Sunday, February 14, 2010

آغاز اچھا تو انجام اچھا ،،،، محمّد شریف


آغاز اچھا تو انجام اچھا
مضمون
ٰٰٰٰٰٰٰٰٰٰٰییییییییییییییییییییییییییییییییییییییییییییییییییییییییییییییییی 
محمّد شریف
ٹٹٹٹٹٹٹٹٹٹٹٹٹٹٹٹٹٹٹٹٹٹٹٹٹٹٹٹٹٹٹٹٹٹٹٹٹٹٹٹٹٹٹٹٹٹٹٹٹٹٹٹٹٹٹٹٹٹٹٹٹٹٹٹٹٹٹٹ 


ایک بزرگ کا قول ہے ’’ جس کا بچپن اچھا اس کی جوانی اچھی ، جس کی جوانی اچھی اس کا بڑھاپا اچھا، جس کا بڑھاپا اچھا اس کی موت اچھی ‘‘

میں اضافہ کررہا ہوں کہ جس کی موت اچھی اس کی آخرت کی لامحدود زندگی اچھی۔ بچپن آدمی کی ناسمجھی کا زمانہ ہے۔ بچہ اپنے بچپن کو خود اچھا نہیں بنا سکتا یہ ذمہ داری والدین کی ہے۔ اگر والدین چاہیں تو اپنی اولاد کے بچپن کو سنوار کر پوری زندگی کو سنوار دیں یا غفلت اور لاپرواہی کر کے اپنے بچوں کے بچپن کو خراب کر کے پوری زندگی کو خراب کردیں

۔ حدیث میں رسول اکرم ﷺکا ارشاد ہے ۔

کل مولود یولد علی فطرۃ الاسلام فابواہ یھودانہ اوینصرانہ اویمجسانہ :

ترجمہ : ’’ ہر بچہ فطرت اسلام پر پیدا ہوتا ہے اس کے والدین اس کو یہودی، نصرانی، یا مجوسی بناتے ہیں ‘‘۔
اسطرح پہلے دنیا کی زندگی خراب ہوتی ہے اور مرنے کے بعد آخرت بھی تباہ ہوجاتی ہے۔ اسی لئے مسلمانوں سے اللہ تعالیٰ نے اپنی جان کے ساتھ اپنے گھروالوں کو بھی جہنم کی آگ سے بچانے کا حکم دیا ہے۔ چنانچہ ارشاد ربی ہے ۔
یایھالذین اٰمنوا قوا انفسکم و اھلیکم نارا وقودھا الناس والحجارۃ علیھا ملٰئکۃ غلاظ شدادٌ لا یعصون اللہ ما امرھم ویفعلون مایومرون :
ترجمہ: ’’ اے ایمان والوں اپنے آپ کو اور اپنے اہل وعیال کو جہنم کی آگ سے بچاؤ ، جس کا ایندھن آدمی اور پتھر ہیں۔  ‘‘ 
جس پر ایسے سخت دل اور شدید فرشتے مقرر ہیں جو اللہ کی نافرمانی نہیں کرتے بلکہ وہی کرتے ہیں جو انہیں حکم دیا جاتا ہے۔
حدیث میں ہے کہ یہ فرشتے جو جہنمیوں کو عذاب دینے کے لئے مقرر ہیں وہ بہرے اور گونگے بھی ہیں کہ جن کو عذاب دیا جاتا ہے ان کی چینخ وپکار کو بھی نہیں سن سکتے اور دیکھ کر سمجھتے ہیں تو سخت دل ایسے کہ انہیںکوئی رحم نہیں آتا۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کی حفاظت فرمائے۔

صاحب اولاد لوگوں کے لئے یہ بڑی فکر کی بات ہے کہ وہ بچوں کو اول دن ہی سے دینی ماحول مہیا کرنے کی فکر کریں۔ یہ نہ سوچیں کہ ابھی تو بچہ ہے بڑا ہوگا تو سکھا دینگے۔ بچہ دنیا میں آتے ہی غیر شعوری طور پر اپنے اطراف سے آنے والی آوازوں اور نظاروں کا اثرلینا شروع کردیتا ہے۔ اسی لئے اسلام کی تعلیم ہے کہ جب بچہ پیدا ہو تو اس کے دائیں کان میں اذان اور بائیں کان میں اقامت پڑھی جائے۔ اگر بچہ اس وقت اثر نہ لیتا تو معلم شریعت ؐ اس کا حکم ہی نہ دیتے اسلئے کہ اسلام میں کوئی بھی عمل محض رسمی نہیں ہے بلکہ ہر حکم اور ہر عمل کے پیچھے مخفی حکمتیں ہیں۔ اس لئے گھر میں بچہ کو اول دن ہی سے ذکر وتلاوت ، نماز روزہ، سنتوں کا اہتمام، اخلاق حسنہ، حیا اور پاکیزگی کا ماحول ملنا چاہئے۔ 
اس کے برعکس اگر گانے بجانے ، گالی گلوچ ، لڑائی جھگڑے، TV اور VCR کا ماحول ملا تو وہ اس کے اثرات بھی لے گا۔ اس لئے ہم گھروں کی معاشرت کو پاکیزہ بنائیں۔ جب بچہ بولنے لگے تو سب سے پہلے اسے اللہ کا نام لینا سکھائیں۔ باہر کے گندے ماحول سے حفاظت کی خاطر گھر ہی میں اس کو اس کی دلچسپی کا سامان مہیا کریں۔ گھر کے بڑے شرعی حدود کے اندر خود ان کے ساتھ کھلیں۔جیسا کہ رسول اللہ صلعم خود اپنے نواسے حسنؓ اور حسینؓ کے ساتھ کرتے تھے۔ آپ اپنے گھر میں بعض مرتبہ گھٹنوں اور ہتھیلیوں کے بل چلتے گویا آپ سواری بن جاتے اور لاڈلے حسنؓ اور حسینؓ آپؐ کی پیٹھ پر سوار ہوتے۔ کبھی آپ حالت نماز میں سجدہ میں ہوتے اور نواسے آپ کی پیٹھ پر چڑھ کر بیٹھ جاتے آپؐ ان کی رعایت میں سجدہ لمبا کردیتے۔ اگر گھر کے بڑوں کے ساتھ بچوں کا وقت گذرے گا تو انہیں باہر جانے کی ضرورت ہی پیش نہیں آئیگی۔ جب وہ کچھ سمجھنے کے لائق ہوجائیں تو گھر میں انہیں نبیوں اور صحابہ اور اولیاء کے چھوٹے چھوٹے قصے سنائیں۔ آخرت کے احوال وجنت کے مناظر ان کے سامنے بیان کریں۔ اللہ کی قدرت اس کی بڑائی اور اس کی صفات کا ذکر بچوں کے سامنے کریں تاکہ بچے بچپن ہی سے اللہ کو پہچاننے والے بنیں ۔ اس بچپن میں اتنی ذہن سازی ہوجائے کہ اندر سے ان کو برائی اور بے حیائی سے نفرت پیدا ہوجائے۔

۲ سنتوں اور دینی اعمال کا شوق ان کے اندر پیدا ہوجائے۔ جب وہ کچھ پڑھنے لکھنے کے قابل ہو جائیں تو انہیں کلمہ نمازیاد کرائیں۔ چھوٹی چھوٹی سورتیں حفظ کرادیں۔ مختلف کاموں کو مسنون طریقے اور مسنون دعائیں انہیں یاد کرائیں۔ پھر آداب کے مطابق عمل کی مشق کرائیں۔ مثلاً آپ نے پانی پینے کا طریقہ سکھایا کہ بیٹھ کر سیدھے ہاتھ سے بسم اللہ کہہ کر تین سانس میں پانی پینا چاہئے۔ اگر بچہ اس کے خلاف کرے تو محبت اور نرمی سے اسی وقت اس کو تنبیہ کریں تا کہ وہ دوبارہ وہ سنت کو ترک نہ کرے۔ اس طرح دھیرے دھیرے وہ سنتوں کا عادی ہوجائیگا۔ جب وہ اسکول جانے کی عمر کو پہنچ جائے تو اسے کسی مسلم اسکول میں ڈالیں۔ چاہے یہ ادارے پڑھائی میںکمزور سہی۔ اس کا تدارک ہوسکتا ہے۔ پڑھائی میں ترقی کے لئے اسکو گھر پر ٹیوشن لگاسکتے ہیں یا گھر کے بڑے خود انہیں گھر پر پڑھائیں ۔ بار بار اسکول جا کر اسکول کے اساتذہ کو متوجہ کریں۔ اسکول کے ہیڈ ماسٹر یا منتظمہ سے رابطہ قائم کریں۔ لیکن ہندی ، مراٹھی یا انگلش میڈیم کی ایسی اسکولوں میں ایڈمیشن نہ کرائیں جہاں کا اسٹاف غیر مسلم اور بچوں کی بھی اکثریت غیر مسلم ہوں۔ 

یہ ماحول آپ کے بچوں کو غیر اسلامی رنگ میں رنگ دے گا اور آپ کو اس کا پتہ اس وقت چلے گا جب وہ بڑے ہو چکے ہونگے۔ اور آپ کے قبضہ سے نکل چکے ہونگے۔ یہ ہمارے اسلامی شعور کی کمی ہے کہ ہم بچوں کو بچپن ہی سے غیر اسلامی ماحول کے حوالہ کر دیتے ہیں اور بڑے فخر کے ساتھ بیان کرتے ہیں کہ ہمارا بچہ فلاں اسکول میں پڑھ رہا ہے۔ جہاں اچھی خاصی فیس بھی دینی پڑتی ہے اور مشقت بھی اٹھانی پڑتی ہے۔ اصل یہ ہے کہ ہم خود مغربی کلچر سے مرعوب ہیں۔ شروع ہی سے ہم اپنے بچوں کے اسلامی تشخص کو برباد کردیتے ہیں۔ ان standard اسکولوں میں ہمارے بچے اور بچیاں جاتی ہیں تو اس یونیفارم میں کہ ان کے مسلمان ہونے کا پتہ بھی نہیں چلتا۔ آپ سوچئے یہ بڑے ہو کر اسلامی تہذیب کو کیسے پسند کرینگے۔ اور آدمی کا دنیا میں معمولی آمدنی کے ساتھ سیدھی سادی، زندگی گذار لینا بہتر ہے اس زندگی سے جن میں دنیا کی زندگی تو بہت شاندار اور معیاری ہواور آخرت بربادہوجائے۔ اصل تو آخرت ہی ہے۔ لیکن یہ بات بھی نہین ہے کہ دنیا کی زندگی کو بہتر سے بہتر بنایا جاسکتا ہے۔ اسلام مسلمانوں کو اس لئے نہیں دیا گیا کہ وہ اپنی دنیا کو خراب کرلیں۔ بلکہ اسلام پر چلنے سے دنیا اور بہتر بنتی ہے۔ حقیقی کامیابی دنیا کی بھی اسلام پر چل کر ہی مسلمانوں کو مل سکتی ہے۔ 

بچوں کی تربیت کے سلسلہ میں والدین میں سے سب سے اہم رول ماؤں کا ہے۔ ماں کی گود بچہ کے لئے سب سے پہلا مدرسہ ہے۔ ماؤں کو بہت زیادہ دھیان دینے کی ضرورت ہے۔ اگر یہ خود اپنی دینداری کو برقرار رکھتے ہوئے بچوںکی تربیت کرے گی تو یہ بچے ان کے لئے ثواب جاریہ بنیں گے، رونہ یہی بچے عذاب جاریہ بھی بن سکتے ہیں۔ جتنے اہل اللہ، بزرگان دین، بڑے بڑے علماء، ائمہ ، محدثین گذرے ہیں اگر ان کی سیرت کا مطالعہ کریں تو پتہ چلے گا کہ ان کی شخصیت سازی میں سب سے بڑا ہاتھ ان کی ماؤں کا ہے۔
اس لئے میری بہنوں سے گذارش ہے کہ اگر وہ چاہتی ہیں کہ اہل اللہ اور اولیاء اللہ کی مائیں بنیں تو بچوں کی تربیت کریں۔ اگر آپ ایسا نہیں کریں گی تو ممکن ہے کہ شیاطین کی ماں بننا پڑے گا۔ آپ کی عدم تربیت کی وجہ سے وہ جتنے شیطانی افعال انجام دیںگے اس کا credit آپ ہی کو ملے گا۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو عمل کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین

1 comment: