Sunday, September 13, 2009

مبارک ہو کہنے سے عید نہیں ہو تی Celebrating Eid -- Ramadan


محمّد شریف ،ناگپور

عید تو مبارک ہوتی ہی ہے، عید اپنے ساتھ ایسی برکتیں سمیٹ کرلاتی ہے کہ امت کا ہر فرد اس سے نفع اٹھاتا ہے۔ بلکہ مسلمانوں کے قرب و جوار میں رہنے والے غیر مسلم بھی عید کی برکات میں سے کچھ نہ کچھ مادی برکات پاہی لیتے ہیں اور وہ ان برکات کی وجہ سے سال بھر عید کا انتظار کرتے ہیں۔ لیکن عید کی حقیقی برکات ان لوگوں کو ملتی ہیں جو رمضان المبارک میں روزوں کا اہتمام کرتے ہیں اور ان روزوں سے ان کو صرف اللہ کی رضا مقصود ہوتی ہے۔ وہ نمازوں کا اہتمام کرتے ہیں تراویح بھی ادا کرتے ہیں کثرت سے ذکر و تلاوت کرتے ہیں۔ صدقہ خیرات بھی دیتے ہیں۔ ایسے ہی لوگوں کے لئے حقیقت میں عید ہے۔ لوگ زمین پر عید کا جتنا اہتمام کرتے ہیں نئے کپڑے بناتے ہیں اچھے کھانے پینے کا انتظام کرتے ہیں آسمانوں پر عید کا انتظام اس سے بھی زیادہ ہوتا ہے۔ عید کی رات کو آسمانوں پر لیلۃ الجائز ہ یعنی انعام کی رات سے یاد کیا جاتا ہے۔ 

جب صبح ہوتی ہے تو جبرائیل علیہ السلام فرشتوں کے لشکر کے ساتھ زمین پر نزول فرماتے ہیں۔ فرشتے مسلمانوں کی آبادیوں میں گلی کوچوں میں اور سڑکوں پر پھیل جاتے ہیں اور اعلان کرتے ہیں کہ اے لوگوں چلو اس کریم رب کی بارگاہ کی طرف جو بہت زیادہ دینے والا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی طرف سے اعلان ہوتا ہے کہ آج کے دن تم مجھ سے جو سوال کرونگے عطا کرونگا۔ آخرت کے بارے میں جو مانگوگے وہ دونگا اور دنیا کے بارے میں مجھ سے جو طلب کرونگے مصلحت پر نظر کر کے عطا کرونگا۔میرے بندو جب تک تم میرا خیال رکھونگے میں تمہارا خیال رکھونگا۔ تم پر ستاری کرتا رہونگا میری عزت اور جلال کی قسم میں تمہیں کفاراور مشرکین کے سامنے رسوا اور فضیحت نہیں کرونگا ۔جب عید کی نماز ہوتی ہے تو اللہ کی طرف سے مغفرت عامہ کا فیصلہ ہوتا ہے اور کہاجاتا ہے اب بخشے بخشائے اٹھو۔

ایک حدیث میں ہے کہ ایک مرتبہ منبر پر چرھتے ہوئے جب پہلی سیڑھی پر قدم رکھا تو فرمایا آمین جب دوسری سیڑھی پر قدم رکھا تو فرمایا آمین ، جب تیسری سیڑھی پر قدم رکھا تو فرمایا آمین۔ صحابہ نے یہ خلاف معمول بات دیکھ کر خطبہ کے بعد یہ استفسار کیا کہ یارسول اللہؐ آج آپ نے ایسا کیوں کیا تو حضورؐ نے ارشاد فرمایا کہ جبرائیل علیہ السلام میرے پاس آئے تھے جب میں نے پہلے درجہ پرقدم رکھا تو فرمایا ہلاک ہو وہ شخص جو رمضان المبارک کا مہینہ پائے اور اپنی مغفرت نہ کرالے، میں نے کہا آمین۔
اسی طرح دودعائیں اور بھی ارشاد فرمائی جو اس وقت کا موضوع نہ ہونے کی وجہ سے خدف کی جارہی ہیں۔ ایک روایت میں یہ بھی ہے کہ خود جبرائیل علیہ السلام نے کہا کہ میں دعا کرتا ہوں آپ آمین کہئے۔ اس سے اور زیادہ اہتمام معلوم ہوتا ہے۔ اب ذرااس ایک دعا پر غور فرمالیں جو درحقیقت بددعا ہے۔ رمضان کی ناقدری کرنے والوں کے لئے۔ اب سوچیں جبرائیل علیہ السلام جیسے مقرب فرشتہ کی دعا جوتمام فرشتوں کا سردار ہے اور جس کو اللہ ذوالجلال والاکرام اور تمام انبیاء علیھم السلام کے درمیان واسطہ بننے کا شرف حاصل رہا ہو گویا کہ رسول من الملائکہ ہو اور اس پر سید الانبیاء خاتم النبین حبیب رب العالمین کا آمین کہنا کیا اس دعا کی قبولیت میں کوئی شک کرسکتا ہے۔ 

اب ذرا غور کریں کہ کسی کو جبرائیل علیہ السلام کی بددعا لگ گئی ہو تو اس کو کسی کی عید کی مبارک باد دینا کیا کام آسکتا ہے۔ لیکن ہائے ہماری بے ہوشی کہ ہم عید کی تیاریوں میں لگے ہوتے ہیں عید کے لئے نئے نئے کپڑے جوتے ٹوپی خریدنے جارہے ہیں، عید کی نماز سے فارغ ہو کر سیروتفریح کے پلان بن رہے ہیں۔ دن عید جیسا مبارک اور اس کا استقبال نمازیں چھوڑ کر اور گناہوں کے ساتھ کیا جارہا ہے۔ رمضان المبارک کا آخری عشرہ جو خاص مغفرت کا عشرہ تھا اس کو بھی رات رات بھر بازاروں کے چکر کاٹ کر گذار دیئے۔ مردوعورتوں کا ہجوم ہے جو طاق راتوں میں بھی بجائے مساجد کے بازار کی دوکانوں کو آباد کئے ہوئے ہیں۔ نہ کسی کو شب قدر کی جستجو ہے نہ اپنے آپ کی مغفرت کی آرزو ہے۔ تشبع بالکفار ہے کہ صرف دنیا کی ظاہری زندگی پر ہی نظر ہے اور آخرت آنکھوں سے اوجھل ہے۔ گویا ہم اس آیت کا مصداق ہیں جو کفار کے بارے میں بیان کی گئی ہے
کیسی مبارک راتیں تھیں جن کو ہم نے بازاروں کی نذر کردیا اگر شب قدرکو پاجاتے تو لیلۃالقدر خیر من الف شھر یعنی شب قدر ہزار مہینوں سے بہتر ہے، اس قول کی وجہ سے ۸۳! (تراسی سال) اور چند مہینہ مزید سے بھی زیادہ عبادت کا ثواب پاتے۔ لیکن افسوس ہمارا تو ذوق ہی بدل گیا۔ ایسی عید کی تیاری میں لگے ہیں جو کل باسی ہو جائیگی۔ وہ لباس فاخرہ جس کو پہن کر اترارہے تھے دوسرے ہی دن پرانا ہو جاتا ہے۔ وہ لذیذ کھانے اور میوے جس کو خوب اہتمام سے پکایا دوسرے دن اس قابل بھی نہیں رہتے کہ ان پر نظر بھی ڈال سکیں۔ اگر اس عید کی حقیقت پر نظر رکھ کر ہم نے اپنی مغفرت کرالی اور اپنے رب کو راضی کرلیا تو آدمی کی حقیقی عید موت کے وقت ہوگی۔ وہ ایسی عید ہوگی جو کبھی باسی نہ ہو اس کے بعد نہ کوئی غم نہ کوئی درد نہ کوئی تکلیف نہ کوئی گھبراہٹ ، نہ مصیبت نہ بے چینی۔ بلکہ نعمتیں ہی نعمتیں جن کو کبھی زوال نہیں ہوگا نہ کوئی روک ٹوک ہوگی۔ بلکہ کہا جائیگا ولکم فیھا ماتشتھی انفسکم ولکم فیھا ماتدعون ’’ تمہارے لئے اس میں وہ سب کچھ ہے جس کو تمہارا جی چاہے، اور اس میں تمہارے لئے وہ ہے جس کا تم سے وعدہ کیا گیا ہے ‘‘۔ ایسے لوگوں کے لئے ان کی موت کے وقت ان سے خطاب کیا جائیگا :

اللہ فرمائیگا چل میرے خاص بندوں میں داخل ہوجا اور میری جنت میں داخل ہوجا۔ لیکن یہ خطاب ان ہی کے لئے ہے جنہوں نے دنیا میں اپنے نفس کو قابو میں رکھا اور اللہ کی مرضیات پر چلاتے رہے۔ اس طرز زندگی کو اپنا نے کے لئے یہ رمضان کا مہینہ دیا گیا ہے تاکہ عید ہمارے لئے زندگی کے رخ کو پلٹنے کا ذریعہ بن جائے۔ عید گاہ سے ہم سچی پکی تو بہ کر کے لوٹیں اپنی مغفرت کرالیں اور اللہ سے آئندہ زندگی میں فرمانبرداری کا عہد کر کے اٹھیں اور اس کے لئے اسی سے توفیق بھی مانگیں ، اب یہ عید واقعی اس قابل ہے کہ اس کے لئے مبارک باد دی جائے۔

2 comments:

  1. کہنے سے مبارک نہیں ہوتی

    ReplyDelete
  2. بالکل درست فرمایا آپ نے۔ اگرچہ دن کے وقت بازاروں میں جاکر عید کی تیاریوں کا اہتمام کرنا بھی اچھا ہے کہ اس سے اس تہوار کی اہمیت کا احساس اُجاگر ہوتا ہے لیکن اس ماہ مقدس کے اصل مقصد کو بُھلا بیٹھنا بہت ناقدری کی بات ہے۔

    ReplyDelete