتی کا انداز قاری کو ابتدا سے آخر تک اپنی گرفت میںرکھتا ہے اورایک متاثر کن کردار گیا کی واضح چھاپ ہمارے دل و دماغ پر چھوڑ جاتا ہے ۔ ٭


Wednesday, December 03, 2008

environmentماحولیات


علمِ ماحولیات کی اہمیت و افادیت 

گذشتہ صدیوں کے دوران سائنسی ایجادات اور انکشافات نے پوری دنیا میں انقلاب بر پا کر دیا ہے ۔ اسی دوران کئی علوم بھی سامنے آ ئے ان میں علمِ ماحولیات خاص طور پر قابلِ ذکر ہے ۔ علمِ ماحولیات کی اہمیت اور افادیت کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے ہے کہ ہمارے تعلیمی اداروں میں ابتدائی تعلیم سے اعلیٰ تعلیم تک ہر سطح پر اب علمِ ماحولیات کی تدریس کو ضروری قرار دیا گیا ہے ۔ 
علمِ ما حولیات کو تعلیمی اداروں میں نصاب میں شامل کر نے کا ایک مقصد یہ بھی ہے کہ طلباء اس ماحول سے واقف ہوں جس میں وہ رہتے ہیں اس میں مو جود قدرتی وسائل کا صحیح استعمال انھیں آ ئے اور اس کے مضر اثرات سے اپنے آ پ کو بچا سکیں ۔ اسی کے ساتھ دنیا کے مختلف خطّوں میں پا ئی جانے والی انسانی زندگی کے بارے میں بھی ان کو معلو مات حاصل ہو سکے ۔ 
مثل مشہور ہے ک
ہ ضروت ایجاد کی ماں ہے ۔عالمی پیمانے پر ماحول کے بگڑ تے ہو ئے توازن اور اس کے بھیانک نتائج نے ساری دنیا کو چونکا دیا ہے۔ اب ماہرین کے علاوہ حکومتیں بھی یہ سوچنے پر مجبور ہو گئی ہیں کہ ماحول کے تحفّظ کے لئے عوام میں بیداری پیدا نہیں ہو ئی تو اس کرّۂ ارض پر انسانی زندگی کا سانس لینا دو بھر ہو جا ئے گی ۔ 

دراصل گذشتہ برسوں میں انسانی آبادی میں زبردست اضافہ ہو ا ہے .
1936           
میں ہندوستان کی آ بادی 36 کروڑ تھی جو 2006 میں ایک ارب گیارہ کروڑ تک جا پہنچی ہے ۔اسی طرح دنیا کی آبادی میں بھی اضافہ ہوا ہے۔صنعتی ترقّی کے سبب بڑے بڑے جنگالات کا صفایا ہو گیا۔ بڑی بڑی فیکٹریوں اور کثیر تعداد میں دوڑنے والی سواریوں سے نکلنے والے دھویں اور کارخانوں کے بیکار پانی سے کیمیاوی مادّے ندیوںاور آ بی ذخیروں میںشامل ہو تے جا رہے ہیں ان سے اگائی جانے والی سبزیاں بھی مضرِ صحت ہیں ۔جنگلات کی کٹائی کا سلسہ اب بھی جاری ہے۔ اگر یہ سلسہ روکا نہیں گیا تو انسانی صحت اس کے برے اثرات پڑیں گے اور آ ئندہ انسانی نسلیں مختلف بیما ریوں کا شکا ر ہوں گی ۔ 

      گذشتہ کئی بر سوں سے عالمی پیمانے پر مو سم میں خطر ناک حد تک تبدیلیاں پیدا ہو رہی ہیں جس کے اثرات ہمارے ملک پر بھی پڑ رہے ہیں ۔اس کے سبب جہاں زراعت اور فصلوں کے نقصان ہو رہا ہے وہیں صحتِ انسانی کے علاوہ صنعت و حرفت اور قدرتی وسائل بھی متاثر ہو رہے ہیں ۔ ہمارے ملک میں دوسرے ممالک کے مقابلے میں تعلیم کی کمی ہے اور اسی وجہ سے ماحول کے متعلق لوگوں میں معلومات کا فقدان ہے ۔ 

ہر ملک میں ماحو ل کے تحفّظ کی خاطر قوانین بنا ئے گئے ہیں اور حکومتیں سختی سے ان کو نا فذ کر نے کی کو شش کر رہی ہے لیکن اس کے با وجود عام طور پر ان اصولوں کی خلاف ورزی کی جا تی ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ عوام میں اس شعور کی کمی ہے جو انھیں اپنے نفع نقصان کو سمجھ کر زندگی گذارنے کے قا بل بنا ئے اور یہ اسی وقت ممکن ہے جب لو گوں میں یہ احساس پیدا ہو گا کہ وہ ماحول کو پرا گندہ ہو نے سے بچا ئیں۔ عالمی پیمانے پر کئی ادا رے ہیںجو اس سلسلہ میں خدمات انجام دے رہے ہیں ۔ ہمارے ملک میں بھی مختلف اداروں کی سرگرمیوں کے علاوہ کئی رسائل ماحولیات کے لئے مخصوص ہیں جو سماجی بیدا ری پیدا کر نے کے کام میں سر گرم ہیں ۔ ۵! جون کو عالمی یومِ ماحولیات کے طور پر منایا جا تاہے ۔ اس مو ضوع پر اخباروں اور دیگر رسائل میں مضامین شائع ہو تے ہیں ۔ جلسے اور مختلف قسم کے تحریری و تقریری مقابلے اور نمائشیں منعقد کر کے لو گوں کو ماحول کی آ لو دگی کے خطرات سے آ گاہ کیاجا تاہے ۔ 

ہماری یہ ذمّہ داری ہے کہ اس سلسہ میں لو گوں کو بیدار کیا جا ئے تاکہ وہ اپنے ماحول کو صاف ستھرا رکھیں اور اس کی حفاظت کریں اور اس کا سب سے بہتر طریقہ یہ ہے کہ ماحول کے بارے میں تعلیم کو عام کیا جا ئے ۔ ہمارے تعلیمی اداروں میں میں اب ابتدا ئی سطح ہی سے ماحولیات کو نصاب میں شامل کیا جا رہا ہے ۔ اس کے فائدے بھی ظاہر ہیں نئی نسل ماحول کی حفاظت کے معاملے میں زیادہ فکر مند اور سر گرم ہے ۔