محمّد شریف ،ناگپور
عید تو مبارک ہوتی ہی ہے، عید اپنے ساتھ ایسی برکتیں سمیٹ کرلاتی ہے کہ امت کا ہر فرد اس سے نفع اٹھاتا ہے۔ بلکہ مسلمانوں کے قرب و جوار میں رہنے والے غیر مسلم بھی عید کی برکات میں سے کچھ نہ کچھ مادی برکات پاہی لیتے ہیں اور وہ ان برکات کی وجہ سے سال بھر عید کا انتظار کرتے ہیں۔ لیکن عید کی حقیقی برکات ان لوگوں کو ملتی ہیں جو رمضان المبارک میں روزوں کا اہتمام کرتے ہیں اور ان روزوں سے ان کو صرف اللہ کی رضا مقصود ہوتی ہے۔ وہ نمازوں کا اہتمام کرتے ہیں تراویح بھی ادا کرتے ہیں کثرت سے ذکر و تلاوت کرتے ہیں۔ صدقہ خیرات بھی دیتے ہیں۔ ایسے ہی لوگوں کے لئے حقیقت میں عید ہے۔ لوگ زمین پر عید کا جتنا اہتمام کرتے ہیں نئے کپڑے بناتے ہیں اچھے کھانے پینے کا انتظام کرتے ہیں آسمانوں پر عید کا انتظام اس سے بھی زیادہ ہوتا ہے۔ عید کی رات کو آسمانوں پر لیلۃ الجائز ہ یعنی انعام کی رات سے یاد کیا جاتا ہے۔
اب ذرا غور کریں کہ کسی کو جبرائیل علیہ السلام کی بددعا لگ گئی ہو تو اس کو کسی کی عید کی مبارک باد دینا کیا کام آسکتا ہے۔ لیکن ہائے ہماری بے ہوشی کہ ہم عید کی تیاریوں میں لگے ہوتے ہیں عید کے لئے نئے نئے کپڑے جوتے ٹوپی خریدنے جارہے ہیں، عید کی نماز سے فارغ ہو کر سیروتفریح کے پلان بن رہے ہیں۔ دن عید جیسا مبارک اور اس کا استقبال نمازیں چھوڑ کر اور گناہوں کے ساتھ کیا جارہا ہے۔ رمضان المبارک کا آخری عشرہ جو خاص مغفرت کا عشرہ تھا اس کو بھی رات رات بھر بازاروں کے چکر کاٹ کر گذار دیئے۔ مردوعورتوں کا ہجوم ہے جو طاق راتوں میں بھی بجائے مساجد کے بازار کی دوکانوں کو آباد کئے ہوئے ہیں۔ نہ کسی کو شب قدر کی جستجو ہے نہ اپنے آپ کی مغفرت کی آرزو ہے۔ تشبع بالکفار ہے کہ صرف دنیا کی ظاہری زندگی پر ہی نظر ہے اور آخرت آنکھوں سے اوجھل ہے۔ گویا ہم اس آیت کا مصداق ہیں جو کفار کے بارے میں بیان کی گئی ہے
یا ایتھا النفس المطئۃ الرجعی الی ربک راضیۃ مر ضیہ فاد خلی فی عبادی وادخلی جنتی ترجمہ : ’’ اے اطمینان والی روح لوٹ چل اپنے رب کی طرف اس حال میں کہ تونے اس کو راضی کردیا اور اب وہ تجھے راضی کردیگا ‘‘۔
اللہ فرمائیگا چل میرے خاص بندوں میں داخل ہوجا اور میری جنت میں داخل ہوجا۔ لیکن یہ خطاب ان ہی کے لئے ہے جنہوں نے دنیا میں اپنے نفس کو قابو میں رکھا اور اللہ کی مرضیات پر چلاتے رہے۔ اس طرز زندگی کو اپنا نے کے لئے یہ رمضان کا مہینہ دیا گیا ہے تاکہ عید ہمارے لئے زندگی کے رخ کو پلٹنے کا ذریعہ بن جائے۔ عید گاہ سے ہم سچی پکی تو بہ کر کے لوٹیں اپنی مغفرت کرالیں اور اللہ سے آئندہ زندگی میں فرمانبرداری کا عہد کر کے اٹھیں اور اس کے لئے اسی سے توفیق بھی مانگیں ، اب یہ عید واقعی اس قابل ہے کہ اس کے لئے مبارک باد دی جائے۔
کہنے سے مبارک نہیں ہوتی
ReplyDeleteبالکل درست فرمایا آپ نے۔ اگرچہ دن کے وقت بازاروں میں جاکر عید کی تیاریوں کا اہتمام کرنا بھی اچھا ہے کہ اس سے اس تہوار کی اہمیت کا احساس اُجاگر ہوتا ہے لیکن اس ماہ مقدس کے اصل مقصد کو بُھلا بیٹھنا بہت ناقدری کی بات ہے۔
ReplyDelete