ہمارے بھی ہیں مہر باں کیسے کیسے
ڈاکٹر سروشہ نسرین
ناگپور
ھھھھھھھھھھھھھھھھھھھھھھھھھھھھھھھھھھھھھھھھھھھھھھھھھھھھھھھھھھھھ
یوں تو اکثر دیکھا اور سنا گیا ہے کہ بادشاہ، نواب، رئیس، اور امیر اپنے بچوں کی سالگرہ بڑی دھوم دھام، بڑے ٹھاٹ باٹ، بڑی ہنگامہ آرائی اور بڑے جوش و خروش سے مناتے ہیں۔ مہینوں قبل اس کی تیاری شروع کر دیتے ہیں اور اس جشن کو یادگار بناتے ہیں تا کہ دور دور تک ان کے نام کا چرچا ہو۔ عام لوگو ں اور غریبوں میں اس کا رواج نہیں کی مانند تھا۔ مگر اب یہ رواج عام ہے۔ معمولی سے معمولی حیثیت کا انسان بھی اب اپنے بچے کی سالگرہ دھوم دھام سے منانے کے چکر میں قرض دار ہو جاتا ہے لیکن اس کام کو انجام دئے بغیر سانس نہیں لیتا۔ رشتہ داروں، محلے والوں اورپڑوسیوں پر اپنا رعب جمانے کی ہوڑ میں بعد کو ہفتوں فاقے کرتا ہے اور مہینوں محنت کشی سے اپنی صحت خراب کر تا ہے۔ بلا شبہ یہ فلموں اور ٹی۔وی۔ کی دین ہے جس نے لوگوں کو بغیر سوچے سمجھے، بغیر جانے بوجھے اپنی اندھی تقلید پر مجبور کیا ہے۔ میرے دونوں بیٹے، میں اور میرے شوہر اس اندھی تقلید کے تو قائل نہیں ہیں۔ ہاں اتنا ضرور کرتے ہیں کہ جس بیٹے کا برتھ ڈے ہو اس کے چند خاص دوستوں کو مدعو کر ان کی خاطرمدارات کرکے ہلکی پھلکی تفریح کا انتظام کر لیا جائے۔
اس روز میرے بیٹے فرقان کی سالگرہ تھی اس کے چند دوست اور میرے دونوں بھائی کے بچے اسے برتھ ڈے وش کرنے کے لیے تین بجے آنے والے تھے۔ میں جب ڈیوٹی کے بعد دو بجے کے قریب گھر کے لیے روانہ ہوئی تو راہ میں میرے ذہن میں یہ بات آئی کہ سبھی بچوں اور فرقان کی پسند کی چند مٹھائیاں اور کچھ نمکین ساتھ لیتی چلوں تا کہ سبھی کو خوش کر سکوں۔ بچوں کا برتھ ڈے اگر ان کی مرضی اور ان کی دلی خواہش کو مدِ نظر رکھتے ہوئے منایا جائے تو وہ بہت خوش ہو جاتے ہیں۔ ان کی سال بھر کی پڑھائی بھی بڑی دلجوئی اور لگن کے ساتھ ہوتی ہے۔ سال بھر فرمانبرداری کروانے کے لیے بس ایک دن کی یہ ہمّت افزائی فائدے مند ثابت ہوتی ہے۔ میں نے اسی خیال کے مدنظر گاڑی صدر کے پارکنگ پلیس میں پارک کی اور مٹھائی کی ایک شاندار ہوٹل میں قدم رکھا تا کہ میں اپنے چھوٹے بیٹے فرقان کو سال بھر کے لیے خو ش کر سکوں۔
اس روز میرے بیٹے فرقان کی سالگرہ تھی اس کے چند دوست اور میرے دونوں بھائی کے بچے اسے برتھ ڈے وش کرنے کے لیے تین بجے آنے والے تھے۔ میں جب ڈیوٹی کے بعد دو بجے کے قریب گھر کے لیے روانہ ہوئی تو راہ میں میرے ذہن میں یہ بات آئی کہ سبھی بچوں اور فرقان کی پسند کی چند مٹھائیاں اور کچھ نمکین ساتھ لیتی چلوں تا کہ سبھی کو خوش کر سکوں۔ بچوں کا برتھ ڈے اگر ان کی مرضی اور ان کی دلی خواہش کو مدِ نظر رکھتے ہوئے منایا جائے تو وہ بہت خوش ہو جاتے ہیں۔ ان کی سال بھر کی پڑھائی بھی بڑی دلجوئی اور لگن کے ساتھ ہوتی ہے۔ سال بھر فرمانبرداری کروانے کے لیے بس ایک دن کی یہ ہمّت افزائی فائدے مند ثابت ہوتی ہے۔ میں نے اسی خیال کے مدنظر گاڑی صدر کے پارکنگ پلیس میں پارک کی اور مٹھائی کی ایک شاندار ہوٹل میں قدم رکھا تا کہ میں اپنے چھوٹے بیٹے فرقان کو سال بھر کے لیے خو ش کر سکوں۔
ٍہوٹل میں داخل ہونے کے بعد میں نے حلوائی سے کہا،’’بھےّا، یہ مٹھائی آدھا کلو، یہ کھوا کیک ایک کلو، یہ نمکین ایک کلو، یہ سموسے دس پلیٹ، وہ بالو شاہی کا ایک پیکٹ پیک کر دینا‘‘ اسے اس طرح کی ہدایات دے کر میں مڑنے کو تھی کہ اسی وقت میری پشت سے آواز آئی ،’’ہلو عائشہ دیدی نمستے کیا خرید رہی ہیں آپ؟‘‘میں نے دیکھا میرے قریب ہی ہماری کالونی کی بیوٹیشین وبھا کھڑی ہے۔ میں نے کہا،’’ میرے چھوٹے بیٹے کا برتھ ڈے ہے، اس کے چند دوست آنے والے ہیں۔ انہیں کے لیے کچھ مٹھائیاںخرید ی ہیں۔‘‘ وہ آگے بڑھی اور مجھ سے بولی، ۔’’ دیدی یہ مٹھائی کیسی ہے‘‘ میں نے کہا، ’’ اس مٹھائی کو تو میں کئی مرتبہ آزما چکی ہوں، بہت عمدہ اور بے حد لذیذ ہے‘‘۔وبھا بولی،’’تب تو میں یہ مٹھائی خرید لیتی ہوں۔ اچھا دیدی نمکین میں آپ نے کیا خریدا؟‘‘ میں نے جو دو چیزیں خریدیں تھی ان کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا،۔۔’’ یہ دو چیزیں ہیں۔‘‘ وبھا بولی،’’یہ چیزیں میرے بچوں کو بھی ضرور پسند آئیں گی۔ میں یہ بھی خرید لیتی ہوں۔‘‘
اس دوران مٹھائی والا میری بتائی ہوئی چیزیں پیک کر چکا تھا۔ اس نے میری طرف بل بڑھاتے ہوئے کہا،’’ میڈم، یہ آپ کا بل اور یہ آپ کی بتائی ہوئی چیزیں۔۔۔‘‘اس نے یہ کہتے ہوئے چیزوں کا پیکٹ میری طرف بڑھایا تو ان چیزوں کو لینے سے پہلے میں نے بل ادا کرنا ضروری سمجھا۔میں نے پرس کھولا اور اس میں روپیوں کا چھوٹا بٹوا تلاش کرنے لگی لیکن وہ مجھے کہیں دکھائی نہ دیا۔ میں نے پرس کے ایک ایک خانے کی چین کھول کر بٹوا تلاش کیا۔ وہ پرس میں ہوتا تو ملتا مگر وہ تووہاں تھا ہی نہیں۔بٹواشاید صبح کے کاموں کی کی عجلت میں گھر سے نکلتے وقت وہیں چھوٹ گیا تھا۔ ہوٹل میں مٹھائی کے اور بھی خریدار موجود تھے۔ سب کے سامنے اتنی بڑی شرمندگی اور خجالت کے احساس سے میرے ماتھے پر پسینے کے قطرے چمکنے لگے۔ آج سے پہلے ایسا موقع کبھی نہ آیا تھا کہ میں نے پرس گھر میں بھول کر کبھی شاپنگ کی ہو۔ مارے شرم کے میں پانی پانی ہوئی جارہی تھی۔ یوں لگنے لگا تھا کہ زمیں پھٹ جائے اور میں اس میں سما جاؤں اور اس خجالت اور شرمندگی سے چھٹکارا پا جاؤں لیکن یہ صرف میرے تصور کا وہم تھا ایسا کچھ نہ ہو سکا۔ میں نے حلوائی سے کہا،’’ میں اپنا پرس گھر پر بھول آئی ہوں، تم یہ پیکٹ یہیں رہنے دو۔ میں ابھی جا کر پیسے لے آتی ہوں۔‘‘یہ کہہ کر میں وہاں سے ہٹنے کو ہوئی تبھی حلوائی نے وبھا کی طرف بل بڑھایا۔ وبھا نے اسے روپیے دینے کے لیے پرس کھولا تو اس میں مجھے بہت سے نوٹ دکھائی دیے۔ میں نے اپنے دل میں خیال کیا یہ میری کالونی کی رہنے والی ہے۔ اگر اس کے سامنے اپنی مجبوری ظاہر کی جائے تو یہ مدد کر سکتی ہے۔ جب وبھا نوٹ گن کر حلوائی کو دینے لگی تو اسی وقت میں نے سر گوشی کے انداز میں وبھا کے قریب جا کر کہا، ’’ وبھا، میں اپنا پرس گھر بھول آئی ہوں۔ بل ادا کرنے کے لیے میرے پاس روپئے نہیں ہیں‘‘ لیکن وبھا کے کان پر جوں تک نہ رینگی وہ بد ستور اپنے کام میں مشغول رہی۔
مجھے گمان گزرا شاید وبھا نے میری بات نہیں سنی میں نے دوبارہ ذرا اونچی آواز میں اس سے کہا، ’’ وبھا، میں اپنا پرس گھر بھول آئی ہوں۔ بل ادا کرنے کے لیے میرے پاس روپئے نہیں ہیں۔‘‘ ایسی لاپرواہی مجھ سے زندگی میں پہلی مرتبہ سرزد ہوئی ہے۔’’میرے پاس بل ادا کرنے کے لیے روپئے نہیں ہیں ، کیا تم میری مدد کروگی؟ میں گھر پہنچتے ہی روپے اپنے بیٹے کے ہاتھوں تمہارے گھر بھجوا دوں گی لیکن وہ بدستور اسی طرح انجان بن کر اِدھر اُدھر، نیچے ،اوپر دیکھتی رہی پھر مٹھائی والے سے فوراً پیسے لے کر اپنا پیکٹ اٹھا کر وہاں سے نکل کھڑی ہوئی اور اس طرح بے مروتی کا مظاہرہ کرتی رہی جیسے وہ مجھے جانتی تک نہیں۔ میری وہاں موجودگی سے وہ لا علم ہے۔وبھا کی اس بے مروتی نے میرے سوچنے سمجھنے کی صلاحیت ہی سلب کر لی۔ مجھے بھولے سے بھی اس بات کا گمان نہ تھا کہ وہ اس طرح کا برتاؤ کرے تھے۔
میں مٹھائی کی دکان سے باہر نکل آئی۔ میں حیران و پریشان ہو کر تھوڑی دیر سوچتی رہی کہ مجھے کیا کرنا چاہئے، کیونکہ گھر وہاں سے آٹھ کلو میٹر کی دوری پر تھا۔ گھر جا کر واپس لوٹنے تک گھر پر برتھ ڈے منانے کے لئے اکٹھا ہوئے بچوں کو مٹھائی کے لئے لمبے انتظار سے بور ہونا پڑتا اور بچے غیر ضروری انتظار کو برداشت نہیں کرتے۔ مجھے دفعتاً اپنی دوست فیروزہ کا خیال آیا جو اس علاقے میں رہتی تھی۔ میں نے پرس سے موبائیل نکالا، سے فون کر کے اپنی مجبوری ظاہر کرتے ہوئے کہا، مجھے ا بھی دوسو روپیوں کی ضرورت ہے۔ میں بھگت کنور رام ہوٹل کے قریب کھڑی ہوں‘‘۔ فیروزہ بولی،’’ تم دو منٹ انتظار کرو، میں ابھی پہنچتی ہوں۔‘‘ میں پانچ منٹ ہوٹل کے قریب فیروزہ کے انتظار میں کھڑی رہی لیکن مجھے یوں محسوس ہونے لگا جیسے میں ایک صدی سے وہاں اس کے انتظار میں براجمان ہوں۔ شرمندگی اور خجالت الگ میرے دل کو کچوٹ رہی تھی۔ خدا خدا کر کے ان پانچ منٹوں کی برسوں لمبی انتظار کی گھڑی ختم ہوئی۔ میری دوست نے میرے قریب آ کر مجھے روپئے دئے۔میں نے روپئے لیتے ہوئے اس سے کہا،’’ میری محسن بہت بہت شکریہ، تم نے بہت مشکل وقت میں میرا ساتھ دیا اور مجھے بہت بڑی شرمندگی سے بچا لیا۔ میں تمہاری احسان مند ہوں۔ کل میں تمہارے روپئے لوٹا دوں گی۔ فیروزہ بولی،’’ ارے نہیں اس میں کونسی بڑی بات ہے۔ اگرہم دوست ہو کر ایک دوسرے کے کام نہ آئیں تو پھر ایسی دوستی کس کام کی۔اچھا میں چلتی ہوں۔ تمیں دیر ہو رہی ہو گی۔ فرقان کو میری طرف سے سالگرہ کی مبارکباد دینا ،کہتی ہوئی وہ اپنے گھر کی طرف روانہ ہو گئی اور میں نے ہوٹل میں جا کر بل ادا کیا اور اپنا خریدا ہوا سامان لے کر باہر نکل آئی۔ اپنی کار میں بیٹھ کر گھر کے لیے روانہ ہو گئی۔
مکان کے پورچ میں گاڑی کھڑی کی تو بچے دوڑتے ہوئے آئے اور کار سے سامان نکال کر لے گئے۔ وہ سبھی میرے منتظر تھے۔ ان کے چہروں کی چمک، مسرت اور حوشی کے احساس نے میرے ذہن سے ساری الجھن، ساری کلفت اور ساری پریشانی کو جھٹک کر نکال باہرکیا۔ اب میں خود کو بے حد ہلکا محسوس کرنے لگی۔ میں ان کے ساتھ مل کر اپنے بیٹے فرقان کی برتھ ڈے پارٹی کی تیاری میں مصروف ہو گئی۔ تھوڑی ہی دیر میں بچوں کی مدد سے ناشتہ ٹیبل پر لگا دیا گیا۔ ان سبھی نے مل کر مٹھائیوںکابھر پور لطف اٹھایا۔ سیر ہو کر کھا نے کے بعد آرام سے باتیں کرتے بیٹھے تھے کہ میرے بڑے بیٹے فیضان نے کہا، ’’ آپ لوگوں کے لئے میری طرف سے بھی ایک سرپرائز ایٹم ہے۔ سبھی بچوں نے جھپٹ کر اسے گھیر لیا اور بولے، ’’ بھائی جان بتائیے نا آپ ہمارے لئے کیا لائے ہیں؟‘‘ فیضان بولا،’’ بوجھو تو جانوں! جب تک تم لوگ خود اس چیز کا نام نہ بتاؤ گے، وہ چیز تمہیں نہیں ملے گی۔‘‘ کوئی بولا’’چاکلیٹ‘‘ کوئی بولا’’کولڈرنک‘‘ کوئیبولا’’شربت‘‘کوئی بولا’’پیسٹری‘‘، میرے چھوٹے بھائی کا بیٹا جو ان تمام بچوں میں سب سے چھوٹا تھا، دور کی کوڑی ڈھونڈھ لایا۔ اسے اپنے پسند کی چیز جلد یاد آگئی۔ وہ بولا،’’ بھائی جان مجھے اس چیز کا نام پتہ ہے۔‘‘ فیضان بولا،’’ اچھا تم ہی بتا دو اس چیز کا نام کیا ہے۔ ان میں سے تو کوئی پہچان نہ سکا۔‘‘ وہ بولا،’’آئس کریم‘‘ فیضان بولا۔’’بالکل ٹھیک!تم نے صحیح پہچانا۔ صرف تم ہی اس چیز کا نام بتا سکے اس لئے سا پوری آئس کریم تمہیں ہی کھانے کو ملے گی۔ وہ بہت خوش ہو کر فیضان سے چمٹ گیا۔ فیضان نے بڑے پیار سے اسے گود میں اٹھا لیا اور اسے لئے ہوئے فرج کے قریب پہنچ کر آئس کریم کا ڈبہ فرج میں سے نکالنے لگا تھا کہ تب تک سبھی بچوں نے اسے گھیر تے ہوئے کہا، ’’ آئس کریم توہمیں بھی چاہئے۔‘‘
میں نے آگے بڑھ کر فیضان کے ہاتھوں سے آیس کریم کا ڈبہ لیتے ہوئے کہا، ’’ آئس کریم سبھی کو ملے گی پر ایک شرط پر۔‘‘ سبھی نے بیک آواز ہو کر پوچھا ،’’ وہ کیا؟‘‘ میں بولی،’’ تم سب کو ہال میں جا کر خاموشی سے بیٹھنا ہو گا۔ میں تھوڑی دیر میں سب کو آئس کریم لا کر دیتی ہوں۔‘‘ سبھی بچے تیزی سے ہال کی طرف بڑھ گئے اور حاموشی سے صوفوں پر جا کر بیٹھ گئے۔ میں نے آئس کریم کٹوریوں میں نکال کر سبھی کو پیش کی۔ سبھی نے بہت دل کھول کر بھائی جان کے آئس کریم کی داد دی۔ اسے خوب پیار کیا۔ یہ منظر دیکھ کر میں نے فیضان سے کہا،’’ میرے دس ایٹم کھا کر انہیں اتنی خوشی نہ ہوئی، تمہارے ایک ایٹم نے انہیں باغ باغ کردیا ۔ سبھی بھائی جان کے نام کی مالا جپ رہے ہیں۔‘‘ فیضان بولا،’’ واہ پھر! میری لائی ہوئی چیز ہی ایسی تھی جو ہر بچے، بوڑھے اور جوان کو حوش کر دیتی ہے۔ میری نظر سے ایسا کوئی شخص آج تک نہیں گزرا جس نے آئس کریم کھانے سے انکار کیا ہو۔ میں بولی،’’ بس بس ! اپنی لائی ہوئی چیز کی تعریف کے پل باندھنا بند کرو۔‘‘ وہ ہنسنے لگا جس میں اس کا ساتھ میں نے بھی دیا۔
بچوں کے جانے کے بعد فیضان سے مخاطب ہو کر میں نے کہا ،’’بیٹا پتا ہے آج کیا ہوا؟‘‘ وہ بولا ’’بتائیے کیا ہوا‘‘۔ میں نے کہا ’’ میں جو روپیوں کا چھوٹا بٹوا پرس میں
رکھتی ہوں وہ آج لے جانا ہی بھول گئی۔مٹھائی کی دوکان میں پہنچ کر مٹھائی خریدنے کے بعد جب میں نے بل ادا کرنے کے لئے پرس دیکھا تب مجھے پتہ چلا تو بٹوا تو پرس میں ہے ہی نہیں۔‘‘ فیضان بولا،’’ ممی پھر آپ نے اتنی ساری چیزیں کیسے خریدی؟‘‘میں نے کہا،’’ جانتے ہو میں جب مٹھائی خرید رہی تھی تب وہاں اپنی کالونی کی بیوٹیشین وبھا ہے نا ،وہ بھی مٹھائی لینے پہنچی۔فیضان بولا،’’ اچھا تب شاید آپ نے وبھا آنٹی سے پیسے ادھار لئے ہونگے۔‘‘ میں بولی’’ بیٹے تم میری بات پوری طرح سن لو گے تو حیران رہ جاؤ گے۔‘‘ وہ بولا،’’ممی ، آخر ایسا کیا ہوا ہے؟‘‘ میں بولی،’’تم تو جانتے ہو جب بھی ضرورت پڑتی ہے، میں وبھا کے ہی بیوٹی پارلر جاتی ہوں۔ ہر مرتبہ ڈیڑھ سو، دو سو روپئے کا بل ہو تا ہے اور میں اسی وقت ادا کر دیتی ہوں، ایک دو مرتبہ تو ایسا بھی ہوا ہے کہ میں نے اس کے پارلر سے گھر فون کیاتو اسنے اسکے بھی پیسے مجھ سے وصول کئے اور میں نے بلا پس و پیش، ادا کئے، وہ مجھے تقریباً پندرہ سالوں سے جانتی ہے۔ یہاں تک کہ تمہاری مامی سے تو اس کی اچھی خاصی دوستی بھی ہے۔ تمہاری مامی تو اکثر وبھا کے گھر پکوان بنا بنا کر بھیجتی ہیں۔ وبھا کو اپنے یہاں عید اور پارٹیوں میں مدعو کرتی ہیں‘‘۔
فیضان بولا،’’ ہاں ممی یہ تمام باتیں تو میں بھی جانتا ہوں لیکن ان تمام باتوں سے آپ ظاہر کیا کرنا چاہتی ہیں؟‘‘ میں بولی،’’ اس کی اصل وجہ ہی تو میں تمہیں بتانے جارہی ہوں۔ جب مٹھائی کی دکان میں مجھ پر یہ بات ظاہر ہوئی کے میں اپنا بٹوا گھر بھول آئی ہوں تو اس وقت تمہاری وبھا آنٹی بھی مٹھائی خرید کر بل ادا کر رہی تھی۔ میں نے دیکھا اس کا پرس نوٹوں سے بھرا ہے۔ میں نے سوچا چلو اسی سے روپئے لے لیتی ہوں۔ گھر آ کر تمہارے ہاتھوں اس کے روپئے لوٹا دوں گی۔ روپئے مانگنے سے پہلے تو وہ مجھ سے ہنس ہنس کر باتیں کر رہی تھی۔ کون سی مٹھائی، کون سا نمکین اچھا ہے۔ اس کے بارے میں معلومات حاصل کر رہی تھی لیکن جیسے ہی روپیوں کی بات آئی و ہ مجھ سے اس طرح کترانے لگی جیسے اس نے مجھے پہلے کبھی نہ دیکھا ہو۔میں نے اس کے قریب جاکر بات کر نے کی کو شش کی تو اس نے اپنا چہرہ دوسری جانب کر لیا ۔ فوراً اپنی گاڑی پر سوار ہو کر اس طرح غائب ہو گئی جیسے اسے مجھ سے کو ئی خطرہ لا حق ہو یہ سن کر فیضان نے کہا ’ممّی یہ تو بے مروّتی کی حد ہو گئی ۔ جب وہ آ پ کو جانتی ہیں تو انھوں نے خود آ پ سے کہنا چاہئے تھا کہ دیدی یہ روپئے لوبعد میں مجھے لو ٹا دیجئے گا ۔ یہ تو کھلی ہو ےی موقع پرستی ہے ۔ بیڈمینرس !
فرقان بولا ،’ممّی میرا پہلا سوال تو جوں کا توں ہی رہا ،شوبھا آنٹی نے آ پ کو روپئے نہیں دئے تو آ پ ڈھیر ساری چیزیں کیسے لا ئیں ؟ ‘
میں نے کہا ،’ بیٹا!ہمارے بھی ہیں مہر باں کیسے کیسے ۔ وبھا نے بے مروّتی دکھا ئی تو کیاہوا ،جانے کے بعد جب میں گھر سے نکلی تو مجھے اپنی سہیلی فیروزہ کا خیال آیا ۔ میں نے اسے فون کیا تو اس نے فوراً میری مدد کی ۔پانچ منٹ میں وہ روپئے لے کر وہاں پہنچ گئی ۔فیضان بولا ،’ اسے کہتے ہیں دوستی ،شاید ایسے ہی موقع پر کسی نے کہا ہو گا ،’ زندگی کے رنگ کئی رے‘ ،ایک انسان نظروں کے سامنے کسی شناسا کو مصیبت میں دیکھ کر منجدھار میں چھوڑ گیا لیکن دوسرے انسان کو پتہ چلا تو وہ دوڑ کر مدد کے لئے چلا آ یا ۔ کل فیروزہ آ نٹی کو روپئے لو ٹاتے ہو ئے میری جانب سے بھی شکریہ ادا کر دیجئے گا۔ میں نے کہا ضرور ۔ آ ج کے واقعے سے مجھے یہ سبق مل گیا ہے کہ میںآئندہ کبھی اپنا پرس بھولنے کی غلطی نہیں کروں گی ۔ ہماری یہ باتیں چل ہی رہی تھیں کہ کار کے رکنے کی آ واز آ ئی ۔ میرے شوہر کار سے اتر کر آ ئے اور کہنے لگے ، فرقان ! چلو، تمہارے لئے برتھ ڈے گفٹ خرید تے ہیں ۔ پھر مجھ سے مخاطب ہوکر بولے ،’ چلو سبھی چلتے ہیں ،گفٹ خرید نے کے بعد ہم ڈنر بھی باہر ہی کریں گے ۔
ہم سبھی تیّار ہوکران کے ساتھ روانہ ہو گئے ۔
No comments:
Post a Comment