Wednesday, October 31, 2007

ان سے ملئے (Meet Him)

ان سے ملئے

آئیے ان سے ملواتے ہیں یہ ہیں مسٹر انسٓ
نام ہے ان کا ننّھا منّا عمر بھی ہے دو برس

کالے کالے بال نرالے جیسے شام اودھ کی
نکھرا نکھرا گورا مکھڑا جیسے صبحِ بنارس

چوکڑیاں یوں بھرتے ہیں یہ جیسے ہرن جنگل میں
دھیان میں ایسے مست کھڑے ہیں جیسے کوئی سارس

بڑے نڈر ہیں بڑے بڑوں سے نہیں یہ ڈرنے والے
اپنے سے چھوٹوں پر لیکن کھا لیتے ہیں ترس

ہر شے کو چھوتے پھر نے کی ادا اچھوتی ان کی
جیسے خود کو سمجھ رکھا ہو چلتا پھرتا پارس

جہاں یہ جائیں رنگ جمائیں ،ایسے ان کے ڈھنگ
جس محفل میں یہ نہ ہو وہ محفل ہے بے رس



ماما (Uncle)

ماما
الٹا کرتہ پہنیں ، الٹا ہی پاجامہ

ساری دنیا کہتی ہے ان کو ماما

جوتے کی جوڑی کا بچھڑ گیا اک جوتا

دیکھو ان کے گھر میں برپا ہے ہنگامہ

نام ہی نام ہے ان کا کوئی کام نہیں ہے

نام نہ لکھنا جانےں کہلائیں علّامہ

بہادری میں ان کا کوئی نہیں ہے ثانی

گلی میں جیسے چوہا ، گھر کے اندر گاما

سورج ان کی چہرہ میں اپنا مکھڑا دیکھے

صورت سے وہ لگتے ہیں خود بھی چندا ماما

خواب نگر کے اندر وہ دن اور رات بِتائیں

جانے کب پہنائیں گے خواب کو عملی جامہ


Monday, October 29, 2007

مسٹرٹوٹ بٹوٹ (Mr. Toot Batoot)


مسٹرٹوٹ بٹوٹ

آئیے ا ن سے ملواتے ہیں یہ ہیں مسٹر ٹوٹ بٹوٹ
اپنی دسویں سالگرہ پر سلوایا ہے کیسا سوٹ

ٹھنڈی راتوں جیسی ان کی لمبی سی اک ٹائی
جھل جھل کرتا ان کا چشمہ ،چم چم کرتا ان کا بوٹ

سالگرہ کی تیّاری کا کچھ ایسا ہنگامہ تھا
ان کے ڈیڈی کے بٹوے کی مچی ہوئی ہو جیسے لوٹ

اتنے لوگوں کو دیکھا تو تن میں جوش سمایا
کیک کو اتنے زور سے کاٹا ،گئی چھری ہی ٹوٹ

چچانرالے (chaca nirale)

Now some poems for children based on imaginary and funny characters. Have a look,

چچانرالے

چھتری تالے کولر والے
چاچا ہیں اک بڑے نرالے
کام سے ان کے ہے یہ ظاہر
اپنے فن میں ہیں یہ ماہر
ہر شے کی یہ کریں مرمّت
لوگوں کو پہنچائیں راحت
گرمی میں پنکھا بنوالو
کولر روٹھ گیا ہو لائو
چھتری سے گر ٹپکے پانی
ہوئی ہو ٹیڑھی کوئی کمانی
پھٹا ہوا ہو اس کا کپڑا
ٹوٹ گیا ہو کوئی پرزہ
ٹارچ میں ، اسٹو میں ،کولر میں
کوئی خرابی ہو مکسر میں
ہر گڑبڑ پر نظریں گہری
غضب کے ہیں یہ کاریگر بھی
چپکے سے برسات گئی تو
چھتری اس کے ساتھ گئی لو
جب جب دھندہ پڑا ہے مندہ
چاچا نے تب بدلا دھندہ
چابی گم ہو جائے جب بھی
چاچاجی کو ڈھونڈیں سب ہی
بن تالے کی چابی لائو
ہر تالے کی چابی پائو
ساری چیزیں ان سے بولیں
اپنے دل کا دکھڑا رولیں
ہرشے کا یہ کریں علاج
اس پیشے میں ان کا راج
چھتری تالے کولر والے
چاچا ہیں اک بڑے نرالے


Sunday, October 28, 2007

مچھر نامہ (Mosquito Mania)

مچھر نامہ

بھن بھن کرتا آئے مچّھر
کان ہمارے کھائے مچّھر
شام ہوئی تو فوج بناکر
گھر گھر میں گھس آئے مچّھر
خون تمہارا ہم کو پیارا
گیت یہی اک گائے مچّھر
ہر کوئی بیزار ہے ان سے
کب ہیں کسی کو بھائے مچّھر
خون کے پیاسے ذرا ذرا سے
کیسا خوف جگائے مچّھر
ننّھے ننّھے ڈراکیولے ہیں
خون کی کھوج میں آئے مچّھر
ڈستے ہی سب چینخ اٹھے ہیں
ہائے رے مچّھر ہائے مچّھر
ڈستا تو ہے سانپ بھی لیکن
خون بھی پی کر جائے مچّھر
گندے پانی کے یہ ساتھی
کیچڑکے ہمسائے مچّھر
تحفہ لے کر بیماری کا
بستی بستی جائے مچّھر
میٹ ،کوائل اور مچّھر دانی
ان سب سے گھبرائے مچّھر
انساں ہی کے خون پہ پل کر
اس جیسا اترائے مچّھر
خون بہاتے انسانوں کو
دیکھے اور شرمائے مچّھر



چوہوں کا ہنگامہ (Mice's Hullabaloo)

چوہوں کا ہنگامہ

اک دن چوہے کچن میں آئے

اچھلے ،کودے ،ناچے گائے

خالی دیکھ کے پورا کمرہ

ڈال دیا ان سب نے ڈیرہ

سامنے ان کے جو کچھ آیا

کچھ کچھ کھایا ،بہت گرایا

دانتوں سے اک کیک بھی کترا

ننھا سا بادام چرایا

فرش پہ چینی بھی پھیلادی

مکھّن کی شیشی لڑھکادی

ڈھمّک ڈھمّک ڈھول بجاتے

ٹین کے ڈبّوں پر جا بیٹھے

رات ہوئی تو میاں پکوڑے

لوٹ کے جب دفتر سے آئے

کچن کا جاکر کھولا تالا

وہاں پہ دیکھا حال نرالا

کمرہ میں تھے کچھ تو چوہے

باقی پیٹ میں دوڑ رہے تھے

ٹھن ٹھن کرتی ہانڈیوں سے

کچھ اپنا سر پھوڑ رہے تھے

سارا اچھّا مال اڑا کر

بیٹھے تھے سب راج جماکر

غصّے میں تھے میاں پکوڑے

ادھر ادھر وہ جم کر دوڑے

چوہا کوئی ہاتھ نہ آیا

گھنٹہ بھر تک انھیں تھکایا

اتنے میں پھر ہوا دھماکہ

کھڑکی سے بلّی نے جھانکا

کہ کر میاوں جو ہانک لگائی

جان پہ چوہوں کے بن آئی

مرنے کی جب نوبت آئی

پھر نہ کچھ بھی دیا سجھائی

دُمےں دباکر سارے بھاگے

بلّی پیچھے ، چوہے آگے


گیت مال (Geet Mala)

گیت مالا

ہرے بھرے جنگل میں، سندر سا اک پیڑ کھڑا تھا
پیڑ پہ بیٹھے پنچھی، بنتے رہتے گیت کی مالا

ہوا نے میٹھے گیت کی مالا اپنے گلے میں ڈالی
اُڑتی پھری پھر وہ دیوانی پربت پربت ڈالی ڈالی

دھرتی نے جب گیت سنے تو لےنے لگی انگڑائی
انگڑائی نے بادل کو اس گیت کی بات بتائی

بادل بھیس بدل بارش کا دوڑا دوڑا آیا
ساری دھرتی جل تھل ہوگئی ٹوٹ کے پانی برسا

پنچھی اُڑ اُڑ کر آئے سب چہکے گیت سنایا
بادل بارش کا موسم بن جنگل میں لہرایا


Saturday, October 27, 2007

خواب نگر (Khwab nagar)

خواب نگر

آئوخواب نگر چلتے ہیں
آئوخواب نگر چلتے ہیں

ڈھونڈنے ایسی بستی جس میں خوشحالی بھی بستی ہو
خون نہ ہو پانی جیسا نہ موت جہاں پر سستی ہو
امن اور چین جہاں کے باسی رعنائی سر مستی ہو

آؤخواب نگر چلتے ہیں

خواب نگر میں سنتے ہیں کچھ پیڑ بھی اونچے اونچے ہیں
جن کی شاخوں پر جھولا کرتے سپنوں کے خوشے ہیں
سپنوں کی گٹھلی کے اندر رستے راج محل کے ہیں

آئوخواب نگر چلتے ہیں

خوابوں میں رس گلّے ،بالو شاہی ،حلوہ پوری ہو
بریڈ پکوڑے ،شاہی ٹکڑے گپ چپ اور کچوری ہو
بریانی کے ساتھ ہو قلیہ ،روٹی بھی تندوری ہو

آئوخواب نگر چلتے ہیں

سونے چاندی کی دیواریں ،اونچے اونچے بنگلے ہوں
ہیروں کا آنگن ہو اور بلّوریں سارے جنگلے ہوں
دم بھر میں دھنوان ہمارے شہر کے سارے کنگلے ہوں

آئوخواب نگر چلتے ہیں

اچّھے انساں بننے کا اک پیارا خواب سجائیں
آئو ہم اس دھرتی کے چاند ستارے بن جائیں
سچ ہو جائیں خواب ہمارے ایسا کچھ کر جائیں

آئو خواب نگر چلتے ہیں
آئو خواب نگر چلتے ہیں




سرکس (Circus)

سرکس

شہر میں سرکس آیا ہے

کھیل تماشے لایا ہے

ہاتھی اونٹ اور گھوڑے ہیں

سب ہی یوں تو بھگوڑے ہیں

سب کو پکڑ کر لایا ہے

شہر میں سرکس آیا ہے

اڑتی اچھلتی کار بھی ہے

کھیلوں کی بھر مار بھی ہے

سارے کھلاڑی اور جوکر

تار پہ چلتے ہیں سرسر

شہر امڈ کر آیا ہے

شہر میں سرکس آیا ہے

شیر بھی ہے اور بکری بھی

کتّوں کی اک ٹولی بھی

ایک بڑا سا بھا لو ہے

کچھ اس کے ہمجولی بھی

بھان متی کا کنبہ ہے

جو سرکس نے جوڑا ہے

ہاتھی پوجا پاٹھ کرے

بندر بندر بانٹ کرے

بھالو ناچ دکھاتا ہے

طوطا توپ چلاتا ہے

سبھی دکھاتے ہیں کرتب

جوکر اب گرا یا تب

سب کے من کو بھایا ہے

شہر میں سرکس آیا ہے


مرغا (Rooster)

مرغا

ککڑوں کوں جی ککڑوں کوں
دیکھو میں اک مرغا ہوں

تم ہو انساں سوئے ہوئے
اور میں دیکھو جاگا ہوں

رات کو جاتے دیکھ چکا
صبح کی آہٹ سنتا ہوں

منظر صبح کا ہے ایسا
تم کو کیوں آواز نہ دوں

سورج کا رتھ نکلا ہے
بستر میں تم چھپے ہو کیوں

سن لی میری بانگ مگر
پھر بھی نہ رینگی کان پہ جوں

Thursday, October 25, 2007

Chutti ka Zamana (vacation time)

چھٹّی کا زمانہ

اسکول بند ہیں سب اب سیر کو ہے جانا

لکھنا ہے اب نہ پڑھنا بس چھٹیاں منانا

بستہ کتاب کاپی سب چھٹّیاں منائیں

بارِگراں سے ان کے ہم بھی نجات پائیں

بستے میں جو بندھا ہے اس کو جہاں میں دیکھیں

کیا کیا کہاں چھپا ہے آ ؤ پتہ لگائیں

سنتے ہیں کچھ عجب ہے دنیا کا کارخانہ

لکھنا ہے اب نہ پڑھنا بس چھٹیاں منانا

آؤ سنیں کہانی ، کوئی نئی پرانی

نانی سنائیں یا پھر ، دادی کی ہو زبانی

اک راکشس بھی آئے ،ہو خوب کھینچا تانی

ایسی لڑائی ہو کہ آجائے یاد نانی

پھر خاتمہ میں آکر دشمن کا ہار جانا

لکھنا ہے اب نہ پڑھنا بس چھٹیاں منانا

بس کھیلنے کی خاطر یہ چھٹّیاں ملی ہیں

ہر سو کھلاڑیوں کی کچھ ٹولیاں بنی ہیں

لہرا رہے ہیں بلّے ، گیندیں اچھل رہی ہیں

فٹ بال کی بھی ٹیمیں میداں میں آ گئی ہیں

تگڑا مقابلہ ہے کچھ کرکے ہے دکھانا

لکھنا ہے اب نہ پڑھنا بس چھٹیاں منانا

ہر سمت ہر ڈگر پر چھٹی کا راج قائم

آنکھوں میں جھلملاتے ہیں سیر کے عزائم

جی چاہتا ہے صدیوں زندہ رہےں یہاں ہم

قائم رہے یہ چھٹّی ، دائم رہے یہ موسم

بس سوچ ہی تو ہے یہ ،ممکن نہیں یہ مانا

لکھنا ہے اب نہ پڑھنا بس چھٹیاں منانا



poems for children

Now I'll be posting poems for children on various topics in Urdu; So... tell me how did you like it.

Wednesday, October 24, 2007

National Anthem in Urdu

Here's an Urdu version of our national anthem(Indian) ,


راشٹر گیت (منظوم ترجمہ)
ہر ذہن و دل پہ یا رب پر تیری ہی حکمرانی
بھارت کا ہو مقدّر ہر گام کامرانی

پنجاب ہو کہ مہاراشٹر ،بنگال یا اڑیسہ
گجرات و سندھ کی ہو یا ہو زمیں دکن کی

بامِ فلک کو چھوتے یہ وندھیہ یہ ہماچل
گنگ و جمن کی موجیں ،بحرعرب کا پانی

ہر چیز پر ہے گویا تیرا نشان،عظمت
ہر لہر میں ہے تیرا ذکرِ مدام جاری

تیرا ہی نامِ اقدس لے کر اٹھے زباں پر
ہم خیر کے ہیں طالب مصروفِ حمدِباری

خوشیاں جہان بھر میں تقسیم کرنے والے
بھارت کا ہو مقدّر تاحشر کامرانی

Monday, October 22, 2007

Naat

نعت

رحمتوں کے نبی ہیں ہمارے نبی

آپ کی زندگی روشنی روشنی

خوابِ غفلت سے اک دن جگایا ہمیں

زندگی کا قرینہ سکھایا ہمیں

آپ ہی نے خدا سے ملایا ہمیں

ہم کو کافی ہے بس آپ کی رہبری

رحمتوں کے نبی ہیں ہمارے نبی

دے گئے ہم کو انسانیت کا چلن

دشمنی دوستی میں بدلنے کا فن

اپنے مالک سے ملنے کی سچّی لگن

کیسی نایاب چیزیں عطا آپ کی

رحمتوں کے نبی ہیں ہمارے نبی

ظلم و ظلمت میں سب کا سہارا بنے

علم و حکمت کے د ر وا کئے آپ نے

عدل و انصاف زندہ ہوا آپ سے

آپ دنیا میں حق کاپیام آخری

رحمتوں کے نبی ہیں ہمارے نبی

آپ کی زندگی روشنی روشی

Sunday, October 14, 2007

malik


اے دو جہاں کے مالک
اے دو جہاں کے مالک ہر جا ہے تیری قدرت
سبزہ دیا زمیں کو سورج کو روشنی دی
ٹھنڈک ہوا میں بھر دی پھولوں کو روشنی دی
اے دو جہاں کے مالک ہر جا ہے تیری قدرت
چڑیوں کے چہچہے ہیں ہونٹوں پہ قہقہے ہیں
بہنے لگیں ہوائیں جھرنے امڈ پڑے ہیں
اے دو جہاں کے مالک ہر جا ہے تیری قدرت
منزل کا تُو پتہ دے راہیں سجھائے تُو ہی
تُو تشنگی بڑھائے چشمہ دکھائے تو ہی
اے دو جہاں کے مالک ہر جا ہے تیری قدرت
دن تھک گیا تو تُو نے شب کا دیا بچھونا
تارے سجادئے اور اک چاند بھی اگایا
اے دو جہاں کے مالک ہر جا ہے تیری قدرت
رشتوں کو دی حلاوت ماں باپ کی محبتّ
ہمجولیوں کی الفت رحم و وفا ، مروّت
اے دو جہاں کے مالک ہر جا ہے تیری قدرت


Saturday, October 13, 2007

Hamd


حمد
حمد و ثنا اسی کی جس نے جہاں بنایا
مٹّی میں جان ڈالی آرامِ جاں بنایا
غنچے کھلائے اس نے پھولوں کو تازگی دی
اظہارِ التجا کو حرف و بیاں بنایا
پیروں تلے ہمارے ممتا بھری زمیں دی
مشفق سا اپنے سر پر اک آسماں بنایا
راہیں اسی کی صنعت سمتیں اسی کی قدرت
بخشے ہیں ہم قدم بھی اور کارواں بنایا
بربادیوں رکھ دی امن و اماں کی صورت
عشرت کد وں کو اس نے عبرت نشاں بنایا
لفظوں کی ساری دنیا اس کی ثنا سے قاصر
اک لفظِ کن سے اس نے سارا جہاں بنایا

urdu poems for children

I have a lot poems written specially for children in urdu.
So, from now on I will be posting them reguly.


Thursday, October 11, 2007

Learning English

It is a fact that teaching and learning go hand in hand, but our education system has invented such strange institutions in our society, which have ridiculed the whole process. A personal experience revealed the fact.

Those were the days of full of problems as I was eagerly looking for a job. My family problems compelled me to do anything even to do post graduation in English. In this Herculean task, I managed to get third division which was sufficient, at that time for the job of a high school teacher.
As I had already passed my B.Ed examination, I easily became a teacher. Being a product a non-English medium school, speaking flawless English was beyond my capacity.

A feeling of inferiority complex turned into a guilty conscious which forced me to avoid conversation skillfully. Fortunately, my school was in a town.
Not a single teacher had mastery over any language. Talat was the only lady teacher who had control over many languages at a time. So was the common opinion about her. She always tried to prove herself as a good speaker in English.

The conscious listeners always encouraged her with a meaningful smile but she was not smart enough to understand its true sense. Once she told me that some of her colleagues blamed her for speaking faulty English. They say, “Main Angrezi ki Tang Todti Hoon”. Is it correct sir? She asked me. I tried to cool her by saying that the British had kicked Indians for a long time, therefore, there is nothing wrong in breaking “Tang” of their tongue.

Once I went through an advertisement about an English speaking class run by a social organization. Now a days such coaching classes have mushroomed in cities and towns. Since villages and towns are on the path of following ever bad things of cities, these things are spreading in our villages too. I thought it would be an opportunity to overcome my problem of communication in English. So I approached them the secretary of the organization welcomed me warmly. He gave me details of the class and amount to be deposited, which was affordable and the timings suitable. I informed him about my intention to improve my English. I informed him that I am a graduate of English literature, he again shook hands and encouraged me by saying, “Don’t bother about it, the problem is common in our society and for this we are trying to provide atmosphere so that people can develop their hidden skills, so tell me, when will you join us?”
“Tomorrow I replied”.

Next day, I reached there and about to enter the classroom, the secretary stopped me and said, “Sir, since, it is our first batch we will pay you only five hundred rupees per month”.
“You will pay me for what?”, I asked surprisingly. As a student, actually I have to pay you”.
“No sir”, said the secretary, “Since you are a teacher in our speaking class, we will pay you”.
“Oh God, I came here as a student” I tried to clear my position.
“Let it be”. He said, but we are appointing you as a tutor as you have done graduation in English.
“And what about my speaking ability?” I asked worriedly.
“Don’t worry sir, the best way to learn any language is to teach it to others, a practical approach”, said he pushing me into the classroom.

The Pride and Prejudice of Languages

The most important aspect of a language is its charismatic power to bind people with each other. In our day to day life if we want to get some one’s favor, the key to open the door of his heart is to speak in his or her mother tongue. A famous couplet of Persian says, , Zuban-e Yar Mun Turkey Vo Mun Turkey Nami Danum ,Che Khub boode agar boode Zubanash Dar Dhane Mun .
(My beloved’s language is Turkey which I don’t know; how better it would be if I would have her tongue (language) in my mouth.

Languages are not merely a medium of expression but an asset to be boasted about. Nations and people always feel proud of their respective language for different reasons. Some on their being sweetest one, some for their literary heritage, other for their sound and vocabulary and there are some ancient languages a matter of pride for the nation. Arabians were so much proud of their skill of oratory and art of speaking; therefore they would call themselves Arab and say rest of the world, ‘Ajam’ means dumb.

When Sarojini Naidu,famous poetess showed her poems to a British writer, he had a strong objection to her on being a creative writer of English ,as he thought it was the only privilege of British.

In Urdu language famous poet Meer Taqi Meer says, Reekhta Mein Hum Se Gugtagoo Mat Kar ,Yeh Hamari Zuban Hai Pyare. (Don’t try to have a conversation in Reekhta with us as it is our language (Earlier Urdu language had been called Reekhta)
An other Poet Dagh Dehelvi says: Urdu Hai Jis Ka Nam Hum hi Jante Hain Dagh ,Sare Jahan Mein Dhoom Hamari Zuban Ki Hai.(We are ,the only one ,well versed in world famous ,Urdu language)

The history of languages contains a number of similar examples, which shows people exaggerating merit and greatness of their languages and at the same time they degrade others. In fact literary heritage is a matter of pride for a nation as well as for the people associated to it. But, this love and the pride, some times, had given way to the hatred for other languages too. We know that the people of France are against English. In India Southern states have disliking for Hindi. Similar situation is with Urdu and Hindi in U.P., where these two languages are considered rival to each other. The other day; a comment of a scholar, speaking regarding languages, shocked me. He said: the division of states in India is based on languages; we can’t ignore this harsh reality that languages had divided our country.

This is a co-incident that we witness both the sides of reality in our society. I meet a number of people whose mother tongue is either Hindi or Marathi, they are eager to learn Urdu, so that they may enjoy the rich literary treasure of Urdu Ghazal directly through its original script. The attention for Urdu language may be for its literary characteristic, particularly for the form of Ghazal. Ghazal is really very much useful for common man as well as for lovers and even for politicians too .It has a number of couplets enable you to express your heart so skillfully and in an artistic manner, It is helpful to contact to the person you want to convey your feelings, which is not possible in plain conversation.

Memories of a Riot

The lasting influences of any atmosphere on our mind can’t be denied .The framework provided by the happenings around us moulds our emotions too. I acquainted with this fact by a strange incident in my life.

I was, at that time living in a town with my uncle, by profession a businessman, having four shops dealing with different commodities related to the necessities of life, you may call it the life line of the town. The shops adjacent to his home, no other building was as huge as it was in that small town.

It was an enjoyment for me to see natural life in rural area, slow, calm, like a brook, a very simple, honest, far from artificial decorum of city life. One day; suddenly, a riot broke out and engulfed the peaceful atmosphere of the whole region.

Amidst the thick population of other community, my nucleus’s shops cum house were the only one belonged to our community. We were crazy about our safety. The history of such incidents made me believe that hatred, and madness of communalism turns people into a blind devil and the relations of years lose meanings and the warmth of love with in a moment. Though we were afraid of the hostility of other community, my uncle never bothered about it. He was calm, confident about the intention of his neighbors. He was very popular among the residents of the town for his nobility, and helping nature. Poor people would admire his philanthropy, when ever they need money or any other help he was ready to help them. Due to affection and love for him in the hearts of residents, my uncle never worried about the changing weathers of the town.
The people from out sides were trying to disturb the atmosphere of the vicinity by provoking speeches, so I was anxious about any unpleasant incident, which may occur any time.
It was the moments before dawn; I woke up hearing uproar in the street. People were shouting loudly, the sound of slapping and beating some one was clear. Different voices being heard: “Maro, Pakdo, Udhar, Udhar Bhaga paskdo, Are rassi se bandho, pakdo ……”

It took no time to understand that the riot has taken this village into his grip. I knew that it was the time when uncle would go to Namaz-e Fajr (morning Prayer) and I thought that miscreant Had captured him. There was no other way remained for me, except to go out side to rescue him. I was aware that it was impossible for me to give a fight to a mob still I went ahead. Near the door I found a heavy iron rod .I took it and entered in the balcony realizing
Those those were the last moments of my life. I confirmed my belief on God by enchanting holy verses.

As I entered in the balcony and peep into the street, to my surprise a strange view made me laugh. There were a number of people around many cattle pushing them to wards kanji house, which was in front of our shops. The uproar was for those cattle to put them in kanji house.
Now, when ever I think about this incident. I feel my self-ashamed that we think about people according to the noises arises in our atmosphere. Most of them these misunderstandings are due to the false propaganda destroying the peace and unity of our country too.

To Be A Common Man

I think it was a great change in Mr. ‘B’, after his promotion as an in-charge of his department; he would avoid joining the band of his colleague during the lunch break. Perhaps after elevated on a post upper then others, he thought, it was not proper to stand having tea, near a roadside tea stall, with his juniors. At that moment he didn’t remain a common man like others. I have seen many officers and the people enjoying a special status in society, avoid public places and even they don’t intend to meet the people not belonging to their cadre. Such types of people live in their own ivory tower. Mostly, these people are found detached from real life, their gain proves to be at the cost of a loss.

After a year, an employee who was senior than Mr. ‘R ’, represented himself and replaced at the post of Mr. ‘R’, so he was reverted on his former post and joined us as usual. It doesn’t mean that real joy of a life is only lies in the life style of a common man, but surely it is not in a mess of so many bindings and restrictions. A common man has no need to wear mask neither he has to adopt double standard, which becomes very necessary for celebrities, in this sense, I think, he is closer to life. Perhaps, this is a justice of Almighty God, that when He bestows some privileges to a V.I.P., the man don’t know that his gain has also a supplement of loss on the contrary same position is with the common man that though he has been deprived of those special things, but still he belongs advantages of being a common man.

I don’t know how many people in this world aspire to be a V.I.P., as for as my personal intention is concerned, I have never desired to do so as I think to be a common man is to be in a position to enjoy a natural and a peaceful life .Now a days to remain a common man is not so easy as every individual in our society has been put on a track where the ultimate goal of life is to achieve a place for himself which may provide him an identity and his behavior may suit the life style of our age, and it is sure that this ideal attitude is not of an ordinary man’s behavior.

Every age brings its own requirements, and the people living in that particular period mould themselves accordingly.