Saturday, August 09, 2008

Nazim Ansari (Urdu Poet)

ناظم انصاری۔ وسط ہن کا ایک منفرد شاعر

عام آ دمی دنیا بھر کی الجھنوں اور فکر و پریشانوں سے چند لمحے خو د فراموشی کے ڈھونڈتا رہتا ہے ۔ظالم سماج کے جبر اور زیادتی کو جھلنے کے سوا وہ کچھ نہیں کر نہیںپاتا ۔مزاحیہ شاعر اسے اسی سماجی یا سیاسی نظام پر ہنسنے کے مواقع فراہم کر تا ہے ،اس کی دل کی بھڑاس نکالنے کا وسیلہ عطا کر تا ہے یہی CATHARSIS مزاحیہ شاعری کو عوام میں مقبولیت سے ہمکنار کر تا ہے، جیسے سو کھی گھاس کو آ گ پکڑ لیتی ہے ۔ان دنوں ٹی وی پر ہنسانے والے سیریل اور پرو گرام اس کا ثبوت ہیں ۔
شہر ناگپور کے شعراء میں طنز و مزاح کو جن شعرا نے وسیلۂ اظہار بنایا ان میں ناظم انصاری ، جملوا انصار ی اور جلیل ساز (منہ پھٹ ناگپوری ) ،خاص طور پر قابلِ ذکر ہیں ۔ ہندوستان بھر کے مشاعروں میں شرکت اور مزاحیہ ادب کے مقبول ترجمان ماہنامہ شگوفہ حیدر آ باد میں کلام کی اشاعت کے ذریعے اس علاقہ کے جن لو گوں نے نام کمایا ان میں ناظم انصاری کو سرِ فہرست رکھا جا سکتا ہے۔

شہر حیدر آ باد ،لاہور کی زندہ دلی اردو ظرافت میں اپنے نقوش ثبت کر چکی ہے آ زادی کے بعد ودربھ میں بھی نثر اور نظم ہر دو اصناف میں کئی قلمکار ابھرے جنھوں نے اردو کے مزاحیہ ادب میں اپنی پہچان بنائی ۔ ناظم انصاری مشاعروں کی وسیلے سے وسط ہند کے ایک مشہور شاعر کی حیثیت سے جانے گئے ۔

ان کی شاعری میں ہلکی ہلکی رومانیت ، ، دلوں کو گد گدا نے والی کیفیت،پر لطف مو ضوعات ،حالاتِ حاضرہ کو مسکرا تی ہو ئی عینک اور ترچھی نظروں سے دیکھ کر فقرہ کسنے کا نرا لا انداز ،(فقرہ کسنے کے لئے ہزل کے شعر سے زیادہ مو زوں پیمانہ اور کیا ہو سکتا ہے ؟ )اس کے علاوہ انگریزی الفاظ کا چٹخارہ ،ان تمام لوا زمات نے ناظم انصاری کی ہزلوں کوقبولِ عام عطا کیا ۔ ناظم انصاری ہندوستان بھر میں دور دراز کے مشاعروں میں بھی بلا ئے جاتے تھے ،ان کی شاعری اور مشاعروں کا یہ سفر تا دمِ آ خر بر قرار رہا بلکہ بالاخر سفرِ آ خرت کا پیش خیمہ ثابت ہوا ۔ اگست ۱۹۸۵؁ء میں دہلی کے کل ہند مشاعرہ میں شرکت کے بعد ناگپور واپسی کے سفر میں ،ٹرین میں ہی جب وہ آ رام فر ما رہے تھے ، نہ جانے کب اپنی آ خری آ رام گاہ کی طرف چل دئے۔
ناظم انصاری ۲! جنوری ۱۹۲۹ کو ناگپور میں پیدا ہو ئے ۔ان کے جدِّ امجد شیخ دھنی جن کا آ بائی وطن بازاررسیا ( ضلع جون پور تھا) ۱۸۸۰ ؁ء میں انھوں کامٹی آ کر سکونت اختیار کی اور رخت سازی کو اپنا ذریعۂ معاش بنایا ۔ ناظم انصاری کے چار بھائیوں میں مو من پو رہ ناگپور میں واقع حنیف بک ڈپو کے مالک محمّد حنیف مر حوم اور مشہور ہزل گو شاعر جمیل الدین جملوا انصاری بھی ہیں ۔

ناظم انصاری نے بچپن میں قرآب مجید کا ناظرہ ختم کیا ، ان کی تعلیم کا سلسلہ چو تھی جماعت سے آ گے قائم نہ رہ سکا ۔ ان کے بڑے بھا ئی محمّد حنیف نے انھیں اپنے اپنے کا رو بار میں شریک کر لیا ۔ بعد میں ناظم انصاری نے اکولہ میں ایک بک ڈپو بھی قا ئم کیا تھا لیکن والد صاحب کی علالت کی وجہ سے اسے بھی بند کر دینا پڑا ۔ ناگپور میں ایک ریڈیمیڈ کپڑوں کی دکان چلانے کی بھی نباکام سی کوشش کرڈالی اور آ خر کار ایک پرنٹنگ پریس قائم کیا جو ان کا مستقل ذر یعۂ روزگاررہا ۔
ناظم انصاری انصاری جہاں ایک اچّھے شاعرتھے وہیں ،فٹ بال کے اچّھے کھلاڑی سر گرم سوشل ورکر، خوش الحان موذّن ،شرح کے پابند اور درد مند دل کے مالک ،نیک انسان تھے ۔

تصویر میں ان کے چہرے پرصلح کے انوار،آ نکھوں میں ذہانت کی چمک نمایاں ہے ۔
ڈاکٹر شر ف الدین ساحل کے بیان کے مطابق ،حنیف بک ڈپو میں ہمیشہ رہنے کی وجہ سے ان کو ادبی کتابوں کے مطا لعے کا خوب مو قع ملا اور ان کی طبیعت شعر گو ئی کی طرف ما ئل ہو ئی ۔ انھوں نے اپنی شاعری کی ابتدا شعر گو ئی سے کی ۔ آ گے چل کر غزل سے اپنا منہ پھیر کر ظرافت کی طنز و ظرافت کا راستہ اختیار کیا ۔ ان کے مجموعے ۔۔’گو بھی کے پھول ‘ کے مطالعے کے بعد یہ اس حقیقت کو ماننا پڑتا ہے کہ اس کا نصف حصّہ عشقیہ خیالات سے پر ہے ۔ ناظم انصاری کی ہز لوں میں کم عمری کے عشق کا مذاق ، معاملاتِ عشق میں پیش آ نے والی مضحکہ خیز صورتِ حال کی عکاسی نمایاں ہے ۔ اس میں کہیں کہیں ہلکی سی غم کی جھلک بھی نظر آ جاتی ہے لیکن مجموعی طور پر لطف اندوزی کا پہلو نمایاں ہے ۔ چند اشعار ملاحظہ فر مائیں ۔

دیوانہ اس نے کر دیا اک بار دیکھ کر ہم کر سکے نہ کچھ بھی لگا تار دیکھ کر
عینک لگا ئے رہتا ہوں رنگن اس لئے چندھیا نہ جا ئے آنکھ رخِ یا ر دیکھ کر
ابھی سے آپ کی نظریں جھکی جھکی کیوں ہیں ابھی تو عمر ہے تیرِ نظر چلانے کی

۲اسی پر سے اندازہ تم سب لگاؤ ہماری محبّت ہے کتنی پرانی
اِدھر آنکھ پر ہو گیا ہے، اضافہ ُادھر بال ٹِکنی کلر ہو گئے ہیں
دیوانے تیرے بھڑ گئے تبلیغ میں جا کر اب آ کے لبِ بام کھڑا کس کے لئے ہے
ان اشعار میں شاعر نے ظرافت کا پہلو تھامے ہو ئے روایتی عشق کو نئے انداز سے بر تا ہے ۔
حاصل جو ہو ئی مجھ کو جا گیر تیرے غم کی ٹاٹا نظر آ تا ہوں بر لا نظر آ تا ہوں
دردِ دل کی چا رہ جو ئی کے لئے آ تے نہ کیوں تیری بزمِ ناز کو دا رالشفاء سمجھے تھے ہم
اسی عشق میں شاعر کا سب سے بڑا نشانہ محبوب کے والدِ محترم ہیں جنھیں جا بجا نشانۂ طنز بنا یا گیا ہے ۔ ان اشعار میں والد کے محبوب کا سراپا اور محبوب کی بے بسی فنکارانہ انداز میں نمایاں ہے ۔
دیکھ کر تیرے پتا جی کا جلالی چہرہ پہلوانوں کے کلیجے بھی دہل جاتے ہیں
واقف ہوں ترے باپ کی فطرت سے بخوبی گلیوں میں تری پہرہ لگا کس کے لئے ہے
ہاتھ کی پا ؤں کی سر کی یاد آگئی مجھ کو جب تیرے فادر کی یاد آ گئی
کرم فر ما رہے ہیں آ جکل پھر گرم جو شی سے تیرے ڈیڈی کا پھر کچھ آ ئیڈیا معلوم ہو تا ہے
میں تیرے ساتھ تیرے باپ کو بھی خوش رکھوں میری بساط سے باہر دکھا ئی دیتا ہے
ناظم انصاری کی مزاحیہ شاعری میں دو مو ضوعات اہم ہیں یو ںکہا جا سکتا ہے کہ ان کی شاعری کا بڑا حصّہ ان ہی کا طواف کر تا ہے۔ یہ دو نوں مو ضوعات ایک ہی لکیر کے دو سرے ہیں اس سفر کا مطا لعہ بھی دلچسپی سے خالی نہیں ۔ محبوب سے بیگم بنّے تک کا یہ سفر ۔ جہاں محبوب سے متعلق اشعار میں رومانی فضا کو مزاحیہ انداز میں بیان کیا گیا ہے وہیں بیگم کے حوالے سے ازدواجی زندگی کی تلخیاں اور حقائق طنز نگار کے نشا ہیں ۔
بیگم کی خواہشات ارے باپ کیا کروں مانگے ہے کا ئنات ارے باپ کیا کروں
کشتی کے باد بان مجھے یاد آ گئے بیگم تمہاری نو گزی شلوار دیکھ کر
ڈاڑھی کا ایک بال بھی باقی نہیں رہا بیگم یہ کیا ملا دیا تم نے خضاب میں
اسے بھی بیچ کے کھا لیں گے ایک دن بیگم تمہارے میکے کا جو پاندان باقی ہے
گو بھی کے پھول کی ہز لوں میں عصری زندگی کی نا ہمواریاں اور انسانی فطرت کے کمزور پہلو بھی پر لطف اندا ز میں اس طرح بیان کئے گئے ہیں کہ ان نا انصا فیوں اور ظلم و زیادتیوں کی خلش صاف طور پر محسوس ہو تی ہے جو ہماری زندگی کا حصّہ بن چکے ہیں ۔

دو چار خون کر بھی جو ڈالوں تو میرا کیا چاچا میرے وکیل ہیں با وا مجسٹریٹ
یہ جامہ زیبی تمہاری ارے معاذاللہ تمہارا جسم تو کلیر دکھائی دیتا ہے
ننگِ تہذیب میں داخل تھا کبھی اے ناظم آج فیشن میں گنا جاتا ہے عر یاں ہو نا
فیلڈ ہو کو ئی کلر اپنا جمائے رکھئے ٹانگ ٹو ٹی ہی سہی پھر بھی اڑا ئے رکھئے
اردو شاعری کی روایات کا پاس رکھتے ہوئے، عصری زندگی کی نا ہمواریوں کو تاڑ کر انھیں اپنی شعری تخلیقات کا حصّہ بنانے کا ہنر ناظم انصاری کو آ تا تھا اوراسی فن کے لئے وہ یاد رکھے جا ئیں گے ۔

1 comment:

  1. Download word In English to Urdu dictionary Free
    English to Urdu Dictionary and Urdu to English Dictioanary Free
    Word In English to Urdu and Urdu to English Dictionary.
    Word In Dictionary supports many features such as synonyms
    of a ward.Usage of word different sentences.Usage of word as
    a verb,noun,adjective.

    ReplyDelete