Wednesday, February 10, 2010

Iqbal Ka Daiyana Usloob اقبال کا داعیانہ اسلوب


اقبال کا داعیانہ اسلوب 


؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛
 محمّدا سداللہ
mmmmmmmmmmmmmmmmmmmmmmmmmmmm
شاعرِ مشرق ،حکیم الامّت ،علاّمہ اور رحمت اللہ علیہ جیسے خطابات سے نوازے جانے والے شاعر محمّد اقبال کی شاعری کا محور اسلام اور مسلمان ہیں ۔ ربِّ ذوالجلال سے مخلوقاتِ الہٰیہ تک مختلف و متنوع موضوعات کا احاطہ کر تی ہو ئی اقبال کی فلسفیانہ سوچ اور تخیل کی جو لا نیاں در اصل اسلامی افکار کے خورشیدِ تاباں ہی کا پر تو ہے ۔

 اقبال کی شاعرانہ فکر ،تصوّرات ، لفظیات ،استعارے ،شعری تراکیب اور نکتۂ نظر اگر دیگر شعرا سے الگ ہے تو اس کی وجہ بھی ظاہر ہے کہ اقبال بنیادی طور پر ایک مختلف اور منفرد سوچ کا شاعر ہے ۔ جس کا کائنات کے مظاہر کے دیکھنے کا انداز جدا ہے بلکہ شاعری کے ساتھ بھی اسکامعاملہTreatment اوروں سے مختلف ہے ۔ اسی رویّے نے اقبال کے اس انوکھے اسلوب کو جنم دیاہے جس کی سب سے اہم خصوصیت اس کا داعیانہ انداز ہے۔اقبال کی اسی ادّاعیت کو جہاں اسلام پسند طبیعتوں اور اور دینِ متین کے متوالواں نے لبیک کہا وہیں ایک طبقہ ادب نوازوں کا یہ بھی مانتا ہے کہ اقبال کے اس کومٹمنٹ نے اس کے فن کو نقصان بھی پہنچایا ہے ۔ کلامِاقبال کی دلفریبی اوراثر پذیری نے بلاشبہ اسے ادب کے جریدۂ عالم پر دوام اور قبولِ عام سے ہمکنار کیالیکن یہ بھی سچ ہے کہ اقبال کی شاہکار تخلیقات وہی ہیں جن میں کھلی ہوئی ادّاعت کے بجائے رمز و ایما اور اشارے و استعارے ہیں جہاں اس نے فن کی بلندی کے چھو لیا ہے ۔

 اقبال کو یہ احساس تھا کہ وہ اپنی من موہ لینے والی شاعری میں ایک اپدیشک کا رول ادا کر رہا ہے ۔ 
                     اقبال بڑا اپدیشک ہے موہ لیتا ہے من باتوں سے
                   گفتار کا غازی بن تو گیا کر دار کا غازی بن نہ سکا            
 اسی کے ساتھ اقبال نے اپنے اشعار میں اس حقیقت کا ااظہار بھی کیا ہے کہ شاعری اس کے لئے ایک وسیلہ ہے منزل نہیں ۔
  میری نوائے پریشاں کو شاعری نہ سمجھ کہ میں ہوں محرمِ رازِ درونِ مے خانہ 
 اوروں کا ہے پیام اور میرا پیام اور ہے عشق کے درد مند کا طرزِ کلام اور ہے ۔ 
 اقبال کے ہاں سازِ سخن ایک بہا نا ہے اس اونٹنی کو راہِ راست پر لا نے کاجواپنے راستے سے بھٹک گئی ہے ۔قوم کے لئے اونٹنی کا استعارہ بھی خوب ہے ،یہ مفہوم ہے اقبال کے ایک فارسی شعر کا۔
                 نغمہ کجا و من کجا سازِ سخن بہانا ایست
 
      سوئے قطار می کنم ناقۂ بے زمام را                    
اقبال کا مقصد ایک درد مند دل میںکروٹیں بدلتے ہو ئے احساس کی ترسیل ہے۔ اس کی شاعری اسی سوزِ دروں کا اظہار ہے ۔

     
جوانوں کو سوزِ جگر بخش دے       
         میرا عشق میری نظر بخش دے 
 میرے دیدۂ تر کی بے خوبیاں 
        میرے دل کی پو شیدہ بے تا بیاں
  مرے نالۂ نیم شب کا نیاز    
          مری خلوت و انجمن کا گداز 
 یہی کچھ ہے ساقی متاعِ فقیر    
             اسی سے فقیری میں ہوں میں امیر
 مرے قافلے میں لٹادے اسے    
        لٹادے ٹھکانے لگا دے اسے
.ساقی نامہ ..


اقبال کی شاعری ایک انقلاب کا داعیہ ہے ۔ شاعری کے متعلق اقبال کا نظریہ بھی یہی ہے کہ اس کے ذریعے سوئے ہو ئے ذہنوں کو جھنجھوڑ ا 
جا ئے اور جو ادب اپنی تخلیقی قوّت سے انسانوں میں بیداری ،حرکت و عمل اور کسی بڑی تبدیلی کا ذریعہ نہیں بنتا وہ اقبال کے نزدیک بے سود ہے۔ 

 اے اہلِ نظر ذوقِ نظر خوب ہے لیکن
جو شے کی حقیقت کو نہ سمجھے وہ نظر کیا
 مقصودِ ہنر سوزِ حیاتِ ابدی ہے
یہ ایک نفس یا دو نفس مثلِ شرر کیا 
 جس سے دلِ دریا متلاطم نہیں ہو ت
ا اے قطرۂ نیساں وہ صدف کیا وہ گہر کیا
 شاعر کی نوا ہو کہ مغنّی کا نفس ہو
جس سے چمن افسردہ ہو وہ بادِ سحر کیا
 بے معجزہ دنیا میں ابھرتی نہیں قومیں
جو ضربِ کلیمی نہیں رکھتا وہ ہنر کیا
قطعہ
قبال ایک نئی دنیا کا نقیب ہے وہ ماضی کا نو حہ خواں بھی ہے جس میں جذبۂ شوق کی سرد ہو تی ہو ئی آ گ اور تابندہ اسلامی روایات کے زوال پر اظہارِ افسوس کرنے پر اقبال نے اکتفا نہیں کیا، بلکہ نئے امکانات کی بشارت سے اپنے کلام کو مزیّن کیا۔حرکت و عمل ،خودی ،مردِمومن اورشاہین کے تصّورات اسی سوئی ہو ئی قوم کو جگانے کے لئے ہیں ۔اقبال عشق کی آ گ بجھنے پر مسلمانوں کو راکھ کے ایک ڈھیرسے تعبیر کر تا ہے وہیں نئے جام گردش میں لا کر شرابِ کہن کے سرور کو محفل میں عام کر نا چاہتا ہے۔اقبال نے جس نئی دنیا کا خواب دیکھ اتھا وہ نہ صرف وہی خواب قوم کو دکھا نا چاہتا ہے بلکہ اس کی تعبیر ڈحونڈنے کے لئے قوم کو آ مادہ بھی کر تا ہے اس کے نزدیک ماضی کی نو حہ خوانی قوم کے مسائل کا حل نہیں ہے ۔ 
 
شاخِ بریدہ سے سبق اندوز ہو کہ تو
 نا آ شنا ہے قاعدۂ روزگار سے 

  ملّت کے ساتھ رابطۂ استوار رکھ
پیوستہ رہ شجر سے امّیدِبہار رکھ
  آ فتابِ تازہ پیدا بطنِ گیتی سے ہوا
آ سماں ٹو ٹے ہو ئے تاروں کا ماتم کب تلک 

کلامِ اقبال میں اسلامی تعلیمات کا بھرپور تعارف موجود ہے اقبال کا اردو زبان اورشعر و ادب پر ایک احسان یہ بھی ہے کہ اس نے نہ صرف پامال شعری تراکیب کو نئے معنی اور فرحت و تازگی سے آ راستہ کیا بلکہ قرانی تلمیحات اور اور احادیث کے مضامین کو شعری قالب عطا کیا۔ اس کے شعری مجموعے بانگِ درا،ضربِ کلیم ،بالِ جبریل ،زبورِ عجم ،کے علاوہ اس کی بیشمار نظمیں اور اشعار اسلامی پسِ منظر کو پیش کر تے ہیں ۔

 بے خطر کود پڑا آ تشِ نمرود میں عشق
عقل ہے محوِ تماشائے لبِ بام ابھی 

 آگ ہے، اولادِ ابراہیم ہے ،نمرود ہے
کیا کسی کو پھر کسی کا امتحان مقصود ہے 

 اے وہ کہ تجھ سے دیدۂ انجم فروغ گیر
اے تیری ذات باعثِ تکوینِ روزگار
صدیق
چشمِ اقوام یہ نظارہ ابد تک دیکھے
رفعتِ شانِ رفعنا لک ذکرک دیکھے 
  یہ دور اپنے براہیم کی تلاش میں ہے
صنم کدہ ہے جہاں لا الہٰ الّا اللہ 
 

 
اقبال نے توحید و رسالت پر جو نظمیں لکھیں ہیں یا غزلوں میں ان موضوعات کا احاطہ کیا ہے ان میں پر اثر انداز میں اسلام کے پیغام کی حکمت و بصیرت
افروز توضیح موجود ہے ۔اقبال کی غزلوں کے بعض اشعار انسان اور خدا کے تعلق کو والہانہ انداز میں بیان کر تے ہیں اس سلسہ میں اقبال کی نظم شکوہ جوابِ شکوہ قابلِ ذکر ہے ۔ 

  تونے یہ کیا غضب کیا ! مجھ کو بھی فاش کر دی
ا میں ہی تو ایک راز تھا سینۂ کائنات میں 
  محمد بھی ترا ،جبریل بھی،قرآن بھی تیرا
مگر یہ حرف، شیریں ترجماں تیرا ہے یا میرا
  باغِ بہشت سے مجھے حکمِ سفر دیا تھا کیوں
کارِ جہاں دراز ہے اب میرا انتظار کر 
  تو ہے محیطِ بے کراں میں ہو ں ذراسی آ بجو
یامجھے ہمکنار کر یا مجھے بے کنار کر 

 اسلام کے پیغام کو عام کر نے کی راہ میں جو جو رکاوٹیں موجود تھیں اور حق اور باطل کی معرکہ آ رائی میں جو مراحل درپیش تھے اقبال نے اپنے کلامِ میںان کی نشاندہی کی ہے ۔اس میں قوم کا جمود اور بے حسی ہو یا مغرب کی سازشیں،اقبال نے ان تمام کا احاطہ کیاہے۔ چراغِ مصطفوی سے
 شرارِ بو لہبی کی ستیزہ کا ریاں ہوں یا اسلامی معاشرہ میں موجود غیر اسلامی روایات سے پیدا ہو نے والا جمود،اقبال نے ان سبھی پہلوؤں کو بے نقاب کر کے انھیں ختم کر نے کے لئے ایک ضربِ کلیمی کو لازمی قراردیا ہے ۔یہ سب اقبال کے اسی دعوت کے مشن کا ایک حصّہ ہیں ۔

  مدیرِ مخزن سے کو ئی اقبال جاکے میرا پیام کہہ دے
جو کام کچھ کر رہی ہیں قومیں انھیں مذاقِ سخن نہیں ہے ۔
  مسلماں ہیں توحید میں گرم جوش
گر دل ابھی تک ہیں زُنّار پوش    
         ساقی نامہ
نظم’ پیامِ مشرق‘ میں اقبال رقمطراز ہیں۔

  وجود افراد کا مجازی ہے ہستیِ قوم ہے حقیقی
فدا ہو ملّت پہ ،یعنی آ تش زنِ طلسمِ مجاز ہو جا 
  یہ ہند کے فرقہ ساز اقبالؔآ زری کر رہے ہیں گویا
 بچا کے دامن بتوں سے اپنا غبارِ راہِ حجاز ہو جا 

نظم ’عبدالقادر کے نام ‘ کے یہ اشعار ملا حظہ فر مائیں ۔

 
شمع کی طرح جئیں بزم گہِ عالم میں خود جئیں دیدۂ اغیار کو بینا کر دیں 
  اس چمن کو سبق آ ئینِ نمو کا دے کر قطرۂ شبنمِ بے مایہ کو دریا کر دیں 

اقبال کے کلام میں قرآن کی تعلیمات اور اسلام کا پیغام مختلف انداز میں موجود ہے ۔کہیں وہ ملّتِ اسلامیہ کے اس طبقہ کو نشانۂ طنز بناتا ہے جو اسلامی روح سے عاری اوررسم و رواج ہی کو اصل دین سمجھے ہو ئے ہے اقبال کا آ فاقی پیغام اس کے لئے بے معنی ہے ۔

  میری مینائے غزل میں تھی ذراسی باقی
شیخ کہتا ہے کہ یہ بھی ہے حرام اے ساقی 

یوں تو ملّا، شیخ، واعظ،ناصح ،زاہد ، اقبال سے قبل بھی شعرا کے ہاں معتوب رہے ہیں کہ ان کے ذریعے ادب میں اس طبقہ پر تنقید کی گئی جو مذہب کو سطحی انداز میں برتتا ہے اس کے ظاہری رسم و رواج ہی کو سب کچھ سمجھے ہو ئے ہے اور مذہب کی اصل روح سے نا آشنا ہے اقبال نے اپنی شاعری میں جب اس طبقہ کو طنز کا نشانہ بنایا تواقبال کے ہاں قوم و ملّت کے زیاں اور زوال آ مادگی پر حزن و ملال اور تاسف کا گہرا تاثرابھرآ یا ۔ 

  کو ئی یہ پو چھے کہ واعظ کا کیا بگڑ تا ہے
جو بے عمل پہ بھی رحمت وہبے نیاز کرے 
  غرورِ زہد نے سکھلا دیا ہے واعظ کو
کہ بندگانِ خدا پر زباں دراز کرے ۔

 
ظاہر داری اور مذہب کی اصل روح سے بیگانگی تو اقبال کو دیگر مذاہب میں بھی قبول نہیں ۔نیا شوالہ اس نظم میں جہاں قومی یکجہتی کی بات کہی گئی ہے وہیں مذہب کے نام پر لو گوں میں فرقہ واریت کے بیج بونے والے عناصر کو بھی اقبال نے حدفِ ملامت بنایا ہے ۔

  سچ کہہ دوں اے برہمن گر تو برا نہ مانے
تیرے صنم کدوں کے بت ہو گئے پرانے 
  اپنوں سے بیر رکھنا تو نے بتوں سے سیکھا
جنگ و جدل سکھایا واعظ کو بھی خدا نے 

  پتّھر کی مورتی کو سمجھا ہے تو خدا ہے
خاکِ وطن کو مجھ کو ہر ذرّہ دیوتا ہے 
  آ غیریت کے پر دے اک بار پھر اٹھا دیں
بچھڑوں کو پھر ملا دیں نقشِ دوئی مٹادیں 
  شکتی بھی شانتی بھی بھکتوں کے گیت میں ہے
  دھرتی کے واسیوں کی مکتی پریت میں ہے         
  نیا شوالہ
یہ اشعار اس طرف اشارہ کر تے ہیں کہ شاعر کی نظر میںدین کی بنیاداور مذہب کی اصل منشاء ربطِ باہمی ،یگانگت ،اور اخوت پر ہے مذہب آپس میں بیر رکھنا نہیں سکھاتا اور جو طاقتیں مذہب کے نام پر یہ کام کر رہی ہیں اقبال ان کے خلاف ہے ۔ 
اقبال اجتماعیت اور قومیت کا علمبر دار ہے ،خواہ وہ مختلف قوموں کے باہمی روابط ہوں جو رواداری اور بھائی چارے پر منحصر ہیں یا مسلمانوں کے درمیاں اجتماعیت کا معاملہ ہو اقبال نے کئی مقامات پر اسے موضوعِ سخن بنایا ہے ۔

  فرد قائم ربطِ ملّت سے ہے تنہا کچھ نہیں
موج ہے دریا میں اور بیرونِ دریا کچھ نہیں 

اقبال نے تعمیرِ قوم کے جس مبارک کام کے لئے اپنی شاعری کو وسیلہ بنایا اس کے تمام امکانات کو استعمال کیا۔اس نے بچّوں کی ذہن سازی کے لئے کئی نظمیں لکھیں جو بانگِ درا میں شامل ہیں ۔ان نظموں کا داعیانہ اسلوب دامن کشِ دل ہے۔ایک بہترین زندگی کا تصوّر ،خدا پرستی ،انسانی محبّت ،رواداری ،اخلاقی بلندی حب ّالوطنی کاجذبہ اور قوم و ملّت کے لئے جان نثا ر کر نے کے عزائم اور اعلیٰ اخلاقی قدروں کا درس ان منظومات میں موجود ہے ۔ اقبال کے کلام کا بیشتر حصّہ اس کے سوزِ دروں اور درد مند دل کا فنکارانہ اظہار ہے اور اقبال کی دروں بینی نے جس جہانِنو کاخواب سجایا تھا اس کا بھر پور داعیہ اس کے اسلوب سے آ شکار ہے ۔  
 ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔



3 comments:

  1. بہت اچھی تحریر ہے جو علامہ صاحب کے اسلامی تصور خیال کا احاطہ کرتی ہے ۔علامہ محمد اقبال رحمہ جیسی شخصیت صدیوں میں پیدا ہوتی ہیں ۔ انہیں پڑھا تو اب کوئی جچتا ہی نہیں ۔

    ReplyDelete
  2. this writing is awesome. from now I the fan of its author ,have U written about other shair ? if yes then post it here I will check it.

    ReplyDelete