تعلیمِ نسواں اور بدلتے ہؤے حالات
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ایک لمحۂ فکریہ
انعام الرحیم، ناگپور
کککککککککککککککککککککککککککککککککککککککککککککککککککککک
اس کائنات کا تمام تر نظام مکمّل طور پر اعتدال اور توازن پر قائم ہے ۔خالقِ کائنات نے قرآن کریم میں اور سرورِ کائنات ﷺ نے احادیثِ مبارکہ میں جگہ جگہ اسی حقیقت کی طرف اشارہ کیا ہے اوراعتدال اور میا نہ روی کو اختیار کرنے کی تلقین کی ہے ۔
قدرت نے سماج کو مرد و زن میں تقسیم کیا ہے اور ان دونوں کی تعلیم و تربیت ،ضروریات ،حقوق و فرائض ،اور دائرۂ کار کا تعین ان دونوں کی فطری ساخت کے مطابق کیا ہے ۔اسی وجہ سے پوری کائنات اعتدال پر قائم ہے ۔اگر انسان قدرت کے متعین کردہ دائرۂ اختیار سے نکل کر خود کے بنائے ہوئے اصول و ضوابط پر سماجی و معاشرتی نظام کوکھڑا کرنے کی کوشش کرے گا تو معاشرہ کا فطری توازن خود بخود بگڑ نا شروع ہو جائے گا اور سماجی زندگی بکھراؤ کا شکار ہو جائے گی جس کا مشاہدہ ہم دورِ حاضر میں کر رہے ہیں ۔
بین الذات شادیاں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
INTERCASTE MARRIAGE
گذشتہ چند برسوں میں شہر ناگپور میں ایک مسلم انجینئر لڑکی اور ایک ڈاکڑ لڑکی نے غیر مسلم لڑکوں کے ساتھ غیر مسلم رسم و رواج کے مطابق شادی کرکے ہندو مذہب کو اختیار کرلیا ۔ اس واقعہ نے ہر ذی ہوش مسلم کے دل کو ہلا کر رکھ دیا ۔ اس واقعہ کے بعد نہ صرف اس شہر میں بلکہ ملک گیر پیمانے پر اس قسم کے بیشمار واقعات رونما ہو چکے ہیں ۔اور ان میں دن بہ دن اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ اسلام میں ارتداد کی سزا قتل ہے اس کے باوجود مسلم والدین میں بین الذات شادیوں کو جدید تہذیب کا حصّہ سمجھ کر بخوشی قبول کیا جا رہا ہے ۔ موجودہ تحقیق سے یہ حقیقت سامنے آئی ہے کہ مسلم لڑ کیوں کا بین الذات شادیوں MARRIAGE INTERCASTE
کا تناسب دوسری قوموں کے مقابلہ میں زیادہ ہے ۔ اسی وجہ سے اس موضوع پر قلم اٹھانا پڑا۔
تحریکِ آزادیِ نسواں کے اثرات
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دورِ جدید میں مساواتِ مرد و زن ،عورتوں کی تعلیم و تربیت ،عورتوں کے حقوق ،روزگار ،معاش ،اور ان کی آزادی کو بنیاد بنا کر عالمی پیمانہ پر کئی تحریکیں چلائی جاتی رہی ہیں جن میں ایک نام نہاد تحریک، تحریکِ آزادیِ نسواںWOMEN'S LIBERATION بھی ہے ۔اس تحریک کا محرّک کون ہے ؟اس کی جائے پیدائش کیا ہے ؟اور اس تحریک کی غرض و غایت کیا ہے؟ ان سوالوں کے جوابات جانے بغیر امّتِ مسلمہ کا ہر خاص و عام اس کی تقلید کر رہا ہے۔مسجدوں کے منبر و محراب ، مسلم محلّوں ،گلی کوچوں اور چھوٹے بڑے جلسوں میں بھی اس کی حمایت میں آوازیں سنائی دیتی ہیں۔اس تحریک کی تبلیغ میں علماء، دانشور،مفکّر ، ادیب، شاعر،سرپرست ، اساتذہ اور مصلحینِ قوم اس قدر منہمک ہوئے کہ قوم کے لڑکوںکو عضوِ ناکارہ سمجھ بیٹھے ، ان پر تعلیم و تربیت، ،معاش،روزگار،حقوق و فرائض ،اخلاق و اصلاح وغیرہ کے دروازے دانستہ یا نادانستہ طور پر بند کردئے گئے ۔امّتِ مسلمہ کے نوجوانوں کی کثیر تعداد آج ایک ایسے دوراہے پر کھڑی ہے کہ الاماں والحفیظ ۔یہ نوجوان اس کے نتیجے میں جس بے راہ روی کی طرف جا رہے ہیں ان سے کو ئی قبیح فعل ایسا نہیں بچا جس کا ارتکاب انہوں نے کیا نہ ہو۔ ذرائع ابلاغ میں امّت کے ان نوجوانوں کے کارناموں کا کافی چرچا ہے ۔یہ صورتِ حال امّتِ مسلمہ کے حق میں نہایت خطرناک ہے۔ عالمی تحریکِ آزادیِ نسواں ،مساواتِ مرد و زن کی جدّو جہد اور موجودہ تعلیمی نظام اور ماحول کا جو ردِّ عمل ان نوجوانوں میں ظاہر ہورہا ہے اس کے نتیجہ میں ان میں اپنی تہذیبی قدریں ،شرم و حیا ،ادب لحاظ اور احترام سب کچھ مٹتا جا رہا ہے ۔ موجودہ تعلیمی نظام کا تربیتی و اصلاحی پہلو سے خالی ہونا،اس خرابی کا ایک اہم سبب ہے۔کسی شاعر نے کیا خوب کہا ہے
جس علم کی تاثیر سے زن ہوتی ہے نازن
کہتے ہیں اسی علم کو اربابِ نظر موت
الحاد اور بے راہ روی
ہم سمجھتے تھے کہ لائے گی فراغت تعلیم
کیا خبر تھی کہ چلا آئے گا الحاد بھی ساتھ
انگریزوں کی آمد کے بعد مغربی تہذیب کو جو زبردست فروغ حاصل ہوا اس نے ہندوستان کے سبھی ریفارمرس کو ہلا کر رکھ دیا تھا ۔مسلم علماء اور دانشوروں کے سامنے اس وقت کفر و الحاد اور مغرب پرستی کے نتیجہ میں پیدا ہونے والی بے راہ روی ،آوارگی اور جنسی انارکی ایک زبردست فتنہ کی شکل میں منہ پھاڑے کھڑی تھی۔ آزادی کے بعد امّت کا ایک بڑا طبقہ اس الحاد کے معاملہ میں کسی حد تک بے فکر سا ہوگیا اس کا سبب شاید یہ بھی رہا ہو کہ ہمارے سماج میں اپنی تہذیبی قدروں کی بازیافت کا شعور پیدا ہوا اور مختلف مذہبی تحریکوں نے ہمارے اندر دین کو مضبوطی سے تھامنے کا جذبہ پیدا کردیا چنا نچہ الحاد سے کسی حد تک امن نصیب ہوا ،لیکن آج شعبۂ تعلیم میں تعلیمِ نسواں کے فروغ اور مخدوش ماحول نے الحاد کے اس سوئے ہوئے جن کو دوبارہ جگا دیا ہے ۔
معاشی عدم استحکام کے اثرات
موجودہ دور میں ہر قوم میں تعلیمِ نسواں کو فروغ حاصل ہو رہا ہے اس کی ایک اہم وجہ معاشی عدم استحکام بھی ہے ۔ بڑھتی ہوئی ضروریاتِ زندگی اور اچّھے رشتوں کی تلاش بھی اس کا ایک محرّک ہے ۔لڑکی کا اعلیٰ تعلیم یافتہ اور بر سرِ روزگار ہونا اس کے مستقبل اور خوشحال ازدواجی زندگی کا ضامن سمجھا جاتا ہے جو ہرحالت میں صحیح ثابت نہیں ہوتا ۔چونکہ لڑکیوں کے معاشی استحکام کو ان کی فطری ضروریات کا متبادل سمجھاجانے لگا ہے ،معاشی ا ستحکام نے لڑکیوں اور ان کے والدین میں انانیت پیدا کردی ہے جس نے زندگی سے مفاہمت کے سارے دروازے بند کر دئے ہیں ۔بے جوڑ رشتے قائم ہونے لگے ہیں جن میں معمولی کھٹ پٹ سے بکھراؤ پیدا ہوجاتا ہے ۔
یہ سچ ہے کہ تعلیمی بیداری نے لڑکیوں میں تعلیم کا گراف کچھ اونچا کردیا ہے لیکن دوسری طرف مسلمانوں میں لڑکے تعلیم کے میدان میںپسماندگی کا شکار ہوگئے ہیں ۔ مسلم طلباء میں تعلیم کے شعبہ میں آگے بڑھنے والوں کی شرح اسقدر کم ہے کہ اس معاملہ میں اربابِ حل و عقد اور مصلحینِ قوم کو فکر مند ہوکر اس مسئلہ کا حل تلاش کرنا چاہئے ۔ لڑکیوں کے کثیر تعداد میں اعلیٰ تعلیم یافتہ ہونے سے لڑکوں کو جن خرابیوں میں مبتلا کیا ہے ان میں ان کا کام چور ہونا ،کاہلی ، غیر ذمّہ داری ہٹ دھرمی اورتشدد پر آمادہ ہونا اہم ہیں ۔تصوّر کیجئے ایک ایسی قوم کا جس میں بیشمار لڑکیاں اعلیٰ تعلیم یافتہ ہیں اور چند نوجوان پڑھے لکھے ہیں ۔کیا یہ عدم توازن ایک فتنہ بن کر نہیں ابھرے گا ۔ کیا اس صورتِ حال سے ایک صحت مند معاشرہ کی توقّع کی جا سکتی ہے ؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
طویل مدّتی تعلیم کے لڑکیوں پر اثرات
طویل مدّتی تعلیم کے لڑکیوں پر اثرات
،،،،،،،،،،،،،
دورِ حاضر میںلڑکیوں کے والدین یا سرستوں نے لڑکیوں کو قومی اثاثہ سمجھ کر اپنی ضروریات ، و خواہشات،اور جذبات کی تسکین کا بوجھ ان کے کمزور کاندھوں پر ڈال دیا ہے اور اپنے ان منصوبوں کی تکمیل کے لئے طالبات کو طویل مدّتی پروفیشنل کورسسیس میں داخلہ دلوا کر ان کی زندگی اور عمر کے اہم حصّہ کو داؤ پر لگا رہے ہیں ۔اسی لئے ان لڑکیوں میں چڑچڑا پن ،افسردگی،اور نفسیاتی امراض گھر کرنا شروع کردیتے ہیں ۔یہ عوامل بعض اوقات انھیں سماج سے بغاوت پر بھی آمادہ کردیتے ہیں ۔ یہی سبب ہے کہ بین الذات شادیوں کا رواج ہماری قوم میں بھی وبا کی طرح پھیلنے لگا ہے ۔ تربیتی ،اخلاقی و اصلاحی زیور سے آراستہ بے شمار لڑکیاں جبراً صبر کرکے اور اپنی خواہشات کا گلا گھونٹ کر بڑھاپے کی دہلیز تک پہنچ گئیں ۔یہ تمام باتیں رسول اﷲ ﷺ کی تعلیمات سے سراسر انحراف ہے ۔ اسی لئے اس کے برے نتائج بھی سامنے آرہے ہیں ۔نبی کریم ﷺ نے فرمایا تھا کہ لڑکیوں کے بالغ ہونے پر ان کے نکاح میں جلدی کرو ،ورنہ سماج میںجو فتنہ و فساد برپا ہوگا اس کی ذمّۃ داری والدین پر ہوگی ۔
چند تجاویز
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آج ضرورت اس بات کی ہے کہ جہاں طالبات کی تعلیم پر توجّہ دی جا رہی ہے وہیں طلبا کی تعلیمی پسماندگی کا بھی کچھ علاج کیا جائے۔
۲۔قوم کے ہمدرد اور مصلحین اس مسئلہ پے سنجیدگی سے غور کریں اور ایسے ادارے قائم کریں جہاں صرف لڑکیوں کی تعلیم کا ،انتظام ہو اور وہ ہر طرح کی بے راہ روی اور گمراہیوں سے محفوظ رہ کر تعلیم حاصل کر سکیں ۔
۳۔ ہمارے مسلم اداروں میں سے بھی اکثرکو اس بات کی قطعی پروا نہیں ہوتی کہ وہاں موجود خراب نظامِ تعلیم اور دیگر بد انتظامیوں کی وجہ سے قوم کی بیٹیوں کووہ گمراہیوں کے گڑھے میں دھکیل رہے ہیں ۔ اس سلسہ میں بہت محتاط رہنے کی ضرورت ہے ۔
۴۔ موجودہ صورتِ حال میں لڑکیوں کے سر پرستوں کے لئے یہ ضروری ہے کہ وہ تعلیمی ، معاشی اور نسبی معیار کو چھوڑ کر زند گی سے مفاہمت کو ترجیح دیں ۔
۵۔ لڑکیوں کو اعلیٰ تعلیم اور پروفیشنل کورسیس میںداخلہ دلوانے سے پہلے لڑکیوں کی فطری ساخت اور اسلامی نقطۂ نظر کا بھی خیال رکھیں
۔ مذکورہ کورسیس طویل مدّتی نہ ہوں ۔
۷۔ کالج کا انتخاب کرتے وقت اس بات کا خیال رکھا جائے کہ وہاں کا ماحول صاف ستھرا ، بے راہ روی اور آوارگی سے پاک ہو ۔
۸۔ ایسے کالج کو ترجیح دی جائے جہاں لڑ کوں اور لڑ کیوں کے اختلاط کی گنجائش کم ہو ۔
۹۔لڑکوں اور لڑکیوں کے لئے قلیل مدّتی کورسیس مناسب ہیں اسی کے ساتھ یہ بھی ضروری ہے کہ وہ کورسیس معاش و روز گار سے منسلک ہوں تاکہ وہ جلد از جلدمعاشی اعتبار سے مستحکم ہوسکیں ۔
۱۰۔ لڑکیوں کو خواہ وہ اسکول میں زیرِ تعلیم ہوں یا کالج میں ان کے اوقات اور مصروفیات کی خبر گیری نہایت ضروری ہے۔ والدین کو ان کے ساتھیوں اور ملاقاتیوں کا علم بھی ہونا چاہئے ۔
امّتِ مسلمہ کے ہر فرد کی یہ ذمّہ داری ہے کہ وہ اس صورتِ حال سے امّت کو باہر نکالنے کی کوشش کرے ۔ ملک گیر پیمانے پیمانے پر ایک ایسی تحریک چلانے کی ضرورت ہے جس کے ذریعے مسلم لڑکوں اور نو جوانوں کو تعلیم کی طرف راغب کیا جاسکے اور خاص طور پر اعلیٰ تعلیم کے لئے انھیں آمادہ کیا جائے تاکہ ہماری معاشرتی زندگی میں جو عدم تواز ن بڑھتا جارہا ہے اسے توازن میں بدلا جا سکے۔
تتتتتتتتتتتتتتتتتتتتتتتتتتتتتتتتتتتتتتتتتتتتتتتتتتتتتتتتتتتتتتتتتتتتتتتتتتتتتتتتتتتتتتتتتتتتتتتتتتتتتتتتتت
۔ موجودہ صورتِ حال میں لڑکیوں کے سر پرستوں کے لئے یہ ضروری ہے کہ وہ تعلیمی ، معاشی اور نسبی معیار کو چھوڑ کر زند گی سے مفاہمت کو ترجیح دیں
ReplyDeleteہیہ ہے اس سارے مسئلے کی جڑ
معاشرے میں توازن لانے کے لئیے خاصی غیر متوازن تحریر ہے۔
ReplyDeleteکمال ہے صاحب نہ ماں باپ کی کوئی غلطی نہ نکمے لڑ کوں کا کوئی قصور بس ہر پھر کر تان لڑکیوں پر ٹوٹی!
ReplyDeleteلڑکیوں کے کثیر تعداد میں اعلیٰ تعلیم یافتہ ہونے سے لڑکوں کو جن خرابیوں میں مبتلا کیا ہے ان میں ان کا کام چور ہونا ،کاہلی ، غیر ذمّہ داری ہٹ دھرمی اورتشدد پر آمادہ ہونا اہم ہیں ۔تصوّر کیجئے ایک ایسی قوم کا جس میں بیشمار لڑکیاں اعلیٰ تعلیم یافتہ ہیں اور چند نوجوان پڑھے لکھے ہیں ۔کیا یہ عدم توازن ایک فتنہ بن کر نہیں ابھرے گا ۔ کیا اس صورتِ حال سے ایک صحت مند معاشرہ کی توقّع کی جا سکتی ہے
بھیاآپ کے یہ دلائل انتہائی کمزور بلکہ بے بنیاد ہیں آپ کیا چاہتے ہیں کہ اگر مسلمانوں کے لڑ کے تعلیم حاصل نہیں کررہے تو ان کی لڑکیاں بھی جاہل رہ جائیں اور ایک جاہلانہ اسلامی معاشرہ تیار ہو؟
ماں باپ کو چاہیئے کہ وہ اپنی اولاد کی صحیح اسلامی تربیت کریں تاکہ اگر کوئی لڑکی کسی غیر مسلم کی طرف اس کی زہانت اور لیاقت کی وجہ سے متوجہ ہو تو وہ اسے اسلام کی روشنی میں لاکر اس سے شادی کرے!
اور لڑکوں کو جو بے نتھا بیل بنا کر چھوڑ دیا جاتا ہے ماں باپ کو چاہیئے کہ وہ انہیں حدود و قیود کا پابند کریں تاکہ وہ بھی اپنی ذندگیاں گلیوں چوراہوں اور سینما ہالوں میں بربادکرنے کے بجائے تعلیمی اداروں میں کھپائیں!
اور اب مسلمانوں کو اس ہڈی بوٹی جوڑنے کے چکر سے باہر نکل آنا چاہیئے!
بلکل نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فرمایا مگر کن کے لیئے ان عورتوں کے لیئے جو طلاق یافتہ یا بیوا ہوجائیں کہ ان کے نکاح میں جلدی کرو،
اور کیا یہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث نہیں ہے کہ علم کا حاصل کرنا مرد اور عورت دونوں پر فرض ہے،
ایک طرف مشورہ ہے اور دوسری طرف حکم اور وہ بھی فرض کا حکم جیسے نماز پڑھنے کا،
اس طرح کی غلط پرائیورٹیز نے ہم مسلمانوں کے معاشروں کا بیڑا غرق کیا ہے!