غزل
محمّد اسد اللہ
میں پاکٹ کی طرح خود کو کہیں پر بھول آ یا ہوں
یہاں رہتے ہو ئے مجھ کو تو کچھ ایسا ہی لگتا ہے
میں پاکٹ کی طرح خود کو کہیں پر بھول آ یا ہوں
یہاں رہتے ہو ئے مجھ کو تو کچھ ایسا ہی لگتا ہے
کبھی باطل بھگا کر حق کو لے جاتا ہے بستی سے
کبھی حق بھیس میں باطل کے آ کر منہ چڑھا تا ہے
سوا مسدود راہوں سے ،ہوا کے کون آ ئے گا ؟
نہ جانے کس کی خاطر یہ دیا اب جھلملاتا ہے
کبھی اندیشۂ باطل ہمیں سونے نہیں دیتا
کبھی حق نیم شب دروازہ آ کر کھٹکھٹاتا ہے
چٹانوں کی طرح ہم ہیں مگر ٹوٹ ے ہو ئے بھی ہیں
یہاں ہرپل بکھر نے کا ہمیں اندیشہ رہتا ہے
فضائیں ایک مدّت سے اذانوں کو ترستی ہیں
یہاں ہر شخص سچّائی کو بس کانوں میں کہتا ہے
This comment has been removed by a blog administrator.
ReplyDeleteآپ کی شاعری اچھی ہے لیکن آجکل اس ذومعنی شاعری کی بجائے لوگ بے معنی شاعری پسند کرتے ہیں ورنہ وقم مجودہ حال کو نہ پہنچتی
ReplyDeleteبہت اچھی غزل ہے اسد صاحب، گو بغیر مطلعے کے غزل ہے اور پہلا شعر بھی کچھ "ڈھیلا" سا ہے لیکن باقی اشعار بہت اچھے ہیں، لاجواب۔
ReplyDeleteامید ہے آپ کی شاعری ہمیں پڑھنے کو ملتی رہے گی۔
فضاءیں گونجتی ہیں ہر طرف اب تو اذانوں سے
ReplyDeleteمگرگوڈے کھسانے مسجدوں میں کوءی جاتا ہے
Thanks for the comment
ReplyDelete