شاعری کی تدریس
ادب انسانی تہذیب کی ترقّی کی شاہ راہ پر ایک سنگِ میل کی حیثیت رکھتا ہے۔ادب کی جملہ اصناف انسانی خیالات ،احساسات اورجذبات کے اظہار کے لئے مختلف پیرائے مہیا کرتی ہےں۔ زبان کا مقصد ہی اپنے مافی الضمیر کو مخاطب تک پہنچانا ہے اور ادبی پےرایہءاظہار اس کے لئے مناسب ترین پیمانے اور طریقے اختیار کرتا ہے۔شاعری نثر اصناف سے ان معنوں میںمختلف ہے کہ نثر میں کسی بات کو تفصیل اور وضاحت کے ساتھ بیان کیا جاتا ہے اور شاعری متعدد خیالات اور احساسات کو مختصر اَ جامع انداز میں پےش کرتی ہے۔بلاغت شاعری کا طرہءامتیاز ہے ایجازو اختصار شاعری کی خصوصی ملکیت ہے ۔ان ہی خوبیوں کی بنا پر شاعری کے حسن و قبح کو پرکھا جاتا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ شاعری میں اساتذہ فن اور قدیم شعراءحشو زوایدکا خاص خیال رکھتے تھے۔اس بات پر نظر رکھی جاتی تھی کہ کوئی لفظ بھی بلا وجہ بلا معنی نہ آئے ۔علاوہ ازیں شاعری کی تخلیقی حیثیت اسلئے بھی تسلیم کی جاتی ہے کہ شاعر استعمال شدہ اور فرسودہ الفاظ کو نئے معنی سے آراستہ کرتا ہے ۔ استعاراتی اور علاماتی طور پر الفاظ نئے مفاہیم کے ساتھ شاعری میں وارد ہوتے ہےں۔کسی شاعر کا کمال یہی ہے کہ وہ مروّجہ الفاظ کو نئے مفاہیم کے ساتھ استعمال کرے ۔غالب ،اقبال اور فےض کے کلام میں اس کی بے شمار مثالےں موجود ہےں کہ ا نھوں نے الفاظ کو اپنے معاصرین اور مقدمین شعراءسے ہٹ کر نئی معنوی جہت عطا کی۔ اقبال اور فےض نے بالترتیب اسلامی اور کمیونسٹ نقطہءنظر سے نئے استعارے خلق کئے۔اسی طرح ترقّی پسند تحریک اور جدیدیت نے بھی جہاں نئی لفظیات کو شعری عمل کا حصّہ بنایا وہیں ان الفاظ کو نئے سیاق و سباق سے بھی آراستہ کیا اور نئی علامتوں کے ذریعے نئے مفاہیم کو جنم دیا ۔شاعری میں الفاظ کے علاماتی اور استعاراتی استعمال سے قطع نظر سماجی اور سیاسی سیاق و سبا ق بھی شاعری کے معنی و مفہوم کو کہیں تو مخصوص و محدود معنی و مطالب کی شناخت عطا کرتے ہیں تو کہیں انہیں آفاقیت عطا کرتے ہیں ۔ مثلامرزا غالب کا مندرجہ ذےل شعر مغلیہ حکومت کے زوال اور خاتمہ پر اےک بلیغ تبصرہ سمجھا جاتا ہے۔
وہ بادہ ¿ شبانہ کی سر مستیاں کہاں
اٹھیے بس اب کہ لذت ِ خوابِ سحر گئی
اٹھیے بس اب کہ لذت ِ خوابِ سحر گئی
شاعر کی ان ہی خوبےوں کی بنا پر اس کی تفہیم کی ضرورت پےش آتی ہے ۔ شاعری خواہ وہ کسی بھی زبان کی ہو فصاحت بلاغت اختصار اور علامتی اظہار کے سبب اپنے اندر اتنی گنجائش رکھتی ہے جہاں (خاص طور پر طلباءکو) اس کے اسرار و رموز کو تشریح و تجزیہ کے ذریعہ سمجھائے جائیں ۔شاعر اپنے کلام میں صنائع معنوی اور لفظی کے وسیلے سے اےسی خلائیں چھوڑدےتا ہے جو قاری یا سامع کے لئے شاعری کو چیستاں یا ایک ایسی گتھی بنا دےتا ہے جسے سلجھانے کی ضرورت پےش آتی ہے۔ اشعار کی تشریح کے ذریعے کلامِ شاعر پرت در پرت کھلتا جاتا ہے۔جدےد شاعری میں تحریری اور علامتی اظہار کے علاوہ ابہام کا کثرت سے استعمال ہوا ہے ۔اسے سمجھانے کے لئے بہرِ حال شارح کی ضرورت پیش آتی ہے تعلیم گاہوں میں یہ کام مدرس کو انجام دےنا ہوتا ہے۔مدرس کا کام صرف یہ نہیں ہے وہ مشکل الفاظ کے معنی سے اپنے طلباءکو واقف کروائے بلکہ شاعری سے لطف اندوزی کا ماحول پیدا کر نا اور ادبی ذوق کی آبیاری کرنابھی شاعری کے مدرس کے فرائض ِ منصبی میں شامل ہے ۔
شاعری کو کلام مِوزوں اور فصیح و بلیغ کلام کہا گیا ہے۔شاعری میں جہاں ردیف و قوافی ،وزن آہنگ اور غنائیت کا اہتمام پایا جاتا ہے وہیں لازمی طور پر معنویت کا بھی خیال رکھا جاتا ہے۔بقول غالب۔
’شاعری قافیہ پیمائی نہیں معنی آفرینی ہے۔‘
غالب نے اپنی شاعری میں استعمال ہونے والے ہر لفظ کو معنی کا خزانہ کہا ہے۔
گنجینہ ¿ معنی کا طلسم اس کو سمجھئے
جو لفظ کہ غالب میرے اشعار میں آوے
جو لفظ کہ غالب میرے اشعار میں آوے
ظاہر ہے کہ شاعری کا صوتی حسن اور خوش آہنگی و موزونیت جہاں ہمارے لئے تسکین ِ طبع کا ذریعہ ہے وہیں شعر کا معنوی حسن بھی لطف اندوزی کا ایک اہم وسیلہ ہے۔ شاعری کو سمجھے بغیر اس سے لطف اندوز ہونا مشکل ہے ۔ اسی مقصد کے تحت قدیم شعراءمثلا میر ، غالب اور اقبال کے کلام کی شرحیں لکھی گئیںاور شارحین نے ان شعراءکے کلام کے اسرا و ررموزکو سمجھانے کی کوشش کی۔
تعلیمی اداروں میں شاعری نصاب کا اہم حصّہ ہوا کرتی ہے ۔ابتداسے اعلیٰ تعلیم تک شاعری کی تدریس ادب کے مطالعہ کا اےک اہم جزو خیال کی جاتی ہے۔مختلف سطحوںپر اس سے متعلق تدریسی مسائل کی نوعیت جداگانہ ہے ۔موثر تدریس کے لئے جس سطح پر شاعری سمجھائی جارہی ہے استاد کو اس کی حدود اور تدریس کے تقاضوں کا علم ضروری ہے اسی لیے نصابی کتابوں کے دیباچہ ہی میں اس کی وضاحت کر دی جاتی ہے مگر عام مشاہدہ ہے کہ اکثر اساتذہ اسے پڑھنے اور دورانِ تدریس اسے برتنے کی زحمت گوارا نہیں کرتے ۔ اسی طرح نصاب کی تیّاری کے دوران طلباءکی ذہنی استعداد اور نفسیاتی ضروریات کا خیال رکھنا بھی نصابی کتابوں کے مرتّبین اوراساتذہ کے لئے لازمی ہے ۔
وارداتِ قلبی کا اظہار اور حصول ِمسرّت کو شاعری کی تخلیق کے مقاصد میں بیان کیا جاتا ہے ۔شاعری کی طرح دیگر ادبی اصناف کی تدریس بھی کئی مقاصد کے تحت کی جاتی ہے ۔اس کا ایک اہم سبب یہ ہے کہ ادب ہماری تہذیبی اور سماجی زندگی کا جزو ِ لا ینفک ہے ادب کی تدریس کئی سماجی مقاصد پر مبنی ہے۔ ادب کے ذریعے تعلمِ اقدار ، اخلاق ،انسانی ہمدردی ،درد مندی ،اخوّت و بھائی چارگی ، حبّ ِ وطن اور انسانیت جیسے اوصاف کو طلباءمیں راسخ کیا جا سکتا ہے۔
شاعری جہاں زبان و انشاکے اصول و قوائد صنائع بدائع کے قوانین سے واقف کرواتی ہے وہیں ابتدائی جماعتوں میں طلباءکو غنائیت سے بھرپور نظموں کے ذریعے شاعری سے لطف اندوز ہونا بھی سکھایا جاتا ہے۔ چونکہ یہ کم عمر طلباءکے فطری تقاضے کے عین مطابق ہے لہٰذا بچّے اس سر گرمی کو بخوشی قبول کرلیتے ہیں ۔اس مقام پر معنی اور مفہوم کی وضاحت کی ضرورت نہیں ہوتی بلکہ پرائمری اسکولوں میں بعض ایسی نظمیں ہوا کرتی ہیں جن میں بے معنی الفاظ بھی ہوتے ہیں ۔البتّہ ثانوی اور اعلیٰ ثانوی سطح پر قدیم شعرا کا کلام اور ہمعصر شاعروں کے کلام کے ذریعے صنائع بدائع کا تعارف دیگر ادبی محاسن کی پہچان اور معنویت کی تفھیم کو خاص طور پر اہمیت حاصل ہوتی ہے۔
شاعری کی تدریس کا ایک مقصد نظموں کے ذریعے طلباءو طالبات میں قومی ،وطنی ،مذہبی سماجی اور اخلاقی موضوعات پر نظموں کے ذریعے ذہنی اور جذباتی تربیت مقصود ہوتی ہے۔ اس کے لئے شاعری کا سمجھنا ضروری ہوتا ہے۔ ان مقاصد کے تحت تعلیمی نصاب میں شامل منظومات کی تفہیم ،تدریس کے خصوصی وسائل کی مرہونِ منّت ہوا کرتی ہے۔اساتذہ مختلف تعلیمی وسائل کا استعمال کرکے شاعری کے لیے طلباءکے ذہنوں کو استوار کر سکتے ہیں ۔
عام طور پر ہماری تعلیم گاہوں میں مختلف سطحوں پرطلباءکی عمرذہنی استعداد اور طبعی ضروریات کے پیشِ نظر تدریس کے مقاصد میں تبدیلی پائی جاتی ہے۔ان اغراض و مقاصد کو مذکورہ جماعتوں کی نصابی کتاب کے پیش لفظ میں واضح پور پر بیان کر دیا جاتا ہے تاکہ اساتذہ ان مقاصد کو پیشِ نظر رکھ کر اپنی تدریسی منصوبہ بندی کریں اور مختلف تعلیمی وسائل کو بروئے کار لائیں ۔
یووک بھارتی جماعت بارہویں کی تدریسی کتاب (پونا، مہاراشٹر بورڈ) میں ان مقاصد کو مکمّل نصاب کے تناظر میں ان الفاظ میں پیش کیا گیا ہے ۔
زبان کا ہماری تہذیبی زندگی سے گہرا رشتہ ہے ۔صحیح نظریہ حیات کی تدریجی تشکیل اور سرمایہ فکر میں اضافہ کی خاطر زبان کا مطالعہ انتہائی ضروری ہے، اس کے علاوہ ادب کا مطالعہ حصولِ مسرّت کابہترین ذریعہ بھی ہے۔اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ مطالعہ زبان و ادب کا موثّرترین ذریعہ نصابی کتابیں ہیں، ۔اسباق کاانتخاب کرتے ہوئے اس بات کو ملحوظ رکھا گیا ہے کہ طلباءنے گیارہویں جماعت تک اردو زبان و ادب کے مطالعہ میں کس حد تک استعداد حاصل کی ہے ۔نیزاسکا بھی خیال رکھا گیا ہے کہ طلباءمختلف ادبی اصناف اور قدیم و جدید ادبی رجحانات سے روشناس ہوں ۔ان میںصالح سماجی نقطہ نظر پیدا ہواور ان کاادبی ذوق پروان چڑھے ۔
ابتدائی جماعتوں سے ہائی اسکول تک جو طلباءشاعری کا مطالعہ کرتے ہیں جونئیر کالج مدرّس کا تعلّق ان سے مختلف قسم کے طلباءسے پیدا ہوتا ہے ۔یہ وہ طلباءہیں جو صغر سنی adolescence پیریڈ سے گزر رہے ہیں ۔اس عمر میں طلباءشدید قسم کی عضویاتی اور نفسیا تی تبدیلیوں سے دوچار ہوا کرتے ہیں ۔ان میں کسی آئیڈیل یا مثالی شخصیت کی طرف شدید دلچسپی ،اپنے آپ پر خصوصی توجہ جسے نرگسیت بھی کہا جاتا ہے،کے علاوہ تخیّل آرائی کی خصوصیات پیدا ہو جاتی ہے ۔اس دور میں طلبا ءرومانی فضا ، قنوطیت اور خود مرکزیت کا بھی شکار ہو جاتے ہیں ۔ایسے نازک دور میں ان کے مزاج اور نفسیات کی تسکین کا سامان بہم پہنچانے والی شاعری یا ادب ان کے ادبی ذوق اور دلچسپی کو ابھارنے میں کارگر اور مفید ثابت ہو سکتا ہے۔ طلباءکے ان فطری تقاضوں کے پسِ منظر میں ماہرینِ تعلیم محفوظ طریقے سے نصابِ تعلیم مرتّب کرتے ہیں ۔
ہمارے تدریسی نظام میںتقریباً ہر سطح پر یہ مسئلہ موجود ہے کہ زبان و ادب پڑھانے والے اساتذہ دورانِ تدریس، ان مقاصد کو کما حقّہ بروئے کار نہیں لاتے ۔عملی تحقیق کے دوران یہ بات مشاہدہ میں آئی کہ بیشتر اساتذہ نے ان مقاصد کا مطالعہ کرنا ضروری نہیں سمجھا اور نہ اس کے مطابق اسباق کی منصوبہ بندی کرنے کی ضرورت بھی محسوس نہیں کی ۔یہ مسئلہ جونیئر کالج کی سطح پر شاعری کی تدریس میں بھی ایک بڑی رکاوٹ ثابت ہوا ہے۔
ان دنوں اردو میڈیم اسکولوں اور کالجوں کے متعلق عام طور پر رائے عامّہ کچھ اچّھی نہیں ہے ،اس کے کئی اسباب ہیں،انگریزی اسکولوں میں تعلیم حاصل کرنے کا فیشن عام ہو گیا ہے یا مغرب پرستی کا زور بڑھ گیا ہے ۔ اس صورتِ حال سے رو گردانی کرنا گویا ریت میں سر گاڑنا ہے ۔اردو ذریعہء تعلیم سے لوگوں کا اعتبار اٹھتا جا رہا ہے تو اس کی کئی معقول وجوہات بھی ہیں جن کی ذمّہ داری بہت حد تک اساتذہ اور ان تعلیمی اداروں کے منتظمین پر بھی عائد ہو تی ہے ۔ہرچند اردو اسکولوں کے امتحانی نتائج تسلّی بخش ہوا کرتے ہیں۔ اس کے باوجود لوگ ہزاروں روپیئے فیس ادا کرکے اپنے بچّوں کو انگریزی اسکولوں میں پڑھانا کیوں پسند کرتے ہیں ؟اس کی ایک اہم وجہ یہ ہے کہ اردو اسکولوں میں معیارِ تعلیم دن بہ دن گرتا جا رہا ہے ۔دیگر اسکولوں کے مقابلہ میں یہاں انتظامیہ،نظم و ضبط ،تدریس وغیرہ کے شعبوں میں بے شمار مسائل قدم قدم پر موجود ہیں اور انھیں حل کرنے کے نہ ہی کوشش نظر آتی ہے نہ ہی اکثر مقامات پر متعلقین کو ان کا احساس ہے۔ہر سطح پر سہل پسندی ،غیر ذمّہ داری اور مجرمانہ غفلت کے مناظر ان اداروں میں دکھائی دیتے ہیں ۔
مذکورہ مسائل میں تدریسی سطح پر جو خامیاں موجود ہیں اس کا خمیازہ ان اداروں میں تعلیم حاصل کرنے والے طلباءو طالبات کو بھگتنا پڑتا ہے ۔اسی لئے اردو میڈیم اسکولوں سے نکلنے والے طلباءمقابلہ جاتی امتحانات میں بہت کم شریک ہوتے ہیں، سہل پسندی کا شکار ہو تے ہیں ، علمی استعداد میں کمی کے سبب ان میں خود اعتمادی کی کمی پائی جاتی ہے۔ان حالات میں یہ ضروری ہو جاتا ہے کہ اس قسم کے ادارے اپنا احتساب کریں اور ان رکاوٹوں کو دور کرنے کی کوشش کریں جن کے سبب اردو معیارِ تعلیم پر لوگ انگلیاں اٹھانے لگے ہیں ۔ اردو زبان و ادب کی تدریس ہی اکژ اردو اسکولوں میں اس طرح کی جارہی ہے کہ یہ اندیشہ ہونے لگا ہے کہ آئندہ نسلوں میں اردو زبان اپنی روایتی شان کے ساتھ باقی بھی رہے گی یا نہیں ؟
اردو شاعری کا معتد بہ حصّہ ،تقریباً اردو کی ہر سطح پر پڑھائی جا نےوالی درسی کتاب میں شامل ہوتا ہے ،زبان وادب سے طلباءکو روشناس کروانے میں یہ بہت حد تک مفید اور معاون ہے اگر اس اہم نصابی جزو کی تدریس سے غفلت برتی گئی یا ناقص تدریس ہوئی تو تعلیم کی منشاءپوری نہیں ہو پائے گی۔اس لئے ضروری ہے کہ ہمارے تعلیمی اداروں میں اس طرف توجّہ دی جائے۔
راقم الحروف نے ایک تعلیمی منصوبہ کے تحت اردو جونئیر کالجوں میں شاعری کی تدریس کے مسائل پر سوالنامہ اور انٹرویو ز کے ذریعے معلومات جمع کر کے اس کا تجزیہ کرنے کی کوشش کی جس سے یہ نتیجہ بر آمد ہو کہ ہمارے تعلیمی اداروں میں جہاں انتظامیہ کے معاملات ،اسکول کے اندرونی کاروبار مثلاًنظم و ضبط ،طلباءکی تعداد ،اساتذہ کی باہمی غیر ہم آہنگی ،وغیرہ اس قسم کے متعددمسائل ہیں وہیں تدریسی سطح پر بھی کئی رکاوٹیں ہیں ۔ان میں شاعری کی تدریس بھی ایک اہم مسئلہ ہے ۔ بیشتر اساتذہ نے ان مسائل کا اعتراف کیا ہے کہ کئی وجوہات کی بناپر ان جماعتوں میں شاعری کی ترسیل و ابلاغ میں دقّتیں پیش آتی ہیں یہاں چند سفارشات پیش کی جارہی ہیں جو اس صورتِ حال کو تبدیل کرنے میں ممکن ہے مددگار ثابت ہوں ۔
١۔تعلیم گاہوں میں اردو کی تدریس کے لئے قابل اساتذہ کا تقرر کیا جاناچاہئے ،خصوصاً ایسے اساتذہ جو ادب کا ذوق ،معلومات اور اسکی ترویج و بقا ءکے لئے جدّوجہد کرنے کا جذبہ رکھتے ہوں ۔
٢۔اساتذہ کی تربیت کے لئے گاہے بگاہے تربیتی کلاسس،سیمینار اور ورکشاپ منعقد کئے جانے چاہئے ۔جن میں زبان و قواعد اور اظہار و بیان کے مسائل پر اس طرح طلباءمیں ادبی ذوق پیدا کرنے سے متعلق رہنمائی کی جانی چاہیے ۔
٣ ۔اساتذہ کو دستی کتاب برائے اساتذہ۔Teachers Handbook مہیا کی جانی چاہیے۔مہاراشٹر اسٹےٹ بورڈ آف سےکنڈری اور ہاےئر سےکنڈری اےجوکےشن ،پونہ نے اس سلسلہ میں ایک مفید دستاویز شائع کی ہے لیکن اس تدریسی سلسلہ سے وابستہ اساتذہ کو اس کا علم تک نہیں ،ان اداروں نے بھی اسے اساتذہ تک پہنچانے کا کو ئی انتظام نہیں کیا اور یہ شکایت کرتے ہو ئے سنے گئے کہ اسے کو ئی پڑھتا نہیں ہے کتابیں دھول کھاتی پڑی ہیں ۔متعلقہ اراکیں کو چاہیے کہ اس قسم کا لٹریچر کثیر تعداد میں اساتذہ کو مطالعہ کے لیے مہیا کیا جائے تاکہ وہ اپنی تدریس کو موثّر بنا سکیں ۔
٤ ۔اساتذہ کو تدریس کے روایتی طریقوں پر اکتفا نہ کرتے ہوئے ،تعلیمی وسائل کا استعمال کرکے طلباءمیں دلچسپی پیدا کرنے کی کوشش کرنی چاہیئے ۔
٥ ۔ریڈیو ۔ٹیلیویژن ۔وی سی ڈی کے علاوہ تصاویرکا استعمال کرکے شعراءو ادباءاور مختلف علاقوں اور عمارات و مخطوطات وغیرہ سے متعلق معلومات طلباءتک بخوبی پہنچائی جا سکتی ہے۔
اسکولوں اور کالجوں میں ادبی سرگرمیاں منعقد ہونی چاہیے،جن میں ادبی نشستیں ،بیت بازی کے مقابلے ،تقاریر ،ڈرامے،اور مشاعرے بھی ہوں ۔ان پروگراموں کو باقاعدگی سے چلانے کے لئے طلباءکی ادبی انجمنیں قایم کی جا سکتی ہیں اس سے ایک فائدہ یہ ہو گا کہ جب طلبا ءذاتی طور پر ان کاموں میں شریک ہوں گے تو ان میں خود اعتمادی اور زبان و ادب کے تئیں دلچسپی پیدا ہوگی۔
اکثر تعلیمی اداروں میں کتب خانوں کا یا تو سرے سے کوئی وجود ہی نہیں ہوتا یا ان کی حیثیت محض دکھاوے کی ہوتی ہے انھیں شو روم بھی نہیں کہا جا سکتا کہ وہاں موجود اشیاءکبھی نہ کبھی کسی کے کے تصّرف میں ضرور آ تی ہیں لیکن ہمارے تعلیمی اداروں میں کثیر تعداد میں ایسی لائیبریریز ہیں جنھیں طلباءکسی سراب کی طرح محض دیکھنے پر اکتفا کرتے ہیں ۔ضرورت اس بات کی ہے کہ طلباءمیں کتب بینی کا شوق پیدا کیا جائے اکژ انگریزی اسکولوں میں طلبا کے لئے کتب بینی اور ان پر تبصرہ کرکے پراجیکٹ پیش کرنے کو لازمی قرار دیا جاتا ہے چونکہ ان پر نمبرات دئے جا تے ہیں اس لئے طلباءکے لیے کتابوں کا مطالعہ لازمی ہو جاتا ہے اور اس طرح ان میں کتابوں کا شوق پیدا ہوتا ہے ۔ اس قسم کی سرگرمیاں اردو تعلیمی اداروں میں بھی شروع کی جا سکتی ہیں ۔تجربہ شاہد ہے کہ طلبا اردو کی کتابیں پڑھنا چاہتے ہیں لیکن ان کے لئے دلچسپ اور ان کی عمر ،ذوق اور ذہنی استعدادد کے مطابق کتابیں ، نہ ان کے گھروں میں دستیاب ہیں نہ اسکول یا کالج میں اس سلسلہ میں کو ئی قدم اٹھایا جاتا ہے ۔اس کے بر عکس غیر اردو داں اداروں میں طلبا بڑے پیمانے پر اسکول لا ئیبریریوں سے استفادہ کرتے ہو ئے نظر آ تے ہیں اور اس کا فایدہ ان کی پبلک لا ئیبریروں کو بھی ہو تا ہے ۔
بعض اسکولوں او ر فلاحی اداروں کے ذریعے طلباءمیں شعری ذوق پیدا کرنے کی غرض سے ایک طریقہ یہ اپنایا جاتا ہے کہ مختلف موضوعات پر یا کسی ایک موضوع پر مشہور شعرا کا کلام خاص طور پر نظمیں طلبا کو دی جاتی ہیں اور کہا جاتا ہے کہ وہ ان منظومات میں پیش کئے گئے خیالات کو تصویر کی شکل دیں ۔ اس قسم کے پینٹنگ کے مقابلے طلباءمیں نہ صرف مصوّری بلکہ شاعری کے شوق کو ابھارنے میں بھی مدد گار ثابت ہو سکتے ہیں ۔
اسکول یا کالج میگزین یا طلبا کے ذریعے تیار کئے گئے وال میگزین ادبی ذوق کی ترویج و بقا میںبے حد معاون ثابت ہو سکتے ہیں۔ اس کے ذریعے طلبا میں خود اعتمادی پیدا ہو گی اور جب وہ ذاتی طور پر ان سر گرمیوں میں مشغول ہو ں گے تو ان کی تعمیری صلا حیتیں بھی برو ئے کار لا ئی جا سکیں گی لیکن اس کے لئے قابل اساتذہ کی رہنمائی اور اداروں کے منتظمیں کی مناسب حوصلہ افزا ئی ضروری ہے ۔
تعلیمی اداروں میں ایسی ماہانہ ادبی نشستوں کا انعقاد ہو نا چاہئے جن میں طلباءاپنی تخلیقات پیش کر سکیں اور چند مستند ادیبوں کے فن پارے بھی پیش کئے جائیں جو طلباءکو متنوع اسالیبِ بیان سکھانے کے کام آ ئیں ۔
بہت خوب
ReplyDeleteNot helpful
ReplyDeleteزبردست
ReplyDeleteThanks for the info
ReplyDelete