''کیا تم اسے پنجرہ میں کھلا آسمان دے سکتے ہو ،جس میں وہ اپنے ساتھوں کے ساتھ اڑ سکے ،کیا اسے وہ آزادہوادے سکتے ہو جس میں وہ پنکھ پسار کر جدھر چاہے چلا جائے،کیا تم اسے وہ زندگی دے سکتے ہوجسے کوئی دروازہ کوئی دیوار نہ روک سکے ؟''
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
طوطے کی آواز: مٹّھو میاں پڑھو ،ٹّھو میاں پڑھو)
دادا : اے خدا کے بندے آدھے گھنٹے سے پڑھ ہی تو رہا ہوں اور تمہاری طرح ٹائیں ٹائیں کرکے تھک گیا ہوں مگر اس گھر میں کوئی میری سنتا بھی ہے ۔(دروازہ کی طرف دیکھ کر )ارے ببلو،عائشہ کوئی ہے ۔چائے تیّار ہو چکی ہو تو لے آؤ ۔ اس بوڑھے کی تو اس گھر میں کسی کو فکر ہی نہیں ۔
ببلو: ( چائے لے کر آتا ہے )لیجئے دادا جان آپ کی چائے ۔
دادا ہاں شاباش بیٹا! چائے کے بغیر تو میرا دم نکلا جا رہا تھا ۔
(چائے پیتے ہوئے طوطے کی طرف دیکھ کر ) بیٹا، تم نے اس بے زبان کو بھی کچھ دانا پانی دیا کہ نہیں؟اور اسے یہاں کیوں رکھ دیا ۔ کوئی طوطے کو ڈرائینگ روم میںرکھتا ہے بھلا؟گیلری میں اچّھی ہو ا کھا رہا تھا ۔
ببلو دادا جان وہاں اسے سردی لگ جائے گی ۔دیکھئے نا کیسے پر سمیٹ کر بیٹھا ہے ۔
داداجان : میں تو کہتا ہوں بیٹا کسی دن تم اسے اڑا دو ۔کیوں بیچارہ بے زبان کی بد دعا لیتے ہو ۔ خدا نے اسے آزاد پیدا کیا تھا ۔تم نے اسے لوہے کے پنجرہ میں قید کر دیا ۔
ببلو : نہیں دادا جان قید وید کچھ نہیں ۔دیکھئے نا کتنے مزہ سے رہتا ہے ۔کھاتا ہے ہم اسے گاجر ،ٹماٹر، لڈّو کیسی شاندار چیزیں کھلاتے ہیں ۔ باہر تھوڑی ملیں اسے یہ سب چیزیں ۔
داداجان : بھئی جس خدا نے پیٹ دیا ہے وہ دانہ پانی بھی دے گا ۔ آزادی تو آزادی ہوتی ہے۔میں تمہیں کیسے سمجھاؤں ۔کیا تم اسے پنجرہ میں کھلا آسمان دے سکتے ہو ،جس میں وہ اپنے ساتھوں کے ساتھ اڑ سکے ،کیا اسے وہ آزادہوادے سکتے ہو جس میں وہ پنکھ پسار کر جدھر چاہے چلا جائے،کیا تم اسے وہ زندگی دے سکتے ہوجسے کوئی دروازہ کوئی دیوار نہ روک سکے ؟
ببلو: دادا جان !طوطا آپ کی طرح یہ سب تھوڑا ہی سوچتا ہے ۔وہ تو یہاں بہت خوش ہے کیوں مٹّھو میاں خوش ہونا؟ بو لو بولو!
طوطی کی آواز: مٹّھو میاں پڑھو ،ٹّھو میاں پڑھو۔
ببلو : دیکھئے بول رہا ہے نا ۔
دادا: ارے یہ بھی تو سمجھو وہ کیا بول رہا ہے ۔ مٹّھو میاں پڑھو ،ٹّھو میاں پڑھو۔یعنی تم ابھی جاہل ہو ۔ببلو میاں تم پڑھو اور سمجھو کہ آزادی کیا ہوتی ہے اور مجھے رہا کر دو ۔
(کال بیل کی آواز )دیکھو شاید رکشہ والا آگیا۔میں چلتا ہوں ۔ ( چھڑی اٹھاتے ہیں ۔ببلو باہر جاکر آتا ہے )
ببلو: رکشہ والا آگیا۔
دادا: اچّھا، تمہاری امّی تو جا چکی ہیں۔باجی بھی تیّار ہیں دیکھو تم گھر میں اکیلے رہوگے ۔ذرا دیکھ بھال کر رہنا اور وہ تمہارے شریر دوستوں کی ٹولی کو گھر میں نہ گھسنے دینا ۔
ببلو: جی داددا جان ۔
عائشہ: (اندر سے آتی ہے )گھسنے نہ دینا کیا دادا جان اس نے تو انھیں باقاعدہ دعوت دے رکھی ہے کہ خوب موج مستی کریں گے ۔
۲ببلو : دیکھئے نا یہ ہمیشہ میرے پیچھے پڑی رہتی ہے ۔جب تمہاری سہیلیاں آتی ہیں اور ان کے لیے پکوڑے ،شربت ،اور کسٹرڈ بنتا ہے تب کچھ نہیں۔
عائشہ: میری سہیلیاں تمہارے دوستوں کی طرح بندروں کی ٹولی نہیں ہے جو سارے گھر کو اتھل پتھل کر کے رکھ دیں ، آوارہ کہیں کے ۔چلئے دادا جان میں بھی آپ ہی کے ساتھ چل رہی ہوں ۔
دادا: ہاں چلو ۔اور ببلو تم یہ دروازہ بند کرلو ۔
ببلو: السلام علیکم دادا جان ۔
داداجان : وعلیکم السلام ،۔۔۔اور باجی کو آداب نہیں کہو گے؟ ،تمہارا جھگڑا اپنی جگہ دعا سلام اپنی جگہ۔
ببلو: آداب باجی!
عائشہ: خدا حافظ ۔
( دونوں جاتے ہیں) (تھوڑی دیر بعد دروازہ کھلتا ہے۔چنگو منگو اندر آتے ہیں )
چنگو : لیجئے صاحبان قدر دان ! چنگو اینڈ منگو کمپنی کے پاپڑ ۔
منگو : ببلو ! تمہاری ممی ہیں گھر پر ؟ پوچھو تو پاپڑ خریدنا ہے کیا ؟
ببلو: نہیں ،ممی اسکول گئی ہیں کچھ خریدنا نہیں ہے۔چلو تم لوگ ابھی جاؤ بعد میں آنا۔
چنگو : ارے آج ہم ایک نیا آئیٹم لائے ہیں، خریدو گے ؟
ببلو: ایٹم ہوکہ یٹم بم ۔کچھ نہیں خریدنا،تم لوگ نکلو یہاں سے ۔
منگو: بھئی بہت تھک گئے ہیں ،بھوک بھی غضب کی لگی ہے ،ارے پانی پلاؤ ،کچھ کھلاؤ ۔
چنگو : ارے ! اس طرف تو سیب بھی رکھا ہے ۔
ببلو : اے! سیب کو ہاتھ نہیں لگانا۔میرے دا دا جان کے لئے ہے وہ ۔(منگو ببلو کا ہاتھ پکڑ لیتا ہے اور چنگو آگے بڑھ کر ٹیبل پر رکھا سیب اٹھا کر کھاتا ہے )
میں کہہ رہا ہو اسے ہاتھ نہیں لگا نا اور تم بد معاش کہیں کے ۔۔
منگو : ارے جانے دو یار ،بھوکا ہے بے چارہ ، اچّھا ،تم یہ بتا ؤ تمہارے گھر فون ہے کیا ،ذرا لال بلڈنگ والی آنٹی سے بات کرنا ہے۔
چنگو : منگو فون ہے ! مو بائیل ہے موبائیل ۔یہ ٹیبل پہ رکھا ہے ۔آنٹی کو بتادے کہ ہم لوگ پاپڑ لے کر آ رہے ہیں ۔
منگو : ( ببلو کو چھوڑ کر فون کی طرف بڑھتا ہے ۔ ) جھوٹ بولتے
ہو ئے شرم نہیں آ تی ، فون رکھتے ہو اور کہتے ہو فون ہیں ہے ۔
ببلو : چنگو! سیب رکھ دے میرے دادا جان کے ہیں وہ ۔نکل جاؤ تم لوگ یہاں سے ۔
چنگو: اے زیادہ دادا گیری مت دکھا،تجھے پتہ ہے ہم لوگ کون ہیں انگریزوں کے زمانے کے سپاہی ہیں ،تجھے مار مار کے ہندستان بنادیں گے ۔
ببلو: دیکھو یہاں غنڈہ گردی نہ کرو ورنہ۔۔۔
منگو: ورنہ کیا ۔۔۔ورنہ کیا کرلے گا ؟بہت بہادر سمجھتا ہے خود کو ،بہادر شاہ سمجھتا ہے اپنے آپ کو ۔۔
چنگو : بیٹا !تجھے مار مار کے یہیں سلادیں گے ۔تیرے خون سے یہ فرش رنگین بنا دیں گےَ۔
منگو تیرے گھر کو ہم رنگون بنادیں گے ۔ ( چنگو موبائیل چھوڑ کر ببلو کا گریبان پکڑ لیتا ہے ) ہم تجھے اسی گھر میںقید کردیں گے ۔
چنگو: چلو اسے یہیں قید کرکے نکل جاتے ہیں ۔آجا منگو ۔( دونوں دروازہ کی طرف بڑھتے ہیں )
ببلو: نہیں نہیں !مجھے بند مت کرو !ارے رکو ! بدمعاشو! ( دونوں باہر جاکر دروازہ باہر سے بند کر دیتے ہیں )
ببلو: ارے دروازہ کھولو ۔کوئی ہے؟ یہ لوگ مجھے اندر قید کرکے چلے گئے ۔ ارے کوئی ہے! یہاں سے تو آواز بھی باہر نہیں جاتی ۔ (کمرہ میں ٹہلنے لگتا ہے۔اپنے آپ سے کہتا ہے)
امّی بھی شام میں آئیں گی ۔دادا بھی ڈاکٹر کے ہاں چلے ہوں گے ۔(روتے ہو ئے آ کر کرسی پر بیٹھتا ہے ۔ تبھی کال بیل کی آواز سنائی دیتی ہے )کوئی آیا ہے ۔ دروازہ باہر سے بند ہے (چیخ کر) دروازہ باہر سے بند ہے۔
پوسٹ مین : پوسٹ مین ۔( ایک خط دروازہ کے اندر گرتا ہے۔)
ببلو: پوسٹ مین ،کہیں چلا نہ جائے ارے ددروازہ کھولو ،پوسٹ مین دروازہ باہر سے بند ہے ۔دروازہ کھولو ۱ ( لگتا ہے پوسٹ مین بھی چلا گیا ۔یہ گھر تو میرے لیے قید خانہ بن گیا ( طوطے کی طرف دیکھ کر) دیکھ طوطے آج میں بھی تیری طرح اس گھر کے پنجرہ میں قید ہو گیا ہوں ۔ یہ تو میرا گھر ہے پھر بھی جی چاہتا ہے دیوارین توڑ کر نکل جاؤ ں۔ تم یہاں کب سے قید ہو ۔ دادا سچ ہی کہتے تھے ،میں نے قید کرکے تم پر ظلم کیا ہے ۔ مجھے معاف کردو طوطے مجھے معاف کردو ( رونے لگتا ہے ۔تھوڑی دیر بعد ادھر ادھر ٹہلتا ہے ) ارے ہاں میںکسی کو فون کرکے بلا سکتا ہوں ۔ نازیہ آنٹی۔ ۔نہیں۔۔ شمیم انکل، وہ دونوں تو آ فس گئے ہوں گے ۔ زاہد۔۔ ،نہیں ان کے گھر کا توفون کٹ چکا ہے۔ اب تو صرف انجم آ نٹی بچی ہیں ۔ (فون کرتا ہے) انجم آ نٹی! میں ببلو بول رہا ہوں ۔آپ پلیز جلدی میرے گھر آجائیے ،مجھے میرے دوستوںنے میرے گھر میںقید کر دیا ہے۔(سسکنے لگتا ہے ) ۔۔۔ ،کیا آ پ نہیں آ سکتیں۔۔۔ ۔آپ کب سیڑھوں سے گر گئیں۔۔ ۔ زیادہ چوٹ تو نہیں آ ئی۔۔کیا؟فریکچر ، اوہ ! کیا گھر میں اور کوئی نہیں ہے ( فون رکھ دیتا ہے ) اب تو یہاں کوئی نہیں آ ئے گا ۔ (کال بیل کی آ واز پر چونک کر اٹھتا ہے ) دروازہ باہر سے بند ہے (چیخ کر دروازہ باہر سے بند ہے دروازہ کھولو !
( دروازہ کھلتا ہے، دادا اندر آ تے ہیں)
دادا : ارے یہ دروازہ باہر سے کس نے بند کیا تھا ؟ اور تم اندر۔۔۔؟
ببلو : میرے دوست یہاں آ ئے تھے اور ۔۔۔۔( داداسے لپٹ کر رونے لگتا ہے )
دادا : دوست ؟اور تمہیں باہر سے بند کر کے چلے گئے؟ ۔ دشمن ہیں تمہارے د شمن !میں نے تو تمہیںپہلے ہی کہا تھا، ان شیطانوں کو اند ر نہ آ نے دینا ۔آ ج میں دواخانہ گیا تو پتہ چلا ڈاکٹر نہیں ہے ۔ اس لئے میں جلدی چلا آ یا ورنہ ۔۔۔۔خیر ،سنبھالو اپنے آ پ کو۔۔میں ذدا کپڑے بدل لوں ۔۔( اندر جا تے ہیں ۔ ببلو ان کے جانے کے بعد کچھ سوچتا ہے اور طوطے کا پنجرہ باہر لے جاتا ہے اور پھر واپس خالی پنجرہ لا کر رکھ دیتا ہے ۔
دادا: ( اندر آ تے ہو ئے ) اور بیٹا تم نے صبح سے کچھ کھایا پیا کہ نہیں ،کچھ تھا کہ نہیںتمہارے کھانے کے لئے؟
ببلو : کھانے کے لیے تو بہت کچھ تھا دادا جان ،مگر مجھے آج پہلی مرتبہ پتہ چلا کہ اگر کسی کو قید کر دیا جائے تو دنیا کی کو ئی نعمت اچّھی نہیں لگتی ۔
دادا: یہی تو میں تمہیں سمجھاتا رہا ہوں بیٹے کہ تم اس طوطے کو ۔۔۔۔
( پنجرہ کی طرف دیکھتے ہو ئے ) ارے تمہا را طو طا کہاں گیا ؟
ببلو : میں نے اسے اڑا دیا ۔۔دادا جان آ ج میری سمجھ میں یہ بات آ گئی کہ آزادی کیا ہو تی ہے۔آج میں نے طوطے کو آ زاد کر دیا ۔
دادا : شابا ش میرے لال شاباش!( دادا ببلو کو لپٹا لیتے ہیں )۔
( پر دہ گر تا ہے)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آزادی
(یک بابی ڈرامہ)
محمّد اسد اللہ
منظر
(ڈرائنگ روم میں دو ٹیبل اور دو کر سیاں دیوار سے لگی ہوئی ہیں ۔ایک ٹیبل پر پلیٹ میں تین سیب رکھے ہیں ۔قریب ہی ٹیلی فون ہے ایک گوشہ میں رکھے ہوئے چھوٹے ٹیبل پر پنجرہ میں طوطا ہے اور ٹیبل کے نیچے ایک بڑی گیند پڑی ہے۔دادا جان کرسی پر بیٹھے اخبار پڑھ رہے ہیں ۔ طوطے کی ٹائیں ٹائیں سنائی دیتی ہے۔۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
طوطے کی آواز: مٹّھو میاں پڑھو ،ٹّھو میاں پڑھو)
دادا : اے خدا کے بندے آدھے گھنٹے سے پڑھ ہی تو رہا ہوں اور تمہاری طرح ٹائیں ٹائیں کرکے تھک گیا ہوں مگر اس گھر میں کوئی میری سنتا بھی ہے ۔(دروازہ کی طرف دیکھ کر )ارے ببلو،عائشہ کوئی ہے ۔چائے تیّار ہو چکی ہو تو لے آؤ ۔ اس بوڑھے کی تو اس گھر میں کسی کو فکر ہی نہیں ۔
ببلو: ( چائے لے کر آتا ہے )لیجئے دادا جان آپ کی چائے ۔
دادا ہاں شاباش بیٹا! چائے کے بغیر تو میرا دم نکلا جا رہا تھا ۔
(چائے پیتے ہوئے طوطے کی طرف دیکھ کر ) بیٹا، تم نے اس بے زبان کو بھی کچھ دانا پانی دیا کہ نہیں؟اور اسے یہاں کیوں رکھ دیا ۔ کوئی طوطے کو ڈرائینگ روم میںرکھتا ہے بھلا؟گیلری میں اچّھی ہو ا کھا رہا تھا ۔
ببلو دادا جان وہاں اسے سردی لگ جائے گی ۔دیکھئے نا کیسے پر سمیٹ کر بیٹھا ہے ۔
داداجان : میں تو کہتا ہوں بیٹا کسی دن تم اسے اڑا دو ۔کیوں بیچارہ بے زبان کی بد دعا لیتے ہو ۔ خدا نے اسے آزاد پیدا کیا تھا ۔تم نے اسے لوہے کے پنجرہ میں قید کر دیا ۔
ببلو : نہیں دادا جان قید وید کچھ نہیں ۔دیکھئے نا کتنے مزہ سے رہتا ہے ۔کھاتا ہے ہم اسے گاجر ،ٹماٹر، لڈّو کیسی شاندار چیزیں کھلاتے ہیں ۔ باہر تھوڑی ملیں اسے یہ سب چیزیں ۔
داداجان : بھئی جس خدا نے پیٹ دیا ہے وہ دانہ پانی بھی دے گا ۔ آزادی تو آزادی ہوتی ہے۔میں تمہیں کیسے سمجھاؤں ۔کیا تم اسے پنجرہ میں کھلا آسمان دے سکتے ہو ،جس میں وہ اپنے ساتھوں کے ساتھ اڑ سکے ،کیا اسے وہ آزادہوادے سکتے ہو جس میں وہ پنکھ پسار کر جدھر چاہے چلا جائے،کیا تم اسے وہ زندگی دے سکتے ہوجسے کوئی دروازہ کوئی دیوار نہ روک سکے ؟
ببلو: دادا جان !طوطا آپ کی طرح یہ سب تھوڑا ہی سوچتا ہے ۔وہ تو یہاں بہت خوش ہے کیوں مٹّھو میاں خوش ہونا؟ بو لو بولو!
طوطی کی آواز: مٹّھو میاں پڑھو ،ٹّھو میاں پڑھو۔
ببلو : دیکھئے بول رہا ہے نا ۔
دادا: ارے یہ بھی تو سمجھو وہ کیا بول رہا ہے ۔ مٹّھو میاں پڑھو ،ٹّھو میاں پڑھو۔یعنی تم ابھی جاہل ہو ۔ببلو میاں تم پڑھو اور سمجھو کہ آزادی کیا ہوتی ہے اور مجھے رہا کر دو ۔
(کال بیل کی آواز )دیکھو شاید رکشہ والا آگیا۔میں چلتا ہوں ۔ ( چھڑی اٹھاتے ہیں ۔ببلو باہر جاکر آتا ہے )
ببلو: رکشہ والا آگیا۔
دادا: اچّھا، تمہاری امّی تو جا چکی ہیں۔باجی بھی تیّار ہیں دیکھو تم گھر میں اکیلے رہوگے ۔ذرا دیکھ بھال کر رہنا اور وہ تمہارے شریر دوستوں کی ٹولی کو گھر میں نہ گھسنے دینا ۔
ببلو: جی داددا جان ۔
عائشہ: (اندر سے آتی ہے )گھسنے نہ دینا کیا دادا جان اس نے تو انھیں باقاعدہ دعوت دے رکھی ہے کہ خوب موج مستی کریں گے ۔
۲ببلو : دیکھئے نا یہ ہمیشہ میرے پیچھے پڑی رہتی ہے ۔جب تمہاری سہیلیاں آتی ہیں اور ان کے لیے پکوڑے ،شربت ،اور کسٹرڈ بنتا ہے تب کچھ نہیں۔
عائشہ: میری سہیلیاں تمہارے دوستوں کی طرح بندروں کی ٹولی نہیں ہے جو سارے گھر کو اتھل پتھل کر کے رکھ دیں ، آوارہ کہیں کے ۔چلئے دادا جان میں بھی آپ ہی کے ساتھ چل رہی ہوں ۔
دادا: ہاں چلو ۔اور ببلو تم یہ دروازہ بند کرلو ۔
ببلو: السلام علیکم دادا جان ۔
داداجان : وعلیکم السلام ،۔۔۔اور باجی کو آداب نہیں کہو گے؟ ،تمہارا جھگڑا اپنی جگہ دعا سلام اپنی جگہ۔
ببلو: آداب باجی!
عائشہ: خدا حافظ ۔
( دونوں جاتے ہیں) (تھوڑی دیر بعد دروازہ کھلتا ہے۔چنگو منگو اندر آتے ہیں )
چنگو : لیجئے صاحبان قدر دان ! چنگو اینڈ منگو کمپنی کے پاپڑ ۔
منگو : ببلو ! تمہاری ممی ہیں گھر پر ؟ پوچھو تو پاپڑ خریدنا ہے کیا ؟
ببلو: نہیں ،ممی اسکول گئی ہیں کچھ خریدنا نہیں ہے۔چلو تم لوگ ابھی جاؤ بعد میں آنا۔
چنگو : ارے آج ہم ایک نیا آئیٹم لائے ہیں، خریدو گے ؟
ببلو: ایٹم ہوکہ یٹم بم ۔کچھ نہیں خریدنا،تم لوگ نکلو یہاں سے ۔
منگو: بھئی بہت تھک گئے ہیں ،بھوک بھی غضب کی لگی ہے ،ارے پانی پلاؤ ،کچھ کھلاؤ ۔
چنگو : ارے ! اس طرف تو سیب بھی رکھا ہے ۔
ببلو : اے! سیب کو ہاتھ نہیں لگانا۔میرے دا دا جان کے لئے ہے وہ ۔(منگو ببلو کا ہاتھ پکڑ لیتا ہے اور چنگو آگے بڑھ کر ٹیبل پر رکھا سیب اٹھا کر کھاتا ہے )
میں کہہ رہا ہو اسے ہاتھ نہیں لگا نا اور تم بد معاش کہیں کے ۔۔
منگو : ارے جانے دو یار ،بھوکا ہے بے چارہ ، اچّھا ،تم یہ بتا ؤ تمہارے گھر فون ہے کیا ،ذرا لال بلڈنگ والی آنٹی سے بات کرنا ہے۔
چنگو : منگو فون ہے ! مو بائیل ہے موبائیل ۔یہ ٹیبل پہ رکھا ہے ۔آنٹی کو بتادے کہ ہم لوگ پاپڑ لے کر آ رہے ہیں ۔
منگو : ( ببلو کو چھوڑ کر فون کی طرف بڑھتا ہے ۔ ) جھوٹ بولتے
ہو ئے شرم نہیں آ تی ، فون رکھتے ہو اور کہتے ہو فون ہیں ہے ۔
ببلو : چنگو! سیب رکھ دے میرے دادا جان کے ہیں وہ ۔نکل جاؤ تم لوگ یہاں سے ۔
چنگو: اے زیادہ دادا گیری مت دکھا،تجھے پتہ ہے ہم لوگ کون ہیں انگریزوں کے زمانے کے سپاہی ہیں ،تجھے مار مار کے ہندستان بنادیں گے ۔
ببلو: دیکھو یہاں غنڈہ گردی نہ کرو ورنہ۔۔۔
منگو: ورنہ کیا ۔۔۔ورنہ کیا کرلے گا ؟بہت بہادر سمجھتا ہے خود کو ،بہادر شاہ سمجھتا ہے اپنے آپ کو ۔۔
چنگو : بیٹا !تجھے مار مار کے یہیں سلادیں گے ۔تیرے خون سے یہ فرش رنگین بنا دیں گےَ۔
منگو تیرے گھر کو ہم رنگون بنادیں گے ۔ ( چنگو موبائیل چھوڑ کر ببلو کا گریبان پکڑ لیتا ہے ) ہم تجھے اسی گھر میںقید کردیں گے ۔
چنگو: چلو اسے یہیں قید کرکے نکل جاتے ہیں ۔آجا منگو ۔( دونوں دروازہ کی طرف بڑھتے ہیں )
ببلو: نہیں نہیں !مجھے بند مت کرو !ارے رکو ! بدمعاشو! ( دونوں باہر جاکر دروازہ باہر سے بند کر دیتے ہیں )
ببلو: ارے دروازہ کھولو ۔کوئی ہے؟ یہ لوگ مجھے اندر قید کرکے چلے گئے ۔ ارے کوئی ہے! یہاں سے تو آواز بھی باہر نہیں جاتی ۔ (کمرہ میں ٹہلنے لگتا ہے۔اپنے آپ سے کہتا ہے)
امّی بھی شام میں آئیں گی ۔دادا بھی ڈاکٹر کے ہاں چلے ہوں گے ۔(روتے ہو ئے آ کر کرسی پر بیٹھتا ہے ۔ تبھی کال بیل کی آواز سنائی دیتی ہے )کوئی آیا ہے ۔ دروازہ باہر سے بند ہے (چیخ کر) دروازہ باہر سے بند ہے۔
پوسٹ مین : پوسٹ مین ۔( ایک خط دروازہ کے اندر گرتا ہے۔)
ببلو: پوسٹ مین ،کہیں چلا نہ جائے ارے ددروازہ کھولو ،پوسٹ مین دروازہ باہر سے بند ہے ۔دروازہ کھولو ۱ ( لگتا ہے پوسٹ مین بھی چلا گیا ۔یہ گھر تو میرے لیے قید خانہ بن گیا ( طوطے کی طرف دیکھ کر) دیکھ طوطے آج میں بھی تیری طرح اس گھر کے پنجرہ میں قید ہو گیا ہوں ۔ یہ تو میرا گھر ہے پھر بھی جی چاہتا ہے دیوارین توڑ کر نکل جاؤ ں۔ تم یہاں کب سے قید ہو ۔ دادا سچ ہی کہتے تھے ،میں نے قید کرکے تم پر ظلم کیا ہے ۔ مجھے معاف کردو طوطے مجھے معاف کردو ( رونے لگتا ہے ۔تھوڑی دیر بعد ادھر ادھر ٹہلتا ہے ) ارے ہاں میںکسی کو فون کرکے بلا سکتا ہوں ۔ نازیہ آنٹی۔ ۔نہیں۔۔ شمیم انکل، وہ دونوں تو آ فس گئے ہوں گے ۔ زاہد۔۔ ،نہیں ان کے گھر کا توفون کٹ چکا ہے۔ اب تو صرف انجم آ نٹی بچی ہیں ۔ (فون کرتا ہے) انجم آ نٹی! میں ببلو بول رہا ہوں ۔آپ پلیز جلدی میرے گھر آجائیے ،مجھے میرے دوستوںنے میرے گھر میںقید کر دیا ہے۔(سسکنے لگتا ہے ) ۔۔۔ ،کیا آ پ نہیں آ سکتیں۔۔۔ ۔آپ کب سیڑھوں سے گر گئیں۔۔ ۔ زیادہ چوٹ تو نہیں آ ئی۔۔کیا؟فریکچر ، اوہ ! کیا گھر میں اور کوئی نہیں ہے ( فون رکھ دیتا ہے ) اب تو یہاں کوئی نہیں آ ئے گا ۔ (کال بیل کی آ واز پر چونک کر اٹھتا ہے ) دروازہ باہر سے بند ہے (چیخ کر دروازہ باہر سے بند ہے دروازہ کھولو !
( دروازہ کھلتا ہے، دادا اندر آ تے ہیں)
دادا : ارے یہ دروازہ باہر سے کس نے بند کیا تھا ؟ اور تم اندر۔۔۔؟
ببلو : میرے دوست یہاں آ ئے تھے اور ۔۔۔۔( داداسے لپٹ کر رونے لگتا ہے )
دادا : دوست ؟اور تمہیں باہر سے بند کر کے چلے گئے؟ ۔ دشمن ہیں تمہارے د شمن !میں نے تو تمہیںپہلے ہی کہا تھا، ان شیطانوں کو اند ر نہ آ نے دینا ۔آ ج میں دواخانہ گیا تو پتہ چلا ڈاکٹر نہیں ہے ۔ اس لئے میں جلدی چلا آ یا ورنہ ۔۔۔۔خیر ،سنبھالو اپنے آ پ کو۔۔میں ذدا کپڑے بدل لوں ۔۔( اندر جا تے ہیں ۔ ببلو ان کے جانے کے بعد کچھ سوچتا ہے اور طوطے کا پنجرہ باہر لے جاتا ہے اور پھر واپس خالی پنجرہ لا کر رکھ دیتا ہے ۔
دادا: ( اندر آ تے ہو ئے ) اور بیٹا تم نے صبح سے کچھ کھایا پیا کہ نہیں ،کچھ تھا کہ نہیںتمہارے کھانے کے لئے؟
ببلو : کھانے کے لیے تو بہت کچھ تھا دادا جان ،مگر مجھے آج پہلی مرتبہ پتہ چلا کہ اگر کسی کو قید کر دیا جائے تو دنیا کی کو ئی نعمت اچّھی نہیں لگتی ۔
دادا: یہی تو میں تمہیں سمجھاتا رہا ہوں بیٹے کہ تم اس طوطے کو ۔۔۔۔
( پنجرہ کی طرف دیکھتے ہو ئے ) ارے تمہا را طو طا کہاں گیا ؟
ببلو : میں نے اسے اڑا دیا ۔۔دادا جان آ ج میری سمجھ میں یہ بات آ گئی کہ آزادی کیا ہو تی ہے۔آج میں نے طوطے کو آ زاد کر دیا ۔
دادا : شابا ش میرے لال شاباش!( دادا ببلو کو لپٹا لیتے ہیں )۔
( پر دہ گر تا ہے)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
No comments:
Post a Comment