ایک نوائے حرفِ خموش ۔ظفر کلیم
.............................................................
محمد اسد اللہ ( بھارت )
zarnigar2006@gmail.com
9579591149Mob:
……………………………………………………………………………………………………………..
جب بھی
ہم کسی ایسے شہر کا نام لیتے ہیں جو علم و ادب کی روایات کا امین رہا ہوتو شعر و
ادب کے حوالے سے چند نام ضرور یاد آ تے ہیں۔ وسط ہند ( مہاراشٹر )کے شہر ناگپور کے
اہم شعرا میں ایسا ہی ایک نام ظفر کلیم بھی ہے ۔ظفر کلیم کئی دنوں کی علالت کے بعد
۱۳! دسمبر ۲۴ ۲۰ کو اس جہانِ فانی سے رخصت ہوئے ۔
نرم لہجہ ، مہذب طرزِ گفتگو اوروضع داری ،غرض متاثر کر نے والے کئی عناصرظفر کلیم
کی شخصیت میں موجود تھے ۔ ہر ملنے والے کو ان کا مخصوص انداز یہ باور کر وانے کے
لیے کافی تھا کہ یہ شخص عام لوگو ں سے مختلف ہے ۔ ہر ملاقات پر خلوص ، شفقت و محبت
کا اظہار ان کی شخصیت کو دل و دماغ میں بسا دیتا تھا۔ مشرقی تمدّن کی پہچان مخصوص
تہذیب ،شرافت رکھ رکھاؤ اور حسن اخلاق جیسی خوبیاں ان کی شخصیت اور شاعری دونوں
میں رچی بسی ہوئی تھیں ۔
ظفر کلیم کا اصل نام شمشیر خاں تھا ،وہ ۵! دسمبر ۱۹۳۸ کو ناگپور میں پیدا ہوئے ۔ ایچ ایس سی ڈی
ایڈ کر نے کے بعد اسلامیہ ہائی اسکول میں ملازمت اختیار کی ۔ انھوں نے لائف
انشورنس ایجنٹ کی حیثیت سے بھی کام کیا اور زمینوں کی خرید و فروخت کے میدان میں
اتر کر بلڈر بن گئے ۔ ناگپور کے علاقۂ چھاؤنی میں واقع ظفر کلیم کا تعمیر کردہ
’غزل اپارٹمنٹ ‘ ان کے ادبی ذوق کا ضامن ہے ۔ ظفر کلیم کی ابتدائی زندگی ایک آ
سودہ حال گھرانے میں بسر ہوئی لیکن ان کے والد کے انتقال کے بعد انھیں مختلف
پریشانیوں کا سامنا کر نا پڑا ان میں ظفر کلیم کی اہلیہ اور جوان بیٹے کی رحلت بھی
شامل ہے ۔ انھوں نے ان مصائب کا صبر و تحمل کے ساتھ مقابلہ کیا۔ ان کی شاعری میں
ان سانحات اور زندگی کی جدوجہد کی جھلکیاں واضح طور پر نظر آتی ہیں ۔ ظفر کلیم
اپنی زندگی کے آ خری دور میں سماجی طور پر مشہور شخصیات کے رابطے میں رہے ۔ ان کا
کلام مختلف ذرائع سے اور مشاعروں کے توسط سے مقبولیت حاصل کر تا گیا ۔
ظفر کلیم نے ۱۹۵۳ سے شاعری شروع کی جب ان کی عمر صرف پندرہ
برس تھی ۔ پہلی غزل ادبی رسالے’ پیامِ نو ‘میں شائع ہوئی ۔ ان کا پہلا شعری
مجموعہ’ طلسمِ غزل‘ ۱۹۸۱ میں اور دوسرا
شعری مجموعہ’ نوائے حرفِ خموش ‘ ۲۰۰۷ میں
منظرِ عام پر آ یا ۔ ’ نوائے حرفِ خموش‘ ۴۷۲ صفحات
پر مشتمل ہے جس میں گیارہ پابند ، معریٰ اور آزاد نظمیں اور غزلوں کے علاوہ قطعات
بھی شامل ہیں ۔ظفر کلیم کے دوسرے مجموعے کلام ’ نوائے حرفِ خموش ‘ کی اشاعت سے
پہلے اس کے دو بار گم ہونے کا قصہ بھی دلچسپ ہے ۔ اس کتاب کی ابتدا میں ظفر کلیم
نے اپنے حالاتِ زندگی بیان کر تے ہوئے اپنے مضمون ’ سر نامۂ ماضی و حال ‘ میں اس
کی تفصیلات پیش کی ہیں ۔
’تبدیلیِ مکان کے درمیان کچھ ذہنی الجھنوں اور کچھ لا
پر واہی کے سبب نوائے حرفِ خموش ‘ کا مسودہ کہیں چھوٹ گیا۔ مگر مسودہ کی زیراکس
کاپی کے سبب حوصلہ نہیں ٹوٹا لہٰذا از سرِ نو مسودہ تیار کر نا شروع کیا‘۔1
دوسری مرتبہ ممبئی سے ناگپور ٹرین میں سفر کر تے ہوئے جو حادثہ پیش آ یا اس کے
متعلق لکھتے ہیں :
بس ایک ہی بات ذہن میں تھی کہ ناگپور پہنچتے ہی مسودہ
پریس کے سپر د کر کے فوراً اشاعت کا کام شروع کر وادوں گا کہ آ نکھ لگ گئی اور صبح
۶ بجے سے کچھ پہلے آ
نکھ کھلی تو یہ دیکھ کر آ نکھوں میں اندھیرا چھا گیا کہ سوٹ کیس اپنی جگہ پر نہیں
ہے ۔ زنجیر کھینچی ، گاڑی رکی ، تلاش کیا لیکن سوٹ کیس نہیں ملا۔
اس سانحے نے انھیں ذہنی طور پر بری طرح متاثر کیا ، یہ ان کے لیے کسی عزیز کی موت
سے کم نہیں تھا۔ چند دنوں بعد پھر ان کے دوسرے شعری مجموعے کی تیاری کی سبیل نکل آ
ئی ا س کے متعلق لکھتے ہیں :
سوچ لیا تھاکہ اب مکمل طور پر شاعری ہی ترک کر دوں
گاکہ ایک دن اچانک ایک گٹھے میں بندھے ہوئے ردی پیپیرس الٹ پلٹ کر رہا تھاکہ
’نوائے حرفِ خموش‘ میں شامل غزلیات کے مصرعوں کی فہرست ملی تو جیسے یوں لگا کہ
جیسے میرے بے جان حوصلوں میں جان پڑ گئی ۔خدا کا شکر اداکیا اور ایک بار پھر بسم
اللہ کہہ کر تیسری بار اپنے دوسرے شعری مجموعے’ نوائے حرفِ خموش‘ کی تیاری میں جی
جان سے جٹ گیا ۔ جتنے اشعار یاد آ تے لکھتا اور باقی نئے اشعار کہہ کر غزل پوری کر
تا ۔غرض کہ سیکڑوں اشعار نئے کہے طبعِ موزوں نے بھی خوب ساتھ دیا اور اللہ کی جانب
سے اس طرح غیبی مدد ہوئی کہ محض تقریبا ڈھائی سال کے مختصر سے عرصے میں نوائے حرفِ
خاموش کا نیا ضخیم مسودہ گم شدہ دونوں ہی مسودوں سے میرے تئیں بہتر ثابت ہوا۔
۱ ظفر کلیم کی شاعری میں غزل کے روایتی
موضوعات کے علاوہ زندگی کے نئے مسائل اور عہدِ حاضر کے وہ موضوعات بھی شعری اظہار
کا مرکز بنے ہیں جنھیں جدید شاعری نے متعارف کروایا ۔ ان کے متعلق ڈاکٹر آ غا غیاث
الرحمان لکھتے ہیں :
ظفر کلیم اپنے ہم عصروں میں اپنی ایک الگ پہچان رکھتے ہیں ۔ ان کا شعری اسلوب سب
سے جدا گانہ ا ور منفرد ہے ۔انھوں نے شاعری میں نئی نئی راہیں اور جہتیں نکالیں
ہیں ۔ نئی علامتوں اور استعاروں سے اپنے اشعارمیں زور اور نیا پن پیداکیا ہے ۔
انھوں نے تمام اصناف میں شعر کہے ہیں ۔ لیکن غزل ان کی پسندیدہ صنف ہے ۔ ‘ 2
ظفر کلیم کا کلام روایتی شاعری سے جدیدت کی طرف سفر کا ایک سلسلہ ہے ۔ جس زمانے
میں انھوں نے طبع آ زمائی شروع کی ناگپور میں پیرِ مغان خمخانۂ سخن مولانا
ابوالحسن ناطق اور ضمیر الشعرا امین الفن حضرت طرفہ قریشی اپنے اپنے تلامذہ کے
ساتھ پر ورشِ لوح و قلم کا فریضہ انجام دے رہے تھے ۔ ظفر کلیم نے صوفی شاعر ڈاکٹر
عبدالحمید خاں آذر سے شاعری کی تربیت حاصل کی اور علم وا دب کے رموز سیکھے ۔
مشاعروں میں ہونے والی ہوٹنگ ، نوک جھونک اور روایتی شاعری کے عروج کے اس زمانے
میں منظور حسین شور جیسے شاعر بھی یہاں موجود تھے جو ترقی پسند تحریک کے ہمنوا تھے
۔ اسی کے ساتھ جدیدیت کی ہوائیں بھی ادیبوں او ر شاعروں کے ذہنوں میں تخلیقی شگوفے
کھلا رہی تھیں۔ ناگپور اور اس سے دس کیلومیٹر کے فاصلے پر واقع شہر کامٹی جسے
ناگپورکے ادبی منظر نامے کی توسیع کہا جا سکتاہے ، ان دونوں مقامات کے فنکار
جدیدیت کے ان رجحانات سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکے ۔ اس وقت یہاں شاہد کبیر ،مدحت
الاختر ،عبد الرحیم نشتر ،س۔ یونس ،غیور جعفری ،ضیا انصاری، شریف احمد شریف ،اقبال
اشہر ،ڈاکٹر بدرِ جمیل وغیرہ موجود تھے۔ ا ن فنکاروں کا کلام ماہنامہ شب خون ،کتاب
،جواز، شاعر وغیرہ میں شائع ہونے لگا۔ اسی ادبی فضامیں ظفر کلیم نے اپنے مشاہدات
،احساسات اور تجربات کو شعری پیکر عطاکئے ۔ ظفر کلیم کی شاعری جدید رجحانات کے
ساتھ اخلاقی قدروں کو بھی بحسن و خوبی پیش کرتی ہے ۔ اس پہلو کی طرف اشارہ کرتے
ہوئے ڈاکٹر ملک زادہ منظور لکھتے ہیں ۔
تہذیب ، شرافت ،اخلاقیات جو ہمارے مشرقی معاشرے کا ایک
اہم حصہ بن چکے ہیں ان کی ترجمانی بھی بہت خوبصورت انداز میں ان کے کلام میںملتی
ہے ۔ فنی سطح پر معتبر اور فکری سطح پر ’ روحِ عصر ‘ سے باخبر ظفر کلیم ہمارے ان
شعرا میں ہیں جو ستائش کی تمنا سے بے نیاز ہوکر شعر و ادب کی خدمت کر رہے ہیں ۔ اس
خیال کی تصدیق ظفر کلیم کے ان اشعار سے ہوتی ہے ۔
بچا سکو تو بچا لو وجود کو اپنے ضمیر بیچ کر جینے سے
فائدہ کیاہے
نادان یاد رکھ کہ عداوت وہ آ گ ہے بھڑکے تو بجھ نہ پائے گی پھر انتقام تک
اجسام بے ضمیر میں روحیں علیل ہیں اس عہدِمیں بدن کی نفاست کے باوجود
نہ دے مجھے وہ بلندی خدائے ارض و سما جو پستیوں سے مرا سلسلہ ختم کر دے
ظفر کلیم کے ہاں ندرتِ خیال ہے ،وہ برتے ہوئے موضوعات کو نئے انداز سے پیش
کر نے کی کو شش کرتے ہیں ۔بقول حسن کمال ظفر کلیم کئی خرمنوں کے خوشہ چیں نظر آ تے
ہیں ۔یہ ممکن نہیں کہ کو ئی ایسا خیال ڈھونڈ لائیں جو بالکل اچھوتا ہو۔ پاما ل
موضوعات کو بھی اپنا لہجہ دے دینا ایک قابلِ قدر فن ہے اور ظفر کلیم کے یہاں یہ
نیاپن مجھے کئی جگہ نظر آ تا ہے ۔ (حسن کمال)
جب ملے رفیقوں سے زخم ہی ملے ہم کو
بے سبب رہا دل میں دشمنوں کا ڈر بر سوں
سوال یہ ہے کہ خاموش کیوں ہیں لوگ اتنے
جواب یہ ہے سوالات کر کے دیکھتے ہیں
پیرہن
ِتن پہ نہ جا جوہری
دام بتا گوہرِ نایاب کے
ظفر
کلیم کی نظموں میں عصری زندگی کے مسائل کی گونج سنائی دیتی ہے ان کے ہاں نا
انصافیوں اور بے اعدالیوں پر احتجاج میں درد مند دل کی پکار موجود ہے ۔ ان کی نظم
’ فساد اور یکجہتی ‘ میں فسادات کی تباہ کاریوں کی منظرکشی پوری شدت کے ساتھ ابھر
آ ئی ہے ۔ شاعر ان فسادات کے پیچھے کار فرما سیاست دانوں کی سازشوں کو گہر دکھ کے
ساتھ بیان کرتا ہے ۔
اس کے پیچھے ہے تعصب کی نوازش کا اثر شہر در شہر ہے
اس آ گ کی سازش کا اثر
یہ سلگتی ہے رئیسوں کے گھروں سے پہلے یہ دہکتی ہے پراگندہ سروں سے پہلے
ہر طرف لوٹ کے بازار سجے ہوتے ہیں گھات میں اپنی سیاہ کار لگے ہوتے ہیں
ان لعینوں سے بھلائی کی کوئی آ س نہیں ان کو مریم کے تقدس کا بھی احساس نہیں
نظم’ اردو ‘میں اس ملک میں قومی اردو کو قومی یکجہتی کی علامت قرار دیا گیا ہے ۔
ظفر کلیم کی نظم ’ پیاس ‘ شدتِ پیاس اور کر بِ ذات کی ترجمانی کرتی ہے ۔ نظم
’بوڑھا بر گد ‘میں بزرگوں کی اہمیت کو واضح کیا گیا ہے ۔ ان کی دیگر ںنظموں میںشہر
کی ہنگامہ آ رائیاں اور سیاست،فسادات اور تعصب کی تباہ کاریوں پر صدائے احتجاج
بلند کی گئی ہے ۔ ظفر کلیم کی نظم نگار ی کے متعلق ڈاکٹر شر ف الدین ساحل لکھتے
ہیں ۔
ایک بیانیہ نظم ’ بمبئی‘ میں اس شہر کی ہنگامہ آ رائیوں کا تفصیلی ذکر ہے ۔ نظم’
فیصلہ‘ جو انتیس اشعار پر مشتمل ہے سب سے طویل ہے ، گودھرا کانڈ کے تناظر میں کہی
گئی ہے، جس نے ریاست گجرات میں انسانیت کو جلا کر راکھ کر دیا تھا۔ اس بیانیہ نظم
میں اس فساد کی جڑکو تلاش کر نے کی کو شش کی گئی ہے ۔
۴ ظفر کلیم کی شاعری میں زندگی کی بے ثباتی
، انسانی رشتوں کی شکست و ریخت اور اخلاقی قدروں کے زوال کے مناظر او ر ان پر
افسوس کا اظہار بھی ملتا ہے ۔
ہنسے کوئی مگر رونے میں کتنی دیر لگتی ہے
اچانک حادثہ ہونے میں کتنی
دیرلگتی ہے ۔
یوں دوستوں میں ڈھونڈ رہے ہیں خلوص ہم
صحرا
میں جیسے کھوج کسی سائبان کی
کون جانے تیری آ نکھوں سے چھلکتا آ نسو
کتنے
سوئے ہوئے طوفان جگا کر آ یا
ظفر کلیم نے حمد و نعت میں اپنے احساسات اور و جذبات کو بحسن و خوبی بیان کیا ہے ۔
ان کے درج ذیل اشعار ان کی شخصیت کے مذہبی پہلو کو نمایاں کر تے ہیں ۔
اسی کے نام سے اپنا سخن منسوب کرتا ہوں
زبان گونگوں نے پائی ہے جس کے اعجازِ تکلم سے
چھین لیں جب بلندیاں اس نے
یاد آ یا کہ ہے خدا سب کچھ
ہر اک عروج کے پیچھے زوال ہے لیکن
مجھے عروج دے ایسا جسے زوال نہ ہو
ظفر
کلیم کی رحلت سے نہ صرف شہر ناگپور کے ادبی حلقے نے ایک معتبر اور پر اثر آ واز کو
کھودیابلکہ جدید شاعری کی دنیا بھی ایک اہم شاعر سے محروم ہو گئی ہے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حواشی :
۱۔سر نامۂ ماضی و حال ، ظفر کلیم ، نوائے حرفِ
خموش ، ناگپور ۲۰۰۷ ، ص ۲۶
۲۔ ڈاکٹر آ غا غیاث الرحمٰن ،شخصیاتِ ودربھ
۔ناگپور ۲۰۱۵ ۔ ص ۱۵۰
۳۔نوائے حرفِ خموش ، ناگپور ۲۰۰۷ ، فلیپ پر تحریر
۴۔ ڈاکٹر شر ف الدین ساحل ۔ناگپور میں اردو
شاعری ،۲۰۱۶ ناگپور ص ۱۹۰
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔