سعادت حسن منٹو کی کر دار نگاری
محمّد اسد اللہ ، ناگپور
سعادت حسن منٹو اپنے شاہکار افسانوں کے سبب ایک عظیم فنکار مانے جاتے ہیں ۔ ان کی اس عظمت کے اجزائے ترکیبی ان کا اسلوب ،بے باک سماجی حقیقت نگاری ، کرداروں کا نفسیاتی تجزیہ کر نے کا ہنر ، فنِ افسانہ نگاری کے اسرار و رموز سے آ گہی اور اسے تخلیقی سطح پر برتنے کا سلیقہ اورانسانی زندگی کے مسائل اور اس کی پیچیدگیوں کو اپنی تخلیقات میں فنکارانہ انداز میں پیش کر نے کی صلا حیت ،اور دیگر اوصاف منٹو کی امتیازی خوبیوں کے طور پر بیان کئے جا تے ہیں ۔ لیکن منٹو کی بے مثال کر دار نگاری بھی بحیثیت افسانہ نگار اس کی عظمت میں برابر کی شر یک ہے۔ منٹو نے اپنے افسانوں اور ڈراموں میں متعدد کر دار پیش کئے جنھوں نے اردو ادب میں اپنی پہچان بنائی ۔منٹو کے یہاں ہمیں کرداروں کا ایک نگا رخانہ نظر آ تا ہے ۔ ٹو بہ ٹیک سنگھ ، بابو گو پی ناتھ ، سلطانہ ،سوگندھی ،موذیل،شاردا،سہائے، منظور ، مس مالا ، ایشر سنگھ استاد منگو خاں ، دو دا پہلوان، ممد بھائی وغیرہ ان میں چند نام ہیں ۔ان کر داروں میں بعض طوائفیں ہیں اور وہ لو گ بھی جن کا تعلّق قحبہ خانوں اور کو ٹھوں سے رہا ہے ۔چند اس پیشے سے وابستہ ہیں اور بعض اس دنیائے حسن کے اسیر ہیں۔ان کر داروں میں بیشتر نے اسے بدنام بھی کیا اس پر فحش نگار کا الزام لگایا گیا ۔ ان کرداروں کے انتخاب نے جہاں منٹو کو رسوا کیا وہیں اس کی شہرت کا سبب بھی بنے ۔انھی لو گوں میں منٹو انسان تلاش کر تا رہا ۔
منٹو نے اپنے آس پاس پیش آ نے والی ہر حر کت کو محسوس کیا اور ان واقعات و سانحات میں جن چیزوں نے اسے اندرتک جھنجھوڑ کر رکھ دیا وہ اس کے فن کے دائرے میں شامل ہو گیا۔اس نے جس گہرائی سے لوگوں کا مشاہدہ کیا اسے اسی فنّی چابک دستی کے ساتھ اپنے افسانوں کا مو ضوع بنایا ۔منٹو نے ان کر داروں کے وسیلے سے اپنے عہد کا بد نما چہرہ دکھایا اور زندگی کی ان حقیقتوں کو بے نقاب کیا جن کا نظارہ ہمارے لئے نا قابلَ بر داشت تھا ۔اس کا احساس منٹو کو بھی تھا اس کا اعتراف اس نے ان الفاظ میں کیا ہے ۔
" زمانے کے جس دور سے ہم اس وقت گزر رہے ہیں ،اگرآپ اس سے نا واقف ہیں ،تو میرے افسانے پڑھئے ۔اگر آ پ ان افسانوں کو بر داشت نہیں کر سکتے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ زمانہ ناقابلِ برداشت ہے ۔ مجھ میں جو برائیاں ہیں ،وہ اس عہد کی برائیاں ہیں ۔میری تحریر میں کو ئی نقص نہیں ۔جس نقص کو میرے نام سے منسوب کی جا تا ہے در اصل مو جودہ نظام کا نقص ہے ۔ "
(ادبِ جدید دستاویز ۔ص52)
مرد اور عورت دو نوں کے درجنوں نمونے اس کے کر داروں میں ہیں اور سارے کر دار بلیک اینڈ وہائٹ نہیں ہیں بلکہ اچّھے برے ،کم اچّھے کم برے اور بہت برے لوگ بھی ہیں جو سماج کے نام پر ایک کلنک کی طرح ہیں ۔ کسی مخصوص آیڈیا لوجی سے جڑے ہو ئے نہ ہو نے کی وجہ سے منٹو نے کچھ خاص قسم کے چہرے یا چند مثالی کر دار پیش کر نے کی کو شش نہیں کی بلکہ جس طرح دنیا میں ہر قسم کے لوگ پائے جاتے ہیں اسی طرح اس کے کر داروں میں زبر دست تنوّع مو جود ہے البتّہ منٹو کے کر دارون کی پیشکش میں ایک چیز جو قدرِ مشترک کی حیثیت رکھتی ہے وہ ہے، ان لو گوں میں سچّے انسان کی تلاش ۔ یہ کر دار برے سے برے ماحول میں رہنے کے با وجود اپنی فطرت کا کچھ حصّہ ، خیر کا کو ئی ذرّہ اپنی ذات کے جلو میں چھپا ئے رہتے ہیں ۔لوگ ان کے ظاہر سے ان کی شخصیت کا فیصلہ کر تے ہیں لیکن منٹو ان کی ذات کے نہاں خا نوں تک ہمیں لے جاتا ہے دکھا تا ہے کہ دیکھو انسان ایسے بھی ہو تے ہیں ۔ منٹوکے بعض کر دار مثلاً مو ذیل ۔بابو گو پی ناتھ ۔ وغیرہ اس بات کا ثبوت پیش کر تے ہیں کہ اس گھناؤ نے ماحول میں بھی انسانی قدریں نہ صرف باقی رہتی ہیں بلکہ ان کی معراج ہماری آ نکھیں خیرہ کر دیتی ہیں ۔
منٹو نے اپنےکر داروں کی نفسیاتی الجھنیں اور اندرونی کشمکش کو زبان عطا کی ۔ شاہ دولے کا چوہا کی سلیمہ اپنی اولاد کی جدائی کےکرب سے گزرتی ہے ۔اس افسانے کی مر کزی کر دار ،سلیمہ کے کر دار پر روشنی ڈالتے ہو ئے ڈاکٹر شکیل الرحمٰن لکھتے ہیں۔
" اس افسانے میں سعادت حسن منٹو کی فنکاری عروج پر ہے ۔فنکاری کی عظمت یہ ہے کہ سلیمہ کی ذات اور حالا ت کی کشمکش میں شخصیت کو اس طرح ابھا ر گیا ہے کہ بڑی شدّت سے محسوس ہو تا ہے کہ یہ عورت اپنی داخلی تکمیل سے محروم ہے ۔ اس کی نفسیاتی الجھن اور پیچیدگی اس افسانے کی تخلیقی سطح کو بلند کر دیتی ہے ۔ ۔۔،سلیمہ اپنے شوہر اور بچّوں کے ساتھ رہتے ہو ئے بھی تنہا ہے اسے ہر لمحہ محسوس ہو تا ہے جیسے پہلے بیٹے کو کھو دینے کی وجہ سے اس کی ذا ت کی تکمیل نہیں ہو سکی ،بہت بڑی کمی ہے ،ایک خلا سا ہے ۔ممتا ہر لمحہ جا گی ہو ئی اور روحانی کر ب اور اضطراب میں اضافہ کر رہی ہے ۔ سعادت حسن منٹو کا یہ کر دار باطن کی گہری المناکی سے ابھر تا ہے اور مسلسل داخلی خود کلامی میں گرفتار رہتا ہے ،داخلی خود کلامی باطن کی ویرانی کو حد درجہ محسوس بنا تی ہے ۔ کر دار کا سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ وہ اپنے نقصان کوکسی چیز سے پو را نہیں کر سکتا۔ سعادت حسن منٹو کی فنکاری کا عروج وہاں ہے جہاں سلیمہ کا مسلسل سوچتا ہوا ذہن لا شعور کے اندھیرے سے چھوٹے چھوٹے چوہوں کو نکالتا رہتا ہے ۔
( شاہ دولے کا چوہا ۔ایک تجزیہ ۔ ڈاکٹر شکیل الرحمٰن مطبوعہ :تکمیل بھیونڈی ، منٹو کی یاد میں خصوصی شمارہ 2010 )
سوگندھی جو ایک طوائف کی زندگی گزارتے ہو ئے انسانوں کی خود غرضی اور مکّاری کے تجربات سے گزر کر تمام انسانوں سے بے زار ہو جا تی ہے اور سب سے ناتہ توڑ بیٹھتی ہے ۔
کمار پاشی اس سلسلے میں رقمطراز ہیں : " سوگندھی ایک طوائف ضرور ہے کہ اپنے جسم کا کا روبار کر تی ہے لیکن مکّار نہیں ۔ اس کی روح میں ویسی ہی روشنی ہے جو کسی آ درش ہندوستانی عورت کی آ تما میں ہو تی ہے در اصل سو گندھی ایک مجبور اور بے بس عورت ہے۔ ایک مظلوم عورت ،جو سب کچھ بر داشت کر لیتی ہے ۔کبھی اس نے بھی چا ہا تھا کہ اس کے جسم کا ذرّہ ذرّہ ماں بن جا ئے ۔۔۔۔ سوگندھی اپنی روح میں بسے اجالوں سے اچّھی طرح واقف ہے وہ جانتی ہے کہ اس کا جسم اور اس کی آ تما بالکل الگ شے ہے جسے وہ دام لئے بغیر کسی کو بھی دے سکتی ہے لیکن وہ جو کچھ ہے ،جو کچھ اس کے اندر ہے اسے کو ن خرید سکتا ہے کہ وہ تو بیش قہمت ہے ۔ ۔
(سوگندھی : منٹو کی کہانی ہتک کا کر دار ۔کمار پاشی ،مطبوعہ تکمیل ص454)
منٹو کے افسانوں میں کئی طوائفوں کی زندگی کو پیش کیاگیا ہے لیکن یہ مختلف کر دار ہیں جن کی اپنی پہچان ہے۔ منٹو نے ،میرا نام رادھا،پڑھئے کلمہ،شاردا اور سر کنڈوں کے پیچھے کی مدد سے ہر طوائف کی انفرادی خصوصیت کو بیان کیا ہے ۔
ان کر داروں کے حوالے سے ہمیں انسانی زندگی کا مسخ شدہ چہرہ نظر آ تا ہے لیکن منٹو اس پو رے منظر نامے میں انسانی روح کے اندر مو جود انسانی جو ہر کی سلامتی کی خبر بھی ان ہی کرداروں کے افعال کی مدد سے دیتا ہے
منٹو کے اکثر کر دار سماج کے نا پسندیدہ افراد ہیں لیکن منٹو نے ان کے اندر مو جود نیکی اور خیر کے مادّے تک رسائی حاصل کر کے انھیں ادب کا موضوع بنایا ہے اس کے کر دار انتہائی ناموافق حالات میں بھی غیر معمولی جرأ ت اور زندگی کا ثبوت پیش کر تے ہیں منظور کا کردار زندگی اور موت کی کگار پر موجود ہو نے کے با وجود پو رے ہسپتال میں زندگی کی روح پھونک دیتا ہے اور وہاں مو جود زندگی سے ما یوس لو گوں میں جینے کی امنگ پیدا کر کے اس دنیا سے اچانک غائب ہو جا تا ہے ۔
کالی شلوار کی سلطانہ جو ایک طوائف ہے ، اس کا محرّ م کے مو قع پر کالی شلوار پہننے کی خواہش کر نا اس کی گہری عقیدت کی دلیل ہے ۔ رادھا بائی فلموں میں آ کر گلو کارہ بن جاتی ہے اور اپنا نام الماس رکھ لیتی ہے کیونکہ وہ رادھا جیسے پوتر نام کو اس ماحول میں نہیں لے جانا چاہتی ۔ دودا پہلوان اپنی امرد پرستی کے باوجود لنگوٹ کا پکّا ہے اورجب اپنے محبوب کی مدد کی خاطر اسے طوائف الماس کے ہا تھوں اپنے آ پ کو بیچ دینا پڑ تاہے تو اس سانحہ پر وہ پھوٹ پھوٹ کر رو پڑ تا ہے ۔
منٹو کے میلو ڈرامے ’ اس منجھدار میں ‘ سعیدہ اور اصغری کے کر دار اپنے ضمیر کی آ واز پر مختلف انداز میں عمل کر تے ہو ئے نظر آ تے ہیں۔ سعیدہ کا شوہر مجید شادی کے دوسرے ہی دن حادثے کا شکار ہو کر اپنے دو نوں پیروں سے محروم ہو جا تاہے اس کے بعد نئی دلہن سعیدہ کو اس کے فطری تقاضے جن راستوں ہر لے جاتے ہیں ان پر اس گھر کی نوکرانی صغریٰ کا بار بار طنزیہ انداز میں حملہ کر نا ،دیور امجد کا گھر چھوڑ کر راولپنڈی چلے جانے کے لئے آ مادہ ہو جانا اور سعیدہ کا ان حالات میں بے بس ہو جانا اور آخر میں مجید کا خودکشی کر لینا ،خیر اور شر کی کشمکش میں انسانی ضمیر کی آ واز کو منٹو نے انسانوں کے اعمال پر گرفت کر تے ہو ئے دکھایا ہے ۔
اگر منٹو ان کر داروں کی شکل میں سماج میں پا ئے جا نے والے انسانو ں کے چہرے اپنے افسانوں کے پردے پر نمایاں کرنے پر اکتفا کرتا توشاید اسے ادب میں وہ مقام حاصل نہ ہوتا جو ان کر داروں کے پسںِ پر دہ صالح انسانی صفات اور انسانی فطرت میں مو جود خیر کے مادّہ کی تلاش کا جذبہ نہ ہو تا ۔ کیچڑ میں کنول کی تلاش اور گہرے پا نیوں میں انسانی قدروں کے گو ہرِ آ بدار کی جستجو جو اس منٹو کی فطرت میں شامل تھی آ خر وہی اس کا ہنر ٹھہرا ۔
منٹو کے افسانوں اور ڈراموں میں کرداروں کے مکالمے ان کی شخصیت کی مکمّل ترجمانی کر تے ہیں ۔ان مکالموں میں ادبی شان اور غیر رسمی انداز زیبِ داستان کے لئے نہیں ہے بلکہ ان افرادکی اندرونی دنیا میں پیش آ نے والی واردات اور احساسات کا فنکارانہ بیان ہے ۔منٹو نے ان کر داروں کو اس انداز سے سنوارا ہے کہ وہ اپنی بشری کمزوریوں کے با وجود اپنی فطری سادگی اور انسانیت کے سبب ہمارے دل کو چھو لیتے ہیں اور بعض کر دار ہمیں اندر تک جھنجھوڑ کر رکھ دیتے ہیں ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بہت خوب 1 ماشا اللہ
ReplyDeleteZabardast
ReplyDelete