محاوروں کی دنیا( انشاءیہ)
محاوروں کی دنیا عجیب و غریب ہے،ہمارے شاعروں کی طرح جنھیں کہنا کچھ ہو تا ہے اور کہتے کچھ ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ محاوروں کو جملوں میں استعمال کیجئے ،اس سوال میں وہ طلبا بری طرح فیل ہو تے ہیں جو عید کے چاند کو واقعی عید کا چاند سمجھتے ہیں ۔جب انھیں اس محاورے کا صحیح مفہوم معلو م ہوتا ہے کہ اس سے مراد وہ شخص ہے جو کبھی کبھار یا ایک مدّت بعد دکھائی دے تو بیچارے حیران ہو کر اپنا سر اتنی دیر تک کھجاتے ہیں، کہ عیدکا چاند دکھائی دے جائے ۔
اسی قسم کا ایک اور محاورہ ہے ،سر آ نکھوں پر، اس کے معنی ہیں دل و جان سے یا بڑی خوشی سے ۔اسی طرح سر آ نکھوں پر بٹھانا ،یہ محاورہ کسی کی آ ؤ بھگت کرنے کے استعمال کیا جاتا ہے ۔اس محاورہ میں نہ سر سے سروکار ہے نہ آ نکھوں سے ۔ اگر کو ئی شخص یہ خوش خبری سنائے کہ وہ مہمان بن کر آ پ کے گھر آ رہا ہے تو بظاہر یہ کہنے کا رواج ہے ۔ ۔۔’’ ضرور تشریف لا ئیے ،آپ کی آمد سر آ نکھوں پر ‘ ‘یہ اور بات کہ آپ کا دل اندر ہی اندر درج ذیل تراکیب کا ورد کر رہا ہو گا ۔’’برے پھنسے،ہو گیا ستّیاناس ،گئے کام سے ،آ گئی شامت،بن گیا گھر والوں کا کچومر ،اب تو ہو گئے دیوالیہ ،یہ مصیبت میرے ہی گلے پڑنی تھی، جل تو جلال تو آ ئی بلا کو ٹال تو وغیرہ وغیرہ ۔ پھر آ پ کا ذہن اس بن بلا ئے مہمان سے بچنے کی تراکیب سوچنے لگے گا ۔
کل ہی کی بات لیجئے ،ہمارے دوست نقیب مجتبیٰ نے جب یہ خبر ہمیں سنائی کہ’’ کو ئی صاحب آپ سے ملنے کے لئے آ رہے ہیں تو‘‘ ہم نے کہا ،خوش آ مدید ،ان کا آ نا سر آ نکھوں پر ۔یہ سن کر انھوں نے یہ فقرہ چست کیا ،’ ’مگر وہ بیٹھیں گے کسی ایک ہی پر ‘‘۔
اب ہم انھیں کیسے سمجھائیں کہ وہ صاحب ہمارے کرایہ دار ہیں ہمارے گھر کی بالائی منزل پر (یعنی ہمارے سر پر ) کرائے سے رہتے ہیں ۔ اور ہم ہر ماہ کرایہ کے انتظار میں ان کی راہوں میں آنکھیں بچھائے رہتے ہیں۔سر آنکھوں پر ،کا ایک مفہوم یہ بھی ہو سکتا ہے کہ آ نے والے صاحب یا تو سر ہو کر رہیں گے یا آ نکھوں کی ٹھنڈک بنیں گے ۔
کسی کو آ نکھو ں پر بٹھانے یا اس کے راستے میں آنکھیں بچھانے کا خیال خالص شاعرانہ ہے ۔ دیگر محاوروں کی طرح اسے بھی عملی شکل دینے کی کوشش کی گئی ،تو سارا مزہ کر کرا ہو جائے گا ۔محاورے تو بس زبان کا چٹخارہ ہیں، مزہ لینے کے لئے ۔یہ صابن کے جھاگ سے بنے بلبوں کی طرح ہیں اک ذرا چھوا اور غایب ۔کسی شاعر نے آنکھ بچھانے والے محاورے کو بڑی عمدگی سے استعمال کیاہے ۔
اے بادِ صبا کچھ تو نے سنا مہمان جو آ نے والے ہیں
تو کلیاں نہ بچھانا راہوں میں ہم آنکھ بچھانے والے ہیں
کسی کو دیکھ کر مارے حیرت کے آنکھیں کتنی ہی کیوں نہ پھیل جائیں وہ اس قدر وسیع نہیں ہو سکتیں کہ ان پر کو ئی تشریف فرما ہو سکے ۔ سر آ نکھوں پر اس محاورہ کو عملی نقطۂ نظر سے دیکھیں تو خالقِ حقیقی نے یہ کام پہلے ہی کر رکھا ہے ۔اس سے ظاہر ہے کہ سر کا مرتبہ آ نکھوں سے بلند ہے ۔آنکھیں دھوکہ کھا سکتی ہیں مگر عقل جس کا ٹھکانہ سر ہے، اس دھوکہ کو بھانپ لیتی ہے اور اپنے بچاؤ کا راستہ نکال لیتی ہے ۔
سر کی جگہ اگر آنکھیں ہو اکرتیں تو ہم دن میں آ سمان بادل پرندے اور دھنک دیکھا کرتے ،رات میں ستارے گنتے ۔زندگی ایک سفر ہے اور انسان ٹھہرا مسافر۔ اسی لئے خدا نے آنکھیں ہمارے سر پر اس انداز سے فٹ کی ہیں کہ ہم منزلوں پر نظر جمائیں ،راستے کی اونچ نیچ پر نظر رکھیں اور چلتے رہیں ۔آنکھیں سر کے پیچھے اس لئے نہیں لگائیں کہ جو گذر گیا اس کا ماتم فضول ہے۔ہرو قت اپنے ماضی میں کھوئے رہنا کو ئی اچّھی بات نہیں ۔ گاہے بگاہے پیچھے مڑ کر دیکھ لینا مفید ثابت ہو سکتا ہے ۔اسی لئے گردن میں مڑنے کی صلاحیت رکھ دی گئی ہے ۔سر تسلیم خم کر دینا یعنی اپنے پورے وجود کو جھکا دینا ہے ۔سر جو پورے جسم کا کنٹرول روم ہے جھک جائے تو یہ بہت بڑی بات ہے۔ ہمارے سر کو جو بلند مرتبہ عطا کیا گیا ہے اس کے پیشِ نظر اس کے لئے یہی مناسب ہے کہ وہ جھکے تو بس اپنے بنانے والے کے آ گے ۔ہر کس و ناکس کے آگے ماتھا ٹیکنے والے یوں بھی سب کی نظروں سے گر جاتے ہیں ،اسی لئے آن بان سے جینے والے خدا کے سوا کسی کے آ گے سر جھکانے کے بجائے اسے کٹانا پسند کرتے ہیں ۔ سر واقعی ہے ہی ایسی چیز !