ڈاڑھیاں ۔۔انشائیہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
محمّد اسد اللہ
ناگپور
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
محمّد اسد اللہ
ناگپور
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ٹھوڑیوں سے اگ کر مسلسل پھیلتی ہؤی بالوں کی وہ آ بادی جو کا نوں کی لوءوں تک چلی جا تی ہے ڈاڑھی کہلا تی ہے ۔ بعض ٹھوڑیوں پر بالوں کا ایک جزیرہ بھی پا یا جا تاہے جو فرینچ کٹ ڈاڑھی کہلا تا ہے۔ دنیا کی بڑھتی ہؤی آبادی کو دیکھ کر لو گ اب نہ صرف بال بچّوں سے بلکہ چہرہ پر اگنے والے با لوں سے بھی ڈر نے لگے ہیں ۔ اسی لئےیہ خطّہ کبھی سیفٹی ریزر کی زد میں رہتاہے، کبھی سیدھے اور کبھی الٹے استرے سے مونڈھا جاتا ہے ۔ اوزیادہ ترزبانوں کی چلتی ہو ءی قینچیوں کے درمیان پھنسا رہتا ہے ۔
ٍ لوگ کہتے ہیں ڈاڑھی بزرگی کیی علامت ہے اور مونچھ مردانگی کی نشانی ۔گذشتہ دنوں چند عقورتوں کے چہرے پرہلکی ہلکی مونچھیں دیکھ کرہم قدرت کی منصف مزاجی کے قا ءل ہو گۓ کہ اس نے مر دانگی پر مردوں کی اجاہ داری نہ رکھی۔ بلکہ عورتوں کو بھی اس سے معقول حصّہ عطا کیا ۔
مونچھوں کی عقلمندی دیکھٔے کہ انھوں نے مردانگی کو اپنے ساتھ وابسہ کر لیا۔ اسی لٔے بن مونچھوں والے کبھی کبھار ہی مونچھ والوں کی شان میں کچھ کہنے کی جرآت کرتے ہیں ۔اس کے برعکس ڈاڑھیاں اپنی بزرگی میں گم رہیں،یہی وجہ ہے کہ سال بھرکا بچّہ بھی گود میں پہنچتے ہی سب سے پہلا حملہ ڈاڑھی پر کرتا ہے ۔ بال ترشواتے وقت حجّام کی سرر زور قینچی بھی با ربار ڈاڑھی کا رخ کرتی ہے ۔ مائیں اپنے بچّوں کو یہ کہہ کر ڈراتی ہیں کہ سو جا نہیں تو ڈاڑھی والا بڈّھا آ جا ٔے گا ۔
پہلے پہل ہم آٔ ئینہ میں اپنا چہرہ دیکھتے سبزہ دیکھ کخیال آتا تھا کہ شاید ہماری ذات میں کوئ بزرگ چھپے بیٹھے ہیں اوربا ہرآ ناچاہتے ہیں ،ہم ہر بار استرا اٹھا کران کی راہ کھوٹی کردیا کرتے تھے ، مگر وہ تو جان کو ہورہے تھے ۔
در اصل آ دمی اپنے اندر کے اس بزرگ او ذمّد دار آ دمی کو اپنانے سے کترا تا ہے ۔ لوگ اسی لٔے بلا ناغہ شیو بنانے کو اپنا شیوہ بنا ٔے ہؤے ہیں۔
لو گوں کو یہ فکر دامن گیر ہے کہ چہرے پرکھونٹیاں زیادہ بڑھ گٔیں تو کچھھ خاص قسم کے یو نی فارم لاکر ان پر ٹانگ دۓ جا ٔیں گے کہ لو انھیں پہنو ۔ اس خام خیالی کے با وجود ڈاڑھیاںمعرضِ وجود میں آ تی ہیں ۔ بچّوں کو اور ڈاڑھیوں کو پیدا ہو نے سے بھلا کون روک سکتا ہے ۔
ڈاڑھیوں کے پیدا ہو نے کی کئ وجوہات ہیں ۔ کبھی مذہب بزرگانہ شان کے ساتھ ڈاڑھی کے روپ میں جلوہ افروز ہو تا ہے کبھی کو ئ فیشن ڈاڑھی کی شکل میں اپنی بہار دکھا تا ہے ۔بعض اوقات خود نما ٔی کے ہاتھ ڈاڑھی بڑھاتے ہیں اور ڈاڑھی سمیت چند تصویریں کھنچوانے کے بعد پہلے جیسا نظرآ نے کی خواہش ڈاڑھی پر استرا پھیر دیتی ہے۔
ٍ لوگ کہتے ہیں ڈاڑھی بزرگی کیی علامت ہے اور مونچھ مردانگی کی نشانی ۔گذشتہ دنوں چند عقورتوں کے چہرے پرہلکی ہلکی مونچھیں دیکھ کرہم قدرت کی منصف مزاجی کے قا ءل ہو گۓ کہ اس نے مر دانگی پر مردوں کی اجاہ داری نہ رکھی۔ بلکہ عورتوں کو بھی اس سے معقول حصّہ عطا کیا ۔
مونچھوں کی عقلمندی دیکھٔے کہ انھوں نے مردانگی کو اپنے ساتھ وابسہ کر لیا۔ اسی لٔے بن مونچھوں والے کبھی کبھار ہی مونچھ والوں کی شان میں کچھ کہنے کی جرآت کرتے ہیں ۔اس کے برعکس ڈاڑھیاں اپنی بزرگی میں گم رہیں،یہی وجہ ہے کہ سال بھرکا بچّہ بھی گود میں پہنچتے ہی سب سے پہلا حملہ ڈاڑھی پر کرتا ہے ۔ بال ترشواتے وقت حجّام کی سرر زور قینچی بھی با ربار ڈاڑھی کا رخ کرتی ہے ۔ مائیں اپنے بچّوں کو یہ کہہ کر ڈراتی ہیں کہ سو جا نہیں تو ڈاڑھی والا بڈّھا آ جا ٔے گا ۔
پہلے پہل ہم آٔ ئینہ میں اپنا چہرہ دیکھتے سبزہ دیکھ کخیال آتا تھا کہ شاید ہماری ذات میں کوئ بزرگ چھپے بیٹھے ہیں اوربا ہرآ ناچاہتے ہیں ،ہم ہر بار استرا اٹھا کران کی راہ کھوٹی کردیا کرتے تھے ، مگر وہ تو جان کو ہورہے تھے ۔
در اصل آ دمی اپنے اندر کے اس بزرگ او ذمّد دار آ دمی کو اپنانے سے کترا تا ہے ۔ لوگ اسی لٔے بلا ناغہ شیو بنانے کو اپنا شیوہ بنا ٔے ہؤے ہیں۔
لو گوں کو یہ فکر دامن گیر ہے کہ چہرے پرکھونٹیاں زیادہ بڑھ گٔیں تو کچھھ خاص قسم کے یو نی فارم لاکر ان پر ٹانگ دۓ جا ٔیں گے کہ لو انھیں پہنو ۔ اس خام خیالی کے با وجود ڈاڑھیاںمعرضِ وجود میں آ تی ہیں ۔ بچّوں کو اور ڈاڑھیوں کو پیدا ہو نے سے بھلا کون روک سکتا ہے ۔
ڈاڑھیوں کے پیدا ہو نے کی کئ وجوہات ہیں ۔ کبھی مذہب بزرگانہ شان کے ساتھ ڈاڑھی کے روپ میں جلوہ افروز ہو تا ہے کبھی کو ئ فیشن ڈاڑھی کی شکل میں اپنی بہار دکھا تا ہے ۔بعض اوقات خود نما ٔی کے ہاتھ ڈاڑھی بڑھاتے ہیں اور ڈاڑھی سمیت چند تصویریں کھنچوانے کے بعد پہلے جیسا نظرآ نے کی خواہش ڈاڑھی پر استرا پھیر دیتی ہے۔
No comments:
Post a Comment