Sunday, May 03, 2009

Ulti Seedhi Ghazal ,Bachchon ke liyeالٹی سیدھی غزل

الٹی سیدھی غزل
 
محمّد اسداللہ
قلم پنجرے میں اٹکا ہے 

میرے پنجے میں چوہا ہے 

پڑھاتے ہیں سبھی بچّے 

مدرّس پڑھتا رہتا ہے 

دیا آکاش میں جلتا 

ستارہ گھر میں چمکا ہے 

چلی ہے ناؤ بادل میں 

ندی میں چاندبہتاہے 

ہوا بستے میںٹھہری ہے 

قلم کاغذ پہ اُڑتا ہے 

میرے ہونٹوں پہ سِم سمِ ہے 

ہر اک دروازہ کھلتا ہے 

ہمارے پاؤں بے حرکت 

مگر رستہ تو چلتا ہے 

دکھا ئی کچھ نہیں دیتا 

مگر کوئی ہے لگتا ہے


Friday, May 01, 2009

Mini Kahaniسعادت حسن منٹو


سعادت حسن منٹو
منی کہانیاں
۔ ہمیشہ کی چھٹی

پکڑ لو۔۔۔۔ پکڑلو۔۔۔ دیکھو جانے نہ پائے۔
شاید تھوڑی سی دوڑ دھوپ کے بعد پکڑلیاگیا
جب نیزے اس کے آر پار ہونے کے لئے آگے بڑھے
تو اس نے لرزاں آواز میں گڑگڑاکر کہا۔
مجھے نہ مارو، مجھے نہ مارو، تعطیلوں میں اپنے گھر جا رہا ہوں۔

دعوت عمل

آگ لگی تو سارا محلہ جل گیا۔۔ صرف ایک دوکان بچ گئی۔۔۔۔۔
جس کی پیشانی پر یہ بورڈ آویز اں تھا۔
’’یہاں عمارت سازی کا جملہ سامان ملتا ہے۔‘‘

۔کرامات

لوٹا ہوا مال برآمد کرنے کے لئے پولس نے چھاپے مارنے شروع کئے۔ لوگ ڈر کے مارے لوٹا ہوا مال رات کے اندھیرے میں باہر پھینکنے لگے ۔ کچھ ایسے بھی تھے جنھوں نے اپنا مال بھی موقع پا کر اپنے سے علیحدہ کردیا تاکہ قانونی گرفت سے بچ سکیں۔ ایک آدمی کو بہت وقت پیش آئی اس کے پاس شکر کی دو بوریاں تھیں جو اس نے پنساری کی دوکان سے لوٹی تھیں۔ ایک تو وہ جوں توں رات کے اندھیرے میں پاس والے کنوئیں میں پھینک دیا لیکن جب دوسری اٹھا کر اس میں ڈالنے لگا تو خودہی ساتھ ساتھ چلا گیا۔ ۔۔۔۔ شورسن کر لوگ اکٹھا ہوگئے کنویں میں رسیاں ڈالی گئیں دوجوان نیچے اترے اور اس آدمی کو باہر نکال لیا لیکن چند گھنٹوں کے بعد وہ مرگیا۔
دوسرے دن جب لوگوں نے استعمال کے لئے اس کنویں سے پانی نکالا تو وہ میٹھا تھا۔اس رات اس آدمی کی قبر پر دئے جل رہے تھے۔٭