محمد ﷺ اور آپ کے ساتھی
محمّد شریف ،ناگپور
قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے۔
اعوذ باللہ من الشیطان الرجیم بسم اللہ الرحمن الرحیم
محمد رسول اللہ ، والذین معہ اشداء علی الکفار رحماء بینھم ، تراھم رکعاً سجداً یبتغون فضلاً من اللہ ورضوانا ، سیماھم فی وجوھھم من اثراالسجود ، ذالک مثلھم فی التوراۃ و مثلھم فی الانجیل کذرغٍ اخرج شطہ فازرہ فاستغلظ فاستوٰی علٰی سوقہ یعجب الزرع لیغیظ بھم الکفار ، وعداللہ الذین اٰمنوا وعملوا الصالحات منھم مغفرۃ واجراً عظیماً ۔
ترجمہ : ’’ محمدﷺ اللہ کے رسول ہیں اور جولوگ آپؐ کے ساتھ ہیں وہ کفار پر بہت شدید اور آپس میں بہت مہربان ہیں۔ تم دیکھوگے کہ کبھی رکوع میں ہیں اور کبھی سجدے میں۔ اللہ کی طرف سے اس کے فضل اور رضا مندی کو ڈھونڈتے رہتے ہیں۔ تم ان کے چہروں پر کثرت سجود کے نشانات دیکھ سکتے ہو۔ یہ ان کی مثال توراۃ میں بیان کی گئی ہے اور انجیل میں ان کی یہ مثال بیان کی گئی ہے کہ شروع میں وہ بہت کمزور جیسے کہ کونپل نکلتی ہے پھر وہ اپنے تنہ پر سیدھی کھڑی ہوتی ہے اور تناور درخت بن کر کسانوں کو بھی تعجب میں ڈالتی ہے ایسے یہ صحابہ ہیں شروع میں کمزور پھر ایسے قوی کہ کفار دیکھ کر غصہ میں آجائیں کہ یہ کیا ہوگیا۔ اللہ کا وعدہ ہے ان لوگوں کے ساتھ جو ایمان لائیں اور نیک عمل کریں ، مغفرت کا اور اجر عظیم کا ‘‘
ان آیات میں والذین معہ سے مراد بالاتفاق صحابہ کرام ہیں۔ اور یہ تمام اوصاف جو بیان کی گئی ہیں صحابہ کرام میں بدرجہ اتم موجود تھیں۔ مجھے یہ عرض کرنا ہے کہ والذین معہ میں قیامت تک آنے والے وہ تمام اہل ایمان بھی داخل ہیں جو مقصد رسالت میں آپ کے ساتھ ہیں یعنی جو دعاۃ الی اللہ ہیں۔ یادوسرے الفاظ میں جو مبلغین حضرات ہیں۔ اس لئے کہ ان آیات میں صحابہ کرام کی صفات بیان کرنے سے پہلے حضورؐ کا رسول ہونا بیان کیا گیا ہے۔ اس لئے تمام مبلغین چاہے وہ کسی زمانہ کے ہوں وہ ان آیات کے مصداق ہیں اور انہیں اپنے اندر ان اوصاف کا پیدا کرنا ضروری ہے۔ ان میں سب سے پہلی صفت کفار کے ساتھ بوقت جنگ شدت اور قوت ہے اور آپس میں یعنی تمام مسلمانوں کے ساتھ مہربانی کرنا جس میں اخلاق کے تمام پہلو شامل ہیں۔ داعی الی اللہ حضرات کے لئے جن میں علماء کرام تو بدرجہ اولیٰ شریک ہیں اپنے اخلاق کو مزین کرنا لازمی ہے۔ ہر ایک کے ساتھ خیر خواہی اور ہمدردی کا جذبہ ہو بلاتفریق رنگ و نسل ہر مسلمان کا بھلا چاہنا ہو۔
مسلمان کی طرف سے جو ایذائیں پہنچیں ان کو بھی صبر و ضبط کے ساتھ جھیلنا یہ بھی اخلاق میں شامل ہے نہ کسی سے اپنے نفس کے لئے انتقام لینا ہے اور نہ ہی کسی کے لئے بددعا کرنا ہے۔ یہی حضورؐ کی سیرت کا نمونہ ہے۔ اپنے حقوق جو دوسروں پر ہوں انہیں چن چن کر ادا کرنا ہے کوئی حق اپنے ذمہ باقی نہ رہ جائے بلکہ حق سے زیادہ دینے کی کوشش کرنا ہے۔ صرف برابر کا معاملہ نہ ہو بلکہ ایثار اور اکرام کا معاملہ ہو۔ اپنا حق جو دوسروں پر ہے اسے معاف کردیا جائے۔ اپنا حق لینے کے لئے کسی سے لڑائی جھگڑا نہ ہو نہ رشتہ داروں سے نہ پڑوسیوں سے نہ عام مسلمانوں سے نہ سفر کے ساتھیوں سے نہ اپنوں سے نہ غیروں سے۔ ان اخلاق حمیدہ سے آراستہ ہو کر ہم جب دین کی محنت کرینگے تو ہم والذین معہ میں شریک ہونگے۔
دوسری صفت جو لوگ رسول اللہؐ کے ساتھ ہیں کثرت عبادت ہے۔ عبادت تو انسان کا مقصد زندگی ہے۔ اللہ نے انسان کو اپنی بندگی ہی کے لئے پیدا کیا ہے۔ پھر یہ دوسروں کو اللہ کی بندگی اور عبادت کی دعوت دینے والا خود کیسے اللہ کی عبادت میں کوتاہی کرسکتا ہے۔ جبکہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے وما خلقت الجن والانس الا لیعبدون ترجمہ : ’’ میں نے نہیں پیدا کیا جن اور انسان کو مگر اس لئے کہ وہ میری عبادت کریں ‘‘۔ عبادت میں سب سے پہلے نماز ہے۔ نماز میں سب سے پہلے فرض نماز ہے۔ اس کی پابندی ہو کہ ہر فرض نماز جماعت کے ساتھ اور تکبیر اولیٰ کے ساتھ پڑھی جائے۔ اس میں خود حضورؐ کا نمونہ عمل موجود ہے کہ آپ نے خود ایسے وقت میں بھی جماعت کے ساتھ نماز پڑھی ہے جبکہ آپ کے قدم مبارک زمین پر جمتے نہیں تھے۔ دو آمیوں کے سہارے گھسٹ کر آپؐ مسجد میں تشریف لائے اور امت کو یہ عملی تعلیم دی کہ میرے نزدیک یہ نماز باجماعت اتنی اہم ہے کہ میں اس حال میں بھی باجماعت نماز پڑھ رہا ہوں۔ فرائض کے اہتمام کے بعد نوافل کی کثرت ہے۔ اس میں بھی حضورؐ اور صحابہ کانمونہ ہمارے سامنے ہو کہ کس کثرت سے آپؐ عبادت کرتے تھے حتیٰ کہ پیروں پر نماز میں کھڑے رہنے کی وجہ سے ورم آجاتا تھا۔ اور اللہ کی طرف سے بھی آپؐ کو یہ حکم تھا کہ جب بھی آپ اپنے فرض منصبی یعنی دعوت سے فارغ ہوں اللہ کی طرف رغبت کیا کیجئے۔ فرمایا : فاذا فرغت فانصب و الیٰ ربک فارغب۔
اسی طرح اس زمانہ کے داعی الی اللہ بھی نوافل کی کثرت رکھیں۔ کم از کم چار مشہور نوافل اشراق، چاشت، اوابین، اور تہجد کا تو ضرور اہتمام ہو۔ جب بھی مسجد میں داخل ہوں تحیۃ المسجد پڑھنے کی عادت ڈالیں۔ ہمیشہ باوضو رہنے کی عادت ڈالیں۔ جب بھی وضو ٹوٹ جائے دوبارہ وضو کر کے دو رکعت تحیۃ الوضو پڑھ لیں۔
وضوء کو حدیث میں سلاح المومن فرمایاگیا ہے۔ یعنی وضو مومن کا اسلحہ ہے جب تک مومن باوضو رہتا ہے شیطانی وساوس سے محفوظ رہتا ہے۔ اس کے علاوہ چلتے پھرتے میں ذکر ا اللہ کا اہتمام ہو۔ خصوصاً تین تسبیحات، سوم کلمہ، درود شریف اور استغفار کو لازم پکڑیں۔ جب بھی ہاتھ پاؤں سے کسی عمل میں مشغول ہوں تو ذکر سے زبان کے اہتمام سے پوری زندگی ذکر والی بن جاتی ہے۔ اور ایمان میں مسلسل اضافہ ہوتا رہتا ہے۔
تیسری اہم صفت ان لوگوں کی جو رسول اللہ ﷺ کے کام میں آپ کے ساتھی ہیں، اللہ کی رضا کی جستجو ہے۔ ہر عمل میں اللہ کی رضا ہی مقصود ہو۔ کوئی عمل چاہے بظاہر دنیاداری کا عمل نظر آتا ہو اس کو بھی اپنی نیک نیتی کے ذریعہ دین اور اجروثواب کا ذریعہ بنایا جاسکتا ہے۔ اس کے لئے جب بھی کسی عمل کے لئے اٹھیں تو نیت کریں کہ میں یہ عمل اللہ کے لئے کرتا ہوں۔ اگر کوئی فاسد غرض ذہن میں آئے تو اس کو نکال دیں۔ اس پر استغفار کریں۔ مثلاً ایک آدمی اپنا گھر تعمیر کررہا ہے اس میں کھڑکیاں لگائی جارہی ہیں، نیت کرے کہ ان کھڑکیوں سے اذان کی آواز سنونگا۔ روشنی اور ہوا تو مل ہی جائیگی۔ اذان کی آواز سننے کی نیت نے اس کھڑکی لگانے کے عمل کو بھی حصول اجر کا ذریعہ بنادیا۔ اسی طرح ہر کام میں نیک نیتی کی برکت حاصل کی جاسکتی ہے۔ ایک گلاس پانی بھی کسی کو پلائیں تو نیت کرلیں شاید اللہ اس عمل سے راضی ہوجائے۔ بیوی بچوں کو کھلانا پلانا بھی اللہ کی رضا کے لئے ہو۔ اللہ تعالیٰ اس عمل کا کوئی اجر ہی نہیں عطا فرماتے جو اللہ کے لئے نہ کیا گیا ہو۔ اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اعلان فرمائینگے کہ جس نے جو عمل جس کے لئے کیا ہے آج وہ اس کا بدلہ اسی سے لے لے۔ اللہ تعالیٰ کے پاس صرف ان ہی اعمال کا اجر ہے جو اللہ کے لئے کئے گئے ہوں۔
مبلغین حضرات بھی اس کا اہتمام فرمائیں۔ کہ ہر عمل اللہ کے لئے کیا جارہا ہو۔ دوسری کوئی غرض کسی عمل میں بھی شامل نہ ہو۔ اخلاص کے بغیر بڑے سے بڑا عمل بھی مردہ ہے۔ اور اخلاص سے ساتھ چھوٹا سا عمل بھی بہت بڑا اور قابل معاوضہ ہے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو عمل کی توفیق عطا فرمائیں۔ آمین۔
kkkkkkkkkkkkkkkkkkkkkkkkkkkkkkkkkkkkkkkkkkkkkkkkkkkkkkkkkkkkkkkkkkkkkkkkkkkk
سیرت نبی ﷺ سے زندگی سنواریئے
محمّد شریف ،ناگپور
عموماً رواج یہ ہوگیا ہے کہ وبیع الاول کے مہینہ میں سیرت کے جلسے ہوتے ہیں۔ سیرت پر بیانات اور تقریریں ہوتی ہیں۔ اخبارات اور رسائل میں سیرت پر تحریریں لکھی جاتی ہیں جن میں زیادہ تر حضورؐ کے معجزات کا بیان ہوتا ہے۔ آپ کے مرتبہ اورعلوشان کے تذکرے ہوتے ہیں۔ اور یہ ہونا بھی چاہئے۔ آپ کا ذکر گویا اللہ ہی کا ذکر ہے۔ اور آپ کی تعریف کرنا اللہ ہی کی تعریف کرنا ہے۔ آپ کے معجزات اللہ ہی کی قدرت کا مظہر ہے۔ مگر ان تقریروں اور تحریروں میں ایک پہلو نظر انداز کیا جارہا ہے جس کی وجہ سے عمل سے بھی نظر انداز ہورہا ہے وہ یہ ہے کہ ہم جب رحمت اللعالمین کے امتی ہیں تو ہم آپ کی سیرت سے کیافائدہ اٹھاسکتے ہیں۔ کیاآپ کی زندگی ہمارے لئے قابل اتباع نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ تو آپ کی زندگی کو ایمان والوں کے لئے اسوہ اور نمونہ قرار دے رہا ہے۔ فرمایا : لقد کان لکم فی رسول اللہ اسوۃ حسنۃ ، لمن کان یرجولقاء اللہ۔ رسول اللہ ﷺ میں تمہارے لئے بہترین نمونہ ہے اس کے لئے جو اللہ سے ملاقات کی امید رکھتا ہے۔
حضورؐ کی سیرت کا ایک پہلو جو عام مسلمانوں کے لئے نہایت سہل اور قابل اتباء ہے وہ آپ کی معاشرت ہے۔ اگر ہم ذرا سا دھیان دیں اور عادت ڈالنے کی کوشش کریں تو ہمارے عام معمولات سنت نبوی کے مطابق ہوسکتے ہیں اور ہمارا سنت کے مطابق ان کاموں کا کرنا ہمارے لئے ذخیرہ آخرت اور دنیا میں برکات کا سبب ہوسکتا ہے۔ اور اگر ہم نے رفتہ رفتہ ترقی کر کے اس کو مضبوطی سے پکڑ لیا تو اللہ کی طرف سے بہت بڑے بڑے انعامات کے مستحق بن سکتے ہیں۔ مثلاً رسول اللہؐ نے فرمایا من تمسک سنتی عند فساد امتنی فلہ اجر مائۃ شہید ۔ جس نے میری امت کے بگاڑ کے زمانہ میں میری سنت کو مضبوطی سے پکڑا اس کے لئے سو شہیدوں کا اجر ہے۔ اور حضورؐ کے معاشرت یعنی عام رہن سہن کے طریقہ ایسے نہیں ہیں جو ہمارے بس کے نہ ہو بلکہ آسان ہیںاور قابل عمل ہیں۔ اور فطرت انسانی کے عین مطابق ہیں اور ان میں کوئی تکلیف نہیں ہے۔ صرف تھوڑا دھیان دینے کی ضرورت ہے۔ مثلاً آپ کا کھانے پینے کا طریقہ یہ ہے کہ سیدھا ہاتھ استعمال کریں ۔ بیٹھ کر کھائیںیا پئیں۔ کھانے پینے سے پہلے بسم اللہ کہہ لیں اور فارغ ہونے کے بعد الحمد للہ کہہ لیں۔ یہ ایسا کونسا مشکل کام ہے جو ہم سے نہیں ہو سکتا اس کے باوجود بہت سے مسلمان بائیں ہاتھ سے پانی اور چائے پیتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔ یہ ان کی غفلت ہے جو انہیں حضورؐ کی سنتوں سے محروم کئے ہوئے ہیں۔ ایسے سادہ اور آسان پاکیزہ طریقے حضورؐ کی سنت میں موجود ہیں۔ مگر یہ فائدہ نہیں اٹھاتے ان کی مثال ان کروڑ پتی اولاد کی طرح ہے جو کروڑوںکی جائیداد کے باوجود پھٹے پرانے کپڑوں میں بھوک پیاس کی حالت میں پھر رہے ہیں اور جھوپڑوں میں زندگی گذاررہے ہیں۔ یعنی اپنی جائیداد سے کچھ فائدہ نہیں اٹھاتے۔ جب بھی مسجد میں داخل ہوں یا باہر نکلیں حضورؐ کا طریقہ ہے ۔ داخل ہوتے وقت دایاں قدم پہلے اندر رکھیں اور اللھم افتح لی ابواب رحمتک پڑھ لیں یعنی اے اللہ میرے لئے اپنی رحمت کے دروازے کھولدے۔ اسی طرح باہر نکلتے وقت اللھم افتح لی ابواب فضلک ۔یعنی اے اللہ میرے لئے اپنے فضل کے دروازے کھول دے۔ یہ دستور ہے کہ جب آدمی مانگتا رہتا ہے تو ملتا بھی رہتا ہے۔ جب دن بھر میں کم از کم ۵! مرتبہ اللہ سے اس کا فضل اور رحمت مانگے گے تو کیا محروم رہے گے جبکہ اس کی طرف سے ادعونی استجب لکم کا وعدہ موجود ہے۔
حضورؐ کی معاشرت کا ایک طریقہ ہے السلام قبل الکلام یعنی بات سے پہلے سلام کرو۔ ایک گھر کے افراد اور باہر کے بھی بار بار ملنے جلنے والے لوگ بلا سلام سامنے آتے ہی بات شروع کردیتے ہیں۔ اس میں کیا مصیبت ہے کہ پہلے کوئی ایک السلام علیکم کہہ دے اسی طرح فون یا موبائیل سے بات کرتے وقت Hello کہنا غیروں کا طریقہ کیوں اختیار کررکھا ہے۔ اس میں کیا پریشانی ہے کہ جب ہمیں اپنے فون پر Bell سنائی دے ہم پہلے السلام علیکم کہیں۔ اگر اس کااحتمال ہے کہ فون کرنے والا غیر مسلم بھی ہوسکتا ہے تو بھی کوئی حرج نہیں ہے۔ ہم اسے سلامتی کی دعا دے رہے ہیں اور سلامتی بغیر اسلام کے نہیں ملتی گو یا ہم اسے مسلمان ہونے کی ہی دعا دے رہیں ہے۔ اگر ہم نے کسی کو call کیا اور وہ Hello کہہ دے تو ہم سلام کرلیں۔ اگر وہ ہم سے چھوٹا ہے تو بھی پہل کرلینا نفع کی بات ہے نہ کہ نقصان کی۔ ایسے ہی ہمارے روازنہ کے معمولات میں ہے استنجا یا بیت الخلاء کے لئے جانا آنا۔ اس میں بھی حضورؐ کا طریقہ اختیار کرنا کونسا مشکل ہے۔ داخل ہونے سے پہلے اللھم انی اعوذ بک من الخبث والخبائث پڑھ کربایاں پیر اندر داخل کریں اور جب باہر نکلیں تو دایاں پیر باہر نکالیں۔ اور یہ دعا پڑھ لیں۔ غفرانک الحمد للہ الذی اذھب عنی الاذیٰ و عافانی ۔ اے اللہ تیری معافی، تما م تعریفیں اس اللہ کے لئے ہے جس نے مجھ سے اذیت کی چیز کو دور کر دیا اور عافیت بخشی۔ کیسا بہترین طریقہ ہے حضورؐ کا کہ بیت الخلاء بھی اللہ سے قرب دلانے والا ہے۔ ایمان بڑھانے والا ہے اور د نیا کے مصائب کو دور کرنے والا ہے۔ جو شخص اہتمام سے اس دعا کو پڑھتا ہے و ہ پیشاب پاخانہ رک جانے کی بیماری سے محفوظ رہتا ہے۔
اسی طرح کپڑے پہنا ہمارے معمولات میں سے ہے۔ اس میں حضورؐ کا طریقہ کیا مشکل ہے۔ پہنتے وقت سیدھا ہاتھ یا سیدھا پیر پہلے داخل کریں۔ اور اتارتے وقت بایاں ہاتھ یا پاجامہ ہے تو بایاں پیر پہلے نکالیں۔ سائیکل ،موٹر سائیکل ،کا ر ،بس ، ریل ، ہوائی جہاز کی سواریوں کا استعمال عام ہے۔ جب بھی کسی سواری پر سوار ہوں ، دایاں پیر پہلے داخل کریں ، بسم اللہ کہتے ہوئے۔ جب سوار ہو جائیں الحمد للہ کہہ لیں۔ اور یہ دعا پڑھ لیں۔ سبحان الذی سخرلنا ھذا وما کنا لہ مقرنین و انا الیٰ ربنا لمنقلبو ن ۔ ذرا ترجمہ پر غور کریں کیسا اللہ سے تعلق پیدا ہوتا ہے۔ پاک ہے وہ ذات جس نے ہمارے لئے اس کو مسخر کردیا ہم ہر گز اس پر قابو نہ پاتے اگر وہ ہمیںقابو نہ دیتا اور ہم اپنے رب ہی کی طرف لوٹ کر جانے والے ہیں۔سواریوں کے استعمال کے وقت اس دعا کا اہتمام رہے تو آدمی سواری کے شر سے محفوظ رہتا ہے۔ Accidents کے تدار ک کا یہ آسان نسخہ ہے۔ مگر ہماری ظاہربیں نگاہیں وہی کہہ رہی ہیں جو بغیر ایمان والے کہہ رہے ہیں کہ traffic controll صحیح نہیں ہے۔ جب سواری چلنے لگے تو یہ استغفار پڑھ لیں۔ سبحانک انی ظلمت نفسی فاغفرلی لایغفر الذنوب الا انت ۔ یعنی ’’ تو پاک ہے بے شک میں نے اپنے نفس پر ظلم کیا ہے پس مجھے معاف کردے، تیرے علاوہ گناہوں کا معاف کرنے والا کوئی نہیں ہے ‘‘ ۔
اس دعا کے پڑھنے کے بعد اپنے ساتھی یا آسمان کی طرف دیکھ کر مسکرائے۔ یہ مسکرانا بھی ایک خاص مصلحت سے ہے۔ جب بندہ یہ استغفار پڑھتا ہے تو اللہ تعالیٰ مسکراتا ہے اور فرماتا ہے کہ میرا بندہ جانتا ہے کہ میرے سوا کوئی مغفرت کرنے والا نہیں ہے۔ اور مغفرت کردیتا ہے۔ کیسا بہترین دین ہے کہ دنیا بھی بن رہی ہے اور آخرت بھی۔ سواری کا استعمال کر کے لمبے لمبے فاصلے آسانی سے طے ہوجارہے ہیں حادثات سے بھی حفاظت ہورہی ہے اور اللہ سے تعلق بھی بڑھ رہا ہے اور مغفرت بھی ہورہی ہے۔ اس میں سواری کی تخصیص نہیںہے۔ حضورؐ کے زمانہ میں صرف جانوروں کی سواریاں تھیں لیکن اللہ تعالیٰ نے اپنے کلام پاک میں قیامت تک ایجاد ہونے والی تمام سواریوں کی خبر اجمالی طور پر دے دی ہے۔ فرمایا : الخیل والبغال و الحمیر لترکبواھا وزینۃ ویخلق مالا تعلمون ۔ یعنی ’’ ہم نے تمہارے لئے اونٹ، گھوڑے اور خچر پیدا کئے جن پر تم سوار ہوتے ہو، اور زینت دکھاتے ہو اور ہم ایسی چیزیں پیدا کرینگے جس کو تم جانتے نہیں ہو ‘‘۔ سائیکل سے لیکر ہوائی جہاز تک تمام سواریاں مالا تعلمون میں داخل ہیں۔ یہ سیرت نبی کا وہ حصہ ہے جو ہر مسلمان آسانی سے اپنا سکتا ہے اور اپنی زندگی کو مزین کر سکتا ہے۔ واقعی حضورؐ کے طریقے آدمی کی زندگی کے لئے رونق اور زینت ہیں۔ حضورؐ کی معاشرت کے بغیر مسلمانوں کی زندگی بے نور ، بے رونق اور ظلمتوں سے بھری ہوئی ہے۔ اسی طرح اپنی زندگی کے ہر گوشہ میں غور کریں کہ ہم اس میں حضورؐ کی سیرت سے کیا داخل کرسکتے ہیں۔ ایک پہلو حضورؐ کی سیرت کا یہ ہے کہ ہم اپنا سلوک اور برتاؤ تمام انسانوں کے ساتھ بلکہ تمام مخلوق کے ساتھ منصفانہ اور کریمانہ بنائیں ۔ ہم اخلاق میں جتنی ترقی کرینگے حضورؐ سے مشابہت میں ترقی ہوگی، حضورؐ سے تعلق میں ترقی ہوگی۔
حضورؐ کے اخلاق کا ایک نمایاں وصف عدم تکبر یعنی تواضع ہے۔ حضورؐ کائنات کی تمام مخلوق میں سب سے بڑے ہیں لیکن تواضع کا یہ عالم ہے کہ فرماتے ہیں میں اس ماں کا بیٹا ہون جو سوکھا ہوا گوشت پکا کر کھایا کرتی تھی۔ راستہ چلتی ہوئی کوئی غریب بڑھیا بھی آپ کو بلا تکلف روک کر آپؐ سے جتنی چاہتی بات کرلیتی تھی۔ مرتبہ تو اتنا بلند کہ جبرائیل علیہ السلام بھی آپ کے پاس بغیر اجازت نہیں آتے تھے۔ اور تواضع اتنی کہ اعرابی یعنی دیہاتی بھی آپ کے مجلس میں بیٹھ کر سوالات کرلیتے تھے۔ معراج کے سفر میں براق آپؐ کی سواری ہے اور زمین پر اپنے گھر میں آپ اپنے نواسوں حسن اور حسین کے لئے خود سواری بنے ہوئے ہیں۔ آپؐ فرماتے ہیں انا سید ولد آدم ولا فخر یعنی میں اولاد آدم کا سردار ہوں لیکن مجھے اس پر فخر نہیں ہے۔ سیرت پاک کا یہ پہلو بھی امت کے لئے قابل عمل ہے۔ گو کہ ہم اخلاق کی اس بلندی پر نہیں پہنچ سکتے مگر اس کی تمنا کر کے کوشش تو کرسکتے ہیں۔ آپ کے اخلاق کی عمدگی کی سند خود اللہ رب العالمین فرمارہا ہے۔ انک لعلیٰ خلق عظیم ۔یعنی ’’ آپؐ اخلاق عظمہ پر ہیں ‘‘۔ آپ کی زوجہ محترمہ ام المومنین سیدہ حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ خلقہ القرآن ، آپ کے اخلاق قرآن ہیں۔ یعنی قرآن میں اخلاق کی جو کچھ تعلیم دی گئی ہے بدرجہ اتم وہ آپؐ میں موجود ہیں۔ ہم بھی اس کی کوشش کریں کہ ہمارے اخلاق حضورؐ کے اخلاق سے قریب تر ہوتے جائیں۔ ورنہ سیرت مبارکہ صرف تقریر وتحریر کی زینت بن کر رہ جائیگی۔ دنیا کو اس کی ضرورت ہے کہ آپؐ کے ماننے والے اپنی زندگی میں ان اخلاق کا مظاہرہ کریں جو سیرت میں حضورؐ کی زندگی میں نظر آتے ہیں۔ پھر دنیا آپ کی قدر کرینگی۔ ورنہ آپ کے اخلاق اور آپ کی زندگی کو حضورؐ کی زندگی سے مختلف پاکر آپ کی دشمن بنے گی۔
اس لئے تمام مسلمان حضورؐ کی سیرت طیبہ کو اپنانے کا فیصلہ کریں۔ آپؐ غصہ کے عالم مین بھی حد سے اور حق سے تجاوز نہیں فرماتے تھے۔ دشمن پر بھی کبھی آپؐ ظلم نہیں کرتے تھے۔ ظالموں کو معاف کرنا آپؐ کی عام عادت تھی۔ اللہ کی اطاعت کا آپ نے حق ادا کردیا اس کے باوجود اللہ سے استغفار کرتے تھے۔ ہمیشہ اپنی بندگی کا اظہار کرتے تھے ۔ اللہ تعالیٰ تمام مسلمانوں کو آپؐ کی سیرت پاک کی اتباء کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین۔
,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,
tttttttttttttttttttttttttttttttttttttttttttttttttttttttttttttttttttttttttttttttttttt
wwwwwwwwwwwwwwwwwwwwwwwwwwwwwwwwwwwwww
iiiiiiiiiiiiiiiiiiiiiiiiiiiiiiiiiiiiiiiiiiiiiiiiiiiiiiiiiiiiiiiiiiiiiiiiiiiiiiiiiiiiiiiiiiiiiiii
No comments:
Post a Comment