سفر
Urdu translation of a Marathi modern short story ..
مراٹھی کہاانی
الف لیلوی کر دار سند باد جہازی کے تلمیحی پس منظر میں انوکھے انداز میں لکھی گٔی مراٹھی کہانی کا اردو ترجمہ ۔۔۔۔۔۔۔
لکشمن لونڈھے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔مترجم : محمّد اسد اللہ
۔
لگتا ہے آپ نے مجھے پہچانا نہیں آ پ کے چہرے سے ظاہر حیرانی تو یہی بتا رہی ہے ،جیسے کسی کو رات خواب میں کو ئی مرا ہوا آدمی دکھا ئی دے اور اتنے وقت کے لئے محسوس ہو کہ وہ سچ مچ زندہ ہے ،مگر صبح اٹھنے کے بعد یقین ہو جائے کہ وہ تو حقیقتاً خواب ہی تھا ،اور اچانک وہ شخص اس کے رو برو آ کھڑا ہو ،کچھ اسی قسم کا نظر آ رہا ہے آ پ کا چہرہ ۔
میں آپ کو بتانا چاہتا ہوں کہ آپ نے مجھے کہیں کسی خواب میں ہر گز نہیں دیکھا ۔ممکن ہے کسی تصویر میں کہیں دیکھا ہو مگر وہ تو بچپن کی بات ہے ۔اس کے بعد آپ کی میری کو ئی ملاقات نہیں ۔آپ نے مجھے دلال یا مول گاؤں کر کی کھینچی ہو ئی تصویر میں دیکھا ہو گا ۔آپ اس تصویر میں بھی مجھے پہچان نہیں پا ئے ہوں گے کیونکہ وہ تصویر بھی ہو بہو نہیں تھی ۔ اس کا ایک سبب تو یہ ہے کہ دلال یا مول گاؤں کر نے بھی مجھے دیکھا کہاں تھا ۔ انھوں نے فقط لوگوں کے سنے ہو ئے بیانات کے سہارے میری تصویر بناڈالی تھی ۔ اس لئے اس کا غلط ہونا فطری ہے ۔
دوسری بات یہ کہ آج آپ کے پاس وہ تصویر مو جود نہیں اور اگر ہو تی بھی تو موازنہ کر نے کے کام نہ آ تی کیونکہ میں اب بھی آپ کے رو برو کھڑا کہاں ہوں ۔میں تو اب بھی آپ کے لئے ایک آ واز ہی ہوں ۔آپ کہیں گے اندھا آدمی آ واز کے ذریعے انسان کو پہچان لیتا ہے ۔میں مانتا ہوں ۔لیکن کب؟ جب کہ اس اندھے نے اس شخص کی آ واز پہلے کبھی سنی ہو،اور جہاں تک میرا خیال ہے میری آ واز بھی شایدآپ پہلی مرتبہ سن رہے ہیں ۔میں نے لفظ شاید استعمال کیا ہے ۔یہ بھی ممکن ہے میری آ واز
آ پ نے پہلے کہیں سنی ہو۔ لگتا ہے آپ نے مجھے اب بھی نہیں پہچانامیں وہ بوڑھا ہوں جو سند باد کو ملا تھا۔ساتویں سفر میں ۔
اس سے میری ملاقات ساتویں سفر میں ہو ئی تھی ۔یہ بات اس نے آ پ کو بتا ئی ہو گی ۔ ہے نا؟ یہ بھی ایک ادھوری سچّائی ہے ۔ مگر اس میں اس کا کو ئی قصور نہیں ۔میں پہلے سفر سے ہی اس کے ساتھ تھا،یعنی اس کی گردن پر سوار تھا۔ اسے اس بات کا قطعی علم نہ تھا ،یہ بات تو اسے ساتویں سفر میں معلوم ہو ئی ۔۔۔۔، اس کے بعد اس نے آ ٹھواں سفر نہیں کیا ۔ میں آ پ کو اگلے سوال کو بخوبی سمجھتاہوں کہ اس نے آ ٹھواں سفر کیوں نہیں کیا؟ یہی نا؟
بات دراصل یہ ہے کہ میں اس کے کاندھوں سے اتر گیا تو اس کاسفر کا سارا حوصلہ جا تارہا۔
سند باد نے کل سات سفر کئے ،کس لئے ؟ وہ خود کہتا ہے اسے گھومنے کا شوق تھا ۔ بے کا ربیٹھ نہیں سکتا تھا ۔ اگر بیٹھ رہتا تو انّر کمپلشن آ نے لگتا ۔ بعض لو گوں کا خیال ہے کہ ان تمام مسافتوں کے پیچھے دولت کے حصول کی ترغیب کار فر ما تھی۔ اور چند لوگوں کی یہ رائے ہے کہ اس ملک کے بادشاہ کے حکم پر اسے یہ سفر اختیار کر نے پڑے ۔
ایک بات تو طے تھی کہ سفر سے واپسی پر سند باد ہر بار یہ طے کرتا کہ اب اتنی مسافتیں بہت ہو چکیں اب کسی سفر پر نہیں جانا ۔سفر کی صعوبتیں ،پریشانیاں ،دور دور بھٹکنا۔۔۔لیکن یہ تمام باتیں بے کار ثابت ہو تیں ۔وہ کون تھا جو یہ طے کرتا کہ اسے سفر نہیں کرنا؟ یہ طے کرنا اس کے بس میں تھا ہی نہیں،اور نہ یہ بادشاہ طے کر سکتا تھا۔یہ سب ان کے ہاتھوں میں نہیں تھا۔
۔۔۔۔یہ میرے اختیار میں تھا۔
میں ہی اس کی گردن پر سوار ہو کر اسے ہر بار دوڑاتا رہا ۔ اسے یہ محسوس ہو تا تھا کہ وہ سفر پر نکلا ہے مگر بالکل جھوٹ ۔اسے ہر بار سفر کے لئے کھینچ کر میں نے ہی باہر نکالا۔ سند باد نے ساتویں اور آ خری سفر کی پوری کہانی نہیں سنائی ۔میں سناتا ہوں ۔
سند باد بری طرح تھک چکا تھا۔سفر کی تکالیف ،دشواریاں اس کے علاوہ اسے کھانے پینے کے لئے کچھ نہ مل پایا ۔ سردی ،گرمی، بارش اور مو سمی ہواؤں میں اس اکیلے کا سفر ۔۔۔معاف کیجئے ہم دونوں کا،(وہ اور اس کے سر پر بیٹھا ہوا میں ) صرف اسے علم ہی نہیں تھا ۔ اسی لئے وہ اپنی دانست میں تنہا بھٹکتا رہا۔ مسلسل۔۔۔
ایک ایسی ہی تپتی ہو ئی دوپہر تھی اور پر سورج شعلے برسا رہا تھا ۔حدِّ نظر تک عرب کا ویران صحرا بکھرا پڑا تھا ۔راستے میں ملنے والے کھجوروں کے چند درخت تھے جو سائے کے بھی کام کے نہ تھے ۔۔۔۔اور دور نظر آ نے والا سراب ۔اتنے طویل سفر کے بعد یہ جان کر بھی کہ وہ سراب ہے سند باد پا گل ہواٹھا اور اس کے پیچھے دوڑنے لگا ۔ ۔۔
سند باد اور اس کے سر پر سوار میں ۔اس طرح کا تھا یہ سفر ۔
دوپہر کسی قدر ڈھل گئی ،مگر دھوپ کی شدّت اور تمازت اسی طرح بر قرار تھی ۔تب سند باد کو پانی کا ایک چشمہ نظر آیا ۔ سچ مچ کے پانی کا ایک چشمہ۔۔ وہ تیزی سے دوڑتا ہوا اس کے قریب پہنچا ۔سورج کی تیز شعائیں پانی سے منعکس ہو کر سند باد پر پڑیں اور وہ اسی وقت اندھا ہو گیا ۔ مگر وہ چشمہ عام قسم کے پانی کا ذخیرہ نہ تھا ۔ لو گ اسے مقدّس چشمہ کہتے تھے ۔چلّوسے پانی لینے کے لئے سند باد جھکا ہی تھا کہ اس کی بینائی لوٹ آ ئی اور پانی میں ابھرے ہو ئے عکس میں اسے دکھائی دیا کہ کو ئی اس کی گردن پر سوار ہے ۔کو ئی یعنی میں ۔۔۔۔ جس وقت اسے میرے وجود کا احساس ہوا اس لمحے کے بعد سند باد سند باد نہ ر ہا ۔اسی وقت سے یہ بات اس کے ذہن میں گھوم،تی رہی کہ کسی طرح وہ میرا بوجھ اپنے کاندھے سے اتار پھینکے ۔ اس کے بعد وہ لعل و جواہر اور سونا چاندی کے علاقے بھلا بیٹھا ۔ ان ممالک کی شہزادیوں سے غافل ہو گیا اور سب کچھ بھول گیا ۔ اب اس پر ایک ہی فکر سوار تھی کہ مجھے کسی طرح سر سے اتار پھینکے ۔
مجھے اس لمحے کے بعد سند باد سے خوف آ نے لگا ۔ میں کون ہوں یہ جان لینے کے بعد اس نے مجھ سے چھٹکارا پا نے کی کو شش شروع کی میں اسی وقت جان گیا کہ اب میں سند باد کے سر پر زیادہ دنوں تک بیٹھ نہیں سکوں گا ۔آ خر کار میں نے اسے سمجھانے کا ارادہ کیا ۔ میں نے اسے صاف صاف بتایا کہ ۔۔۔۔ ’’دیکھو سند باد ! تم مجھے پھینک سکتے ہو ،ختم نہیںکر سکتے ۔ مجھے لا فانیت کا شراپ ہے تم ایک فانی انسان ہو ۔تھوڑے دنوں کے بعد تم مر ہی جا ؤ گے ۔مجھے اس دنیا کے آ خر تک زندہ رہنا ہے اس لئے تم مجھے کسی دوسری جگہ بھجوادو ۔لیکن مجھے کسی کا سر چاہئے جہاں میں بیٹھ سکوں ۔ سند باد کو پہلے تو میرا خیال پسند نہ آ یا ۔یعنی اپنے سر کا بوجھ کسی دوسرے کے سر منڈھ دینا،لیکن اس کے سوا کو ئی دوسرا راستہ نہ تھا ۔ میں اسے خبر دار کر چکا تھا کہ جب تک مجھے کسی دوسرے شخص کے سر پر بیٹھنے کے لئے جگہ نہیں ملے گی ،تم آ زاد نہیں ہو سکتے بالآخر وہ مجبوراً تیّار ہو گیا ۔ ایک دن اس نے مجھے اطلاع دی کہ’’ میںنے ایک سر ڈھونڈنکالا ہے چھے سات سال کا ایک بچّہ ہے ، ابھی اس کا سر چھوٹا ہے ۔ممکن ہے ابھی بیٹھنے کے لئے جگہ کم پڑے لیکن عمر کے ساتھ یقیناً اس کا سر بڑا ہو گا ۔ تب تم بہ آ سانی وہاں بیٹھ سکو گے ۔ مجھے اس کی بات پسند آ ئی ۔ اور ایک دن لعل و جواہر ،سونا چاندی کی کانیں ،شہزادیوں کی کہانیاں سناتے سناتے اس کی لا علمی کا فائدہ اٹھاتے ہو ئے ۔۔۔۔،دیکھئے آ پ کو یاد آ تا ہے کیا کہ سند باد نے آ پ کی بے خبری میں اپنا بوجھ آ پ کے سر منڈھ دیا اورخود آ زاد ہو گیا ۔
۔۔۔۔اور اس کے بعد سند باد کو آ ٹھویں سفر کی ضرورت ہی پیش نہ آ ئی ۔ ۔۔ ۔مگر اس دن کے بعد آ پ کا سفر شروع ہو گیا۔
Urdu translation of a Marathi modern short story ..
مراٹھی کہاانی
الف لیلوی کر دار سند باد جہازی کے تلمیحی پس منظر میں انوکھے انداز میں لکھی گٔی مراٹھی کہانی کا اردو ترجمہ ۔۔۔۔۔۔۔
لکشمن لونڈھے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔مترجم : محمّد اسد اللہ
۔
لگتا ہے آپ نے مجھے پہچانا نہیں آ پ کے چہرے سے ظاہر حیرانی تو یہی بتا رہی ہے ،جیسے کسی کو رات خواب میں کو ئی مرا ہوا آدمی دکھا ئی دے اور اتنے وقت کے لئے محسوس ہو کہ وہ سچ مچ زندہ ہے ،مگر صبح اٹھنے کے بعد یقین ہو جائے کہ وہ تو حقیقتاً خواب ہی تھا ،اور اچانک وہ شخص اس کے رو برو آ کھڑا ہو ،کچھ اسی قسم کا نظر آ رہا ہے آ پ کا چہرہ ۔
میں آپ کو بتانا چاہتا ہوں کہ آپ نے مجھے کہیں کسی خواب میں ہر گز نہیں دیکھا ۔ممکن ہے کسی تصویر میں کہیں دیکھا ہو مگر وہ تو بچپن کی بات ہے ۔اس کے بعد آپ کی میری کو ئی ملاقات نہیں ۔آپ نے مجھے دلال یا مول گاؤں کر کی کھینچی ہو ئی تصویر میں دیکھا ہو گا ۔آپ اس تصویر میں بھی مجھے پہچان نہیں پا ئے ہوں گے کیونکہ وہ تصویر بھی ہو بہو نہیں تھی ۔ اس کا ایک سبب تو یہ ہے کہ دلال یا مول گاؤں کر نے بھی مجھے دیکھا کہاں تھا ۔ انھوں نے فقط لوگوں کے سنے ہو ئے بیانات کے سہارے میری تصویر بناڈالی تھی ۔ اس لئے اس کا غلط ہونا فطری ہے ۔
دوسری بات یہ کہ آج آپ کے پاس وہ تصویر مو جود نہیں اور اگر ہو تی بھی تو موازنہ کر نے کے کام نہ آ تی کیونکہ میں اب بھی آپ کے رو برو کھڑا کہاں ہوں ۔میں تو اب بھی آپ کے لئے ایک آ واز ہی ہوں ۔آپ کہیں گے اندھا آدمی آ واز کے ذریعے انسان کو پہچان لیتا ہے ۔میں مانتا ہوں ۔لیکن کب؟ جب کہ اس اندھے نے اس شخص کی آ واز پہلے کبھی سنی ہو،اور جہاں تک میرا خیال ہے میری آ واز بھی شایدآپ پہلی مرتبہ سن رہے ہیں ۔میں نے لفظ شاید استعمال کیا ہے ۔یہ بھی ممکن ہے میری آ واز
آ پ نے پہلے کہیں سنی ہو۔ لگتا ہے آپ نے مجھے اب بھی نہیں پہچانامیں وہ بوڑھا ہوں جو سند باد کو ملا تھا۔ساتویں سفر میں ۔
اس سے میری ملاقات ساتویں سفر میں ہو ئی تھی ۔یہ بات اس نے آ پ کو بتا ئی ہو گی ۔ ہے نا؟ یہ بھی ایک ادھوری سچّائی ہے ۔ مگر اس میں اس کا کو ئی قصور نہیں ۔میں پہلے سفر سے ہی اس کے ساتھ تھا،یعنی اس کی گردن پر سوار تھا۔ اسے اس بات کا قطعی علم نہ تھا ،یہ بات تو اسے ساتویں سفر میں معلوم ہو ئی ۔۔۔۔، اس کے بعد اس نے آ ٹھواں سفر نہیں کیا ۔ میں آ پ کو اگلے سوال کو بخوبی سمجھتاہوں کہ اس نے آ ٹھواں سفر کیوں نہیں کیا؟ یہی نا؟
بات دراصل یہ ہے کہ میں اس کے کاندھوں سے اتر گیا تو اس کاسفر کا سارا حوصلہ جا تارہا۔
سند باد نے کل سات سفر کئے ،کس لئے ؟ وہ خود کہتا ہے اسے گھومنے کا شوق تھا ۔ بے کا ربیٹھ نہیں سکتا تھا ۔ اگر بیٹھ رہتا تو انّر کمپلشن آ نے لگتا ۔ بعض لو گوں کا خیال ہے کہ ان تمام مسافتوں کے پیچھے دولت کے حصول کی ترغیب کار فر ما تھی۔ اور چند لوگوں کی یہ رائے ہے کہ اس ملک کے بادشاہ کے حکم پر اسے یہ سفر اختیار کر نے پڑے ۔
ایک بات تو طے تھی کہ سفر سے واپسی پر سند باد ہر بار یہ طے کرتا کہ اب اتنی مسافتیں بہت ہو چکیں اب کسی سفر پر نہیں جانا ۔سفر کی صعوبتیں ،پریشانیاں ،دور دور بھٹکنا۔۔۔لیکن یہ تمام باتیں بے کار ثابت ہو تیں ۔وہ کون تھا جو یہ طے کرتا کہ اسے سفر نہیں کرنا؟ یہ طے کرنا اس کے بس میں تھا ہی نہیں،اور نہ یہ بادشاہ طے کر سکتا تھا۔یہ سب ان کے ہاتھوں میں نہیں تھا۔
۔۔۔۔یہ میرے اختیار میں تھا۔
میں ہی اس کی گردن پر سوار ہو کر اسے ہر بار دوڑاتا رہا ۔ اسے یہ محسوس ہو تا تھا کہ وہ سفر پر نکلا ہے مگر بالکل جھوٹ ۔اسے ہر بار سفر کے لئے کھینچ کر میں نے ہی باہر نکالا۔ سند باد نے ساتویں اور آ خری سفر کی پوری کہانی نہیں سنائی ۔میں سناتا ہوں ۔
سند باد بری طرح تھک چکا تھا۔سفر کی تکالیف ،دشواریاں اس کے علاوہ اسے کھانے پینے کے لئے کچھ نہ مل پایا ۔ سردی ،گرمی، بارش اور مو سمی ہواؤں میں اس اکیلے کا سفر ۔۔۔معاف کیجئے ہم دونوں کا،(وہ اور اس کے سر پر بیٹھا ہوا میں ) صرف اسے علم ہی نہیں تھا ۔ اسی لئے وہ اپنی دانست میں تنہا بھٹکتا رہا۔ مسلسل۔۔۔
ایک ایسی ہی تپتی ہو ئی دوپہر تھی اور پر سورج شعلے برسا رہا تھا ۔حدِّ نظر تک عرب کا ویران صحرا بکھرا پڑا تھا ۔راستے میں ملنے والے کھجوروں کے چند درخت تھے جو سائے کے بھی کام کے نہ تھے ۔۔۔۔اور دور نظر آ نے والا سراب ۔اتنے طویل سفر کے بعد یہ جان کر بھی کہ وہ سراب ہے سند باد پا گل ہواٹھا اور اس کے پیچھے دوڑنے لگا ۔ ۔۔
سند باد اور اس کے سر پر سوار میں ۔اس طرح کا تھا یہ سفر ۔
دوپہر کسی قدر ڈھل گئی ،مگر دھوپ کی شدّت اور تمازت اسی طرح بر قرار تھی ۔تب سند باد کو پانی کا ایک چشمہ نظر آیا ۔ سچ مچ کے پانی کا ایک چشمہ۔۔ وہ تیزی سے دوڑتا ہوا اس کے قریب پہنچا ۔سورج کی تیز شعائیں پانی سے منعکس ہو کر سند باد پر پڑیں اور وہ اسی وقت اندھا ہو گیا ۔ مگر وہ چشمہ عام قسم کے پانی کا ذخیرہ نہ تھا ۔ لو گ اسے مقدّس چشمہ کہتے تھے ۔چلّوسے پانی لینے کے لئے سند باد جھکا ہی تھا کہ اس کی بینائی لوٹ آ ئی اور پانی میں ابھرے ہو ئے عکس میں اسے دکھائی دیا کہ کو ئی اس کی گردن پر سوار ہے ۔کو ئی یعنی میں ۔۔۔۔ جس وقت اسے میرے وجود کا احساس ہوا اس لمحے کے بعد سند باد سند باد نہ ر ہا ۔اسی وقت سے یہ بات اس کے ذہن میں گھوم،تی رہی کہ کسی طرح وہ میرا بوجھ اپنے کاندھے سے اتار پھینکے ۔ اس کے بعد وہ لعل و جواہر اور سونا چاندی کے علاقے بھلا بیٹھا ۔ ان ممالک کی شہزادیوں سے غافل ہو گیا اور سب کچھ بھول گیا ۔ اب اس پر ایک ہی فکر سوار تھی کہ مجھے کسی طرح سر سے اتار پھینکے ۔
مجھے اس لمحے کے بعد سند باد سے خوف آ نے لگا ۔ میں کون ہوں یہ جان لینے کے بعد اس نے مجھ سے چھٹکارا پا نے کی کو شش شروع کی میں اسی وقت جان گیا کہ اب میں سند باد کے سر پر زیادہ دنوں تک بیٹھ نہیں سکوں گا ۔آ خر کار میں نے اسے سمجھانے کا ارادہ کیا ۔ میں نے اسے صاف صاف بتایا کہ ۔۔۔۔ ’’دیکھو سند باد ! تم مجھے پھینک سکتے ہو ،ختم نہیںکر سکتے ۔ مجھے لا فانیت کا شراپ ہے تم ایک فانی انسان ہو ۔تھوڑے دنوں کے بعد تم مر ہی جا ؤ گے ۔مجھے اس دنیا کے آ خر تک زندہ رہنا ہے اس لئے تم مجھے کسی دوسری جگہ بھجوادو ۔لیکن مجھے کسی کا سر چاہئے جہاں میں بیٹھ سکوں ۔ سند باد کو پہلے تو میرا خیال پسند نہ آ یا ۔یعنی اپنے سر کا بوجھ کسی دوسرے کے سر منڈھ دینا،لیکن اس کے سوا کو ئی دوسرا راستہ نہ تھا ۔ میں اسے خبر دار کر چکا تھا کہ جب تک مجھے کسی دوسرے شخص کے سر پر بیٹھنے کے لئے جگہ نہیں ملے گی ،تم آ زاد نہیں ہو سکتے بالآخر وہ مجبوراً تیّار ہو گیا ۔ ایک دن اس نے مجھے اطلاع دی کہ’’ میںنے ایک سر ڈھونڈنکالا ہے چھے سات سال کا ایک بچّہ ہے ، ابھی اس کا سر چھوٹا ہے ۔ممکن ہے ابھی بیٹھنے کے لئے جگہ کم پڑے لیکن عمر کے ساتھ یقیناً اس کا سر بڑا ہو گا ۔ تب تم بہ آ سانی وہاں بیٹھ سکو گے ۔ مجھے اس کی بات پسند آ ئی ۔ اور ایک دن لعل و جواہر ،سونا چاندی کی کانیں ،شہزادیوں کی کہانیاں سناتے سناتے اس کی لا علمی کا فائدہ اٹھاتے ہو ئے ۔۔۔۔،دیکھئے آ پ کو یاد آ تا ہے کیا کہ سند باد نے آ پ کی بے خبری میں اپنا بوجھ آ پ کے سر منڈھ دیا اورخود آ زاد ہو گیا ۔
۔۔۔۔اور اس کے بعد سند باد کو آ ٹھویں سفر کی ضرورت ہی پیش نہ آ ئی ۔ ۔۔ ۔مگر اس دن کے بعد آ پ کا سفر شروع ہو گیا۔
اچھی کہانی ہے۔
ReplyDeleteخوبصورت بہت ہی اچھی کہانی ہے۔ خصوصا آخر کا جو ٹوئسٹ ہے وہ بے حد اچھا لگا۔
ReplyDelete