Sunday, March 28, 2010

تمام تعریفیں اللہ کے لٔے ۘ محمّد شریف ،ناگپور


تمام تعریفیں اللہ کے لئے ہیں، جو تمام جہانوں کا پروردگار ہے
،۔،۔،۔،۔،۔،۔،۔،۔،۔،۔،۔،۔،۔،۔،۔،۔،۔،۔،
محمّد شریف ،ناگپور
 
ءءءءءءءءءءءءءءءءءءءءءءءءءءءءءءءءءءءءءءءءءءءءءءءءءءء
اس پوسٹ کو کسی اخبار یا رسالہ میں تقل کرنے کی صورت میں بلاگ کا پتہ 
  دینا لازمی ہے        http://bazmeurdu.blogspot.com/
ءءءءءءءءءءءءءءءءءءءءءءءءءءءءءءءءءءءءءءءءءءءءءءءءءءءءء
اللہ تعالیٰ نے انسان کو اپنی معرفت کے لئے پیدا کیا ہے اور قرآن پاک اللہ کی معرفت کی کتاب ہے۔ قرآن میں کہا گیا ہے :
وما خلقت الجن والانس الا لیعبدون
۔ ترجمہ : ’’ ہم نے نہیں پیدا کیا جن اور انسان کو مگر اپنی عبادت کے لئے ‘‘۔
اس کے بارے میں مفسرین یہ فرماتے ہیں کہ لیعبدون کا مطلب لیعرفون ہے یعنی تاکہ معرفت حاصل کریں۔

انسان کا کام ہے کہ اللہ کی صفات میں غور کریں اور دیکھیں کہ وہ اپنی صفات میں کیسا ہے؟ مثلاً ایک صفت اللہ کی یہ ہے کہ وہ رب ہے۔ غور کریں کہ اس کا نظام ربوبیت کیسا عجیب وغریب ہے۔ اللہ کی ایک چھوٹی سی مخلوق اور انسان کے نزدیک اتنی حقیر ہے کہ اگر ہاتھ لگ جائے تو اسے مسل کر ختم کر ڈالے۔ اتنی چھوٹی جسامت کہ انسان اس کے تمام اعضاء کو اپنی برہنہ آنکھوں سے دیکھ بھی نہیں سکتا جب تک کہ خوردبین کا استعمال نہ کرے۔ وہ مچھر ہے ، لیکن دیکھئے کہ اللہ نے اس حقیر مخلوق کو ہزاروں انسانوں کی روزی کا ذریعہ بنایا ہوا ہے۔ مجھے نہ کاٹے اسی کے لئے کتنی انڈسٹریز چل رہی ہے۔ مچھر دانیاں بننے کے کارخانے ، مختلف قسم کی جلانے والی ایسی اگربتیاں کہ ان کے دھویں سے مچھر بھاگ جائے۔ ایسی ٹکیا جو بجلی سے گرم ہو کر مچھروں کو مارنے والا دھواں پیدا کریں۔ اور ایسے مائعات جن کے بخارات مچھروں کو ختم کردیں۔ یہ سب کارخانے مچھر کی وجہ سے چل رہے ہیں جن میں ہزاروں لوگ کام کرکے اپنی روزی حاصل کررہیں ہیں۔ یہ نظام ربوبیت ہے۔ اسی طرح اگر ی مچھر کاٹ ہی لے تو مختلف قسم کی بیماریاں جیسے ملیریا ، ڈینگو، چکن گنیا ظاہر ہوتی ہیں۔ جو کتنے ڈاکٹرس اور اسپتال میں کام کرنے والے اسٹاف کی روزی کا ذریعہ بنتی ہیں۔ پھر ان بیماریوں کے علاج میں استعمال ہونے والی ادویات کی کتنی صنعتیں ، فیکٹریاں ہیں اور ان میں کام کرنے والے سیکڑوں ، ہزاروں لوگ ہیں جو اس حقیر مچھر کی وجہ سے روزی حاصل کرتے ہیں۔ اور انسان مچھر سے اپنی روزی حاصل کررہا ہے۔

اس سے آگے بڑھئے تو دوسری بیماریوں پر بھی غور فرمالیجئے۔کتنی ایسی بیماریاں ہیں جو مچھر سے بھی چھوٹی مخلوق ، جس کو انسان دیکھ بھی نہیں سکتا ، وائرس اور بیکٹریا سے پیداہوتی ہیں۔ وہ اپنی روزی حاصل کرتے ہیں اور انسان بیمار ہوکر کتنوں کی روزی کا ذریعہ بنتا ہے۔ تمام ڈاکٹرس ، اور اسپتالوں میں کام کرنے والے تمام لوگ اور دوائیوں کی فیکٹریوں اور عمل جراحی یا بیماریوں کی شناخت میں استعمال ہونے والے تمام آلات اور مشینوں کی فیکٹریوں میں کام کرنے والے تمام لوگ بیماریوں ہی کے سبب سے اپنا رزق پاتے ہیں۔ 

یہی وہ اللہ ہے جس نے اپنا تعارف کرایا :
ان اللہ ھوالرزاق ذوا لقوۃ المتین۔
ترجمہ : ’’ یقینا وہی اللہ ہے جو رزق پہنچانے والا ، بڑی زبردست قوت والا ہے ‘‘۔
ھو ربنا ورب کل شئی
وہ ہمارا اور تمام چیزوں کا پالنہار ہے۔ اس کے سامنے اپنا سر جھکادو اور مسلمان ہوجاؤ۔ یعنی اللہ کے فرمانبردار ہوجاؤ کہ حقیقی مسلمان ہونا یہی ہے۔

پھر ہم یہ بھی نہیں کہہ سکتے کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو مصیبت میں ڈال کر دوسری مخلوق کو روزی پہنچائی۔ بلکہ بیماری میں انسان کو روحانی غذا ملتی ہے۔ آدمی جب بیمار ہوتا ہے تو وہ اللہ کی طرف زیادہ متوجہ ہوتا ہے۔ دعا اور استغفار کے ذریعہ اللہ کے قریب ہوجاتا ہے۔ بغیر توجہ کے بھی بیماری میں اللہ کی طرف سے گناہوں کی معافی کا وعدہ ہے۔ اگر وہ اپنی بیماری کی وجہ سے کچھ اعمال کو نہ کر سکے تو صحت کے زمانہ میں جو اعمال کیا کرتا تھا اس کا اجر بغیر کئے ہی اللہ تعالیٰ اس کو مرحمت فرماتے ہیں۔ ایک مرتبہ ایک صحابی نے حضور ؐ سے بخار کی فضیلت سنی کہ بخار میں پچھلے گناہ معاف ہوجاتے ہیں تو انہوں نے اللہ سے دعا مانگ لی کہ اے اللہ مجھے ایسا بخار دے جو موت تک میرا پچھا نہ چھوڑے مگر اس طرح کہ بخار کی وجہ سے میرے کاموں میں حرج نہ ہو چنانچہ صحابہ کرام نے دیکھا کہ وہ صحابی زندگی بھر بخار میں رہے جب بھی انہیں کوئی ہاتھ لگاتا ان کا بدن بخار میں جلتا ہوا پاتا مگراس کی وجہ سے ان کا کوئی کام بھی نہ رکتا تھا۔ بیماری تو بیماری ہے مگر اللہ تعالیٰ ایساکریم ہے کہ بیمار کی بیمار پرسی کرنے والے کو بھی محروم نہیں کرتا۔ حدیث میں ہے کہ جب کوئی شخص کسی بیمار مسلمان کی عیادت کرتا ہے تو اگر صبح کو عیادت کرتا ہے تو شام تک ۷۰! ہزار فرشتے اس کے لئے دعا کرتے رہتے ہیں اور اگر شام کوعیادت کرتا ہے تو صبح تک ۷۰! ہزار فرشتے اس کے لئے دعا کرتے رہتے ہیں۔

پھر آیئے اللہ کی شان ربوبیت کی طرف۔ اللہ نے زمین کے تمام جانداروں کی رزق کی ذمہ داری اپنے اوپر لی ہے۔ فرمایا : وما من دآبۃٍ فی الارض الا علی اللہ رزقھا ۔ ’’ زمین پر چلنے والا کوئی جاندار ایسا نہیں ہے جس کے رزق کی ذمہ داری اللہ پر نہ ہو ‘‘۔ 
دیکھئے اللہ رب العالمین کس شان سے اپنے بندوں کو روزی پہنچاتا ہے۔ ایک موچی (چمار) پر نظر ڈالئے اس کی چھوٹی سی دوکان جس میں چند پالش کی ڈبیاں، دوتین برش، چھٹاک دو چھٹاک کیلے، جوتوں کے لئے چند آلاتِ مرمت۔ مگر اسی مختصر سی دوکان سے اس کی ساری ضرورتیں پوری ہورہی ہے۔ اسی دوکان سے اس کے بیٹے ، بیٹیوں کی شادی ہورہی ہے ، اسی دوکان سے اس کا گھر بن رہا ہے، اسی دوکان سے زندگی کے تمام لوازمات پورے ہورہے ہیں۔ یہی اللہ ہے جو اس کی روزی کا انتظام فرمارہا ہے۔ بڑے بڑے کاروبار ، بڑے بڑے عہدے، منظم ذریعہ معاش یہ محض انسان کی ہوس ہے ورنہ اللہ تعالیٰ ایسی جگہ سے روزی عطا فرماتا ہے جہاں سے بندہ کو گمان بھی نہ ہو۔ ایک مرتبہ ایک صحابی رسول مقداد بن اسودؓ حاجت سے فراغت کے لئے مدینہ طیبہ سے باہر گئے ۔ قضاء حاجت کے لئے بیٹھے تھے کہ ایک چوھانمودار ہوا جس کے منھ میں چند اشرفیاں (سونے کے سکے) تھے وہ انہیں حضرت مقداد بن اسود کے سامنے لا کر ڈال گیا۔ پھر دوبارہ اور سہ بارہ اسی طرح کئی بار آکر اس نے اشرفیاں لا لا کر ڈالیں۔ آخر میں ایک خالی تھیلی بھی لاکر ڈال دی اور گویا اشارہ تھا کہ اب ختم ہے یا یہ اشارہ تھا کہ تھیلی میں ڈال کر لیجاؤ۔ انہوں نے گنا تو ۱۷! اشرفیاں تھیں۔ وہ انہیں وہیں چھوڑ کر حضور صلعم کے پاس گئے اور قصہ سنایا اور مسئلہ پوچھا تو حضور صلعم نے فرمایا کہ انہیں لے لو وہ رزق ہے جو اللہ تعالیٰ نے تمہیں دیا ہے۔ یہ ہے نظام ربوبیت اگر اللہ پر بندہ بھروسہ کرے تو گمان کے خلاف اللہ تعالیٰ روزی کا انتظام کرتا ہے۔ فتبارک اللہ احسن الرازقین


5 comments:

  1. اچھا تو لوگ پوسٹيں نقل کر کے اخبار ميں بھی دے ديتے ہيں اور لکھنے والے کا نام بھی نہيں لکھتے کيا کيا قسميں بن گئی ہيں چوری کی

    ReplyDelete
  2. السلام علیکم ورحمۃ وبرکاتہ،
    جزاک اللہ خیر۔ اصل چیز اللہ تعالی پرتوکل ہےلیکن ہم لوگوں نےتوکل کوچھوڑدیاہےاس کی جگہ پرہوس اورلالچ نےلےلی ہے۔

    والسلام
    جاویداقبال

    ReplyDelete
  3. بزمِ اردو کے نہ جانے کتنے مضامین اس طرح نقل کءے گءے گزشتہ چند ماہ سے ممبءی کا ایک اخبار دیکھنے کا اتّفاق ہوا تواس میں کءی مضامیں اس بلاگ سے نقل کءے گءے بلاگ کا نام شکریہ کے ساتھ آ خر میں دیا گیا مگر کبھی مضموں کا نام ندارد کبھی مضمون نگار کا نام غاءب بار بار اس طرف توجّہ دلانے پر کو ءی جواب نہیں اس لءے یہ عبارت ہمیں مضمون کے ابتدا میں شاءع کر نی پڑی

    ReplyDelete
  4. سبحان اللہ۔ بہت ہی درست باتیں بتائی ہیں آپ نے۔ اللہ کریم جزا دے۔

    ReplyDelete
  5. الله پاک آپ کو اس کا اجر دے بہت اچھی باتیں بتائی ہیں آپ نے جزاک الله

    ReplyDelete