کو شش
کہانی
محمّد اسد اللہ
دسمبر کا مہینہ تھااور شہر بھر کے اسکولوں میں کھیل کود اور تحریری و تقریری مقابلوں کی بہار آئی ہوئی تھی ۔ فرحانہ کا شمار اس کے اسکول کی بہترین مقرّرین میں ہوا کرتا تھا ۔یوں بھی وہ بہت باتونی لڑکی تھی ،بلا کی ذہین اور خوبصورت بھی ۔ہرقسم کے تقریری مقابلوں اور مباحثوں میں اسے اسکول کی نمائندگی کے لئے بھیجا جاتا تھا ۔صالحہ اس کی ہم جماعت تھی ۔فرحانہ کی ان سب خوبیوں کے باوجود نہ جانے کیوں کلاس ٹیچر نے صالحہ کو مانیٹر بنارکھا تھا ،یہ بات فرحانہ کو ہمیشہ کھٹکتی تھی ۔
سب کچھ ٹھیک ٹھاک چل رہا تھا کہ اچانک ایک عجیب سا واقعہ پیش آیا ۔ شہر کے کسی اسکول میں تقریری مقابلہ ہونے والا تھا ۔ فرحانہ کا نام اسکول کی جانب سے بھجوا دیا گیا ۔ابھی تقریر کو چار پانچ دن باقی تھے کہ اچانک فرحانہ نے طبیعت خراب ہونے کا بہانہ بنا کروہاں جانے سے انکار کر دیا ۔کلا س ٹیچر نے فیصلہ سنا دیا کہ اس کی جگہ اب صالحہ جائے گی ۔صالحہ نے سنا تو اس کے پیروں تلے کی زمین کھسک گئی ۔اس نے زندگی میں کبھی تقریر نہیں کی تھی ۔ تقریر کے عنوان پر نظر ڈالی تو اسے محسوس ہوا وہ چکرا کر گر پڑے گی ۔اسقدر مشکل عنوان کہ اپنے طور پر سے کچھ کہنا چاہے تو ایک لفظ نہ بول سکے۔
صالحہ کی سہیلیوں نے اسے بتایا کہ فرحانہ اسی مشکل عنوان کی وجہ سے تقریر یاد نہ کر پائی اور انکار کردیا ۔ ۔’ تمہارا نام بھی ٹیچر کو اسی نے سجھایا کہ تم بھی تقریر نہ کر سکو اور سب کے سامنے خوب بے عزّتی ہو ‘۔ شبانہ نے یہ کہ کر صالحہ کے رہے سہے حواس بھی اڑا دئے ۔ ان ہی دنوں اسکول میں کئی مضامین کا ڈھیر سارا ہوم ورک دیا گیا تھا وہ سارا کام بھی پہاڑ بن کر کھڑا تھا ۔اس حالت میں اس کی امّی اسے یہ کہ کر ڈھارس بندھاتی رہیں کہ تمہیں انعام تھوڑا ہی جیتنا ہے تم بس کسی طرح تقریرکرلو ۔نہ ٹیچر اس کی پریشانی سمجھنے کو تیّار تھیں نہ گھر میں کوئی اسکی حالت کا اندازہ کرنے والا تھا اسے محسوس ہوا وہ بالکل اکیلی ہے۔
آخر وہ دن آپہنچا ۔ہال میں اس کی امّی اور ابّو دونوں موجود تھے لیکن ان کا ہونا نہ ہونا اس کے لئے برابر تھا ۔تقریری مقابلہ شروع ہوا اور سب سے پہلے جس مقرّر کے نام کا اعلان کیا گیا اسے سنتے ہی صالحہ کی آنکھوں کے سامنے اندھیرا سا چھا گیا یہ اسی کا نام تھا ۔تبھی اس کے ابّو کے الفاظ اس کے کانوں میں گونجنے لگے :جو گھبرا گیا اس نے سب کچھ کھو دیا۔ صالحہ نے اپنے آپ کو سنبھالا اور دھیرے دھیرے مائک کی طرف بڑھنے لگی ۔وہاں پہنچ کر جو کچھ یاد تھا وہ سب اگل دیا ۔اس کے بعد اسکا ذہن کورے صفحہ کی طرح صاف تھا ۔وہ رک گئی اور آگے کے جملے یاد کرنے کی کوشش کرنے لگی ۔اسے کچھ لڑکیوں کے ہنسنے کی آوازیں سنائی دیںجن میں فرحانہ کی ہنسی نمایاں تھی۔ گھبرا ہٹ میں اسے کچھ بھی سجھائی نہ دیا تو وہ کچھ دیر خاموش کھڑی رہی اور اسٹیج سے اتر آئی ۔تقریر کے بعد امّی ابّو سے سامنا ہوا تو اس کی آنکھوں سے آنسو نکل پڑے ۔ اس نے اسی دن فیصلہ کرلیا کہ اب وہ کبھی تقریر نہیں کرے گی ۔
اس واقعہ کا اس کے دل و دماغ پراتنا بر اثر پڑا کہ وہ ہمیشہ خاموش رہنے لگی ۔کلاس روم میں کسی سوال کا جواب دینے کے لئے کھڑی ہوتی تو اس محسوس ہوتا گویا مائک اس کے سامنے رکھا ہے اور پورا ہال لوگوں سے بھرا ہوا ہے اور اسے زور زور سے ہنسنے کی آواز سنائی دے رہی ہے ۔ گھبراہٹ سے وہ پسینہ پسینہ ہو جاتی ۔ایک دن اس کی کلاس ٹیچر نے اس کے ابّو، ارشاد صاحب کوبلوا بھیجا اور اس کی یہ حالت بتائی ۔ اس کے ابّو کہنے لگے گھر پر تو ایسی کو ئی بات نہیں ہوتی ،ہاں وہ کچھ گم سم سی رہنے لگی ہے ۔ا س شام صالحہ کے والد اور والدہ میں اس مسئلہ پر کچھ بات چیت ہوئی اور پھرجیسے یہ معاملہ ختم سا ہو گیا ۔دو چار دن گزر گئے ۔اس دوران صالحہ کے ابّو کسی گہری سوچ میں رہے ۔پھرایک رات جب کھانے سے فارغ ہونے کے بعد سب لوگ چھت پر ٹہل رہے تھے صالحہ کے ابّو نے کہا :’آؤ کوئی کھیل کھیلتے ہیں۔‘
’کون سا کھیل؟‘آصف نے پوچھا۔
’ایسا کرتے ہیں عدالت عدالت کھیلتے ہیں ، ہم جج بن جائیں گے اور تم لوگ باری باری وکیل بن کرمقدمہ لڑوگے ۔‘
صالحہ کی امّی نے کہا:’ مگر یہ تو بتائیے آخر مجرم کون بنے گا ،آپ تو پہلے ہی جج بن بیٹھے ‘۔
’مجرم۔۔ مجرم ؛‘ ابّو نے ادھر ادھر دیکھا ان کی نظر آصف کے جوتوں پڑی ،’ہاں یہ رہا مجرم ،یہ جوتا۔سبھی جانتے تھے کہ اس گھر میں اکثر جوتے ادھر ادھر پڑے رہتے تھے ۔صالحہ کے ابّو اکثر چیختے رہتے کہ ان جوتوں کو کوئی ان کے لئے مقرر کی گئی جگہ رکھتا کیوں نہیں ؟
اسی پرصالحہ کے دونوں بھائیوں میں لڑائی ہوا کرتی ۔امتیاز نے موقع کا فائدہ اٹھا کر فوراً اعلان کردیا:’آصف کے جوتوں کو عدالت میں حاضر کیا جائے ۔‘
امّی ہمیشہ آصف کی طرف داری کیا کرتی تھیں اس لئے وہ وکیلِ صفائی بن گئیں ۔صالحہ کو معلوم تھا کہ اس کے ابّو کو جوتوں کا ادھر ادھر پڑے رہنا بالکل پسند نہیں اور وہ جج بھی تھے اس لئے صالحہ نے جوتوں کے خلاف مورچہ سنبھال لیا ۔عدالت کی کاروائی شروع ہوتے ہی صالحہ کی بڑی بہن نازیہ نے جوتوں کے خلاف فردِ جرم پڑھنی شروع کی ۔
آصف کے جوتوں پر سب سے پہلا الزام یہ ہے کہ وہ گھر میں ہمیشہ ادھر ادھر ٹھوکریں کھاتے پھرتے ہیں ، دوسرا الزام یہ کہ ربڑ کے پاپوش پر تلوں میں لگی مٹّی اور گرد صاف کئے بغیر ہی گھر میں داخل ہو جاتے ہیں جس کی وجہ سے گھر میں ریت مٹّی اور گندگی داخل ہو جاتی ہے ۔اور تیسرے یہ وہ شو ریک پر کبھی نہیں پائے جا تے جہاں انہیں ہمیشہ ہونا چاہئے ۔‘
الزام پڑھے جانے کے بعد امّی جوتوں کا بچاؤ کرنے کے لئے آگے بڑھیں ۔’مائی لارڈ،جوتوں پر جو الزام لگایا گیا ہے وہ سراسر بے بنیاد ہے ۔جوتے لاوارثوں کی طرح ادھر ادھر پڑے رہتے ہیں تو اس کے قصور وار جوتے کس طرح ہو سکتے ہیںیہ ذمّہ داری تو جوتا پہنّے والے کی ہے۔ ‘
جوتوں کے مالک محمّد آصف عدالت میںحاضر ہو ں ‘ ۔امتیاز نے ہانک لگائی ۔
صالحہ نے آصف پر لگائے گئے الزامات دہرائے تو جج صاحب یعنی ارشاد صاحب نے پوچھا :’کیا تم اپنے جوتوں کی صفائی میں کچھ کہنا چاہتے ہو ‘۔
’جی ‘، آصف نے کہنا شروع کیا ۔ ’ میں جوتو ں کی صفائی میں صرف اتنا کہنا چاہتا ہوں کہ گھر میںپالش کی ڈبیا ختم ہو گئی ہے اور آپ امّی کے بار بار یاد دلانے کے باوجود آپ بازار سے پالش کی ڈبیا لانے میں ناکام رہے ہیں ۔اس لئے جوتوں کی ٹھیک طرح سے صفائی نہیں ہو پا رہی ہے ۔‘
’آرڈر ، آرڈر ، تم عدالت کی توہیں کر رہے ہو ۔ ‘صالحہ کے ابّو پاس پڑا لکڑی کا ڈنڈا میز پر زور زور سے ٹھونکتے ہوئے بولے ۔ ’ مسٹر آصف کیا تم پر لگایا گیا الزام تمہیں منظور ہے ؟‘
’حضور ! اسکول میں کتابوں کا بوجھ اس قدر بڑھ گیا ہے کہ مجھے جوتے سنبھالنے کی فرصت ہی نہیں مل پاتی ۔ ‘صالحہ نے فوراً ٹوکا :’جج صاحب ،یہ اپنی کتابیں بھی ٹھیک سے نہیں رکھ پاتے میں ہی انھیں سنبھال کر رکھتی ہوں ، اور یہ اکثر کھیل میں مگن رہتے ہیں ۔
اسی طرح دیر تک جرح چلتی رہی ۔ سب اس انوکھے کھیل میں کھوئے رہے ۔عدالت پھر دوسرے دن کے لئے ملتوی کردی گئی ۔ د و تین دن تک یہی ہوتا رہا ۔کسی کو مجرم بنا کر اس پر الزام لگائے جاتے ،کوئی وکیل بنکر اسے بچانے کی کوشش کرتا ۔کوئی گواہ بنتا ۔ ایک رات ارشاد صاحب نے یہ اعلان کیاکہ آج بجائے عدالت کے مباحثہ ہوگا۔
’بحث کس بات پر ہوگی ؟‘ امتیاز نے پوچھا ۔
’کوئی اچھّا سا عنوان مقرر کر لیتے ہیں ؟
کچھ سوچ کر صالحہ کی امّی نے ایک عنوان پیش کیا : ’گھر سنبھالنے میں امّی کو زیادہ محنت کرنی پڑتی ہے یا ابّو کو ‘۔
آئندہ شام جب گھر میں پڑوس سے بٹّو ،انجم اور رانی بھی آئے ہوئے تھے ،مباحثہ شروع ہوا ۔بٹّو کو صدرِ جلسہ بنا دیا گیا اور رانی مہمانِ خصوصی کی کرسی پر براجمان ہو گئی ۔ آصف نے امّی کی حمایت میں تقریر شروع کی ۔ جنابِ صدر ،معزز مہمانانِ خصوصی ، اور لایقِ احترم امّی،ابّو اور حاضرین!
میں آج اپنی امّی کی حمایت میں اپنے خیالات پیش کرنے کے لئے آپ کے سامنے حاضر ہوں۔
میں اپنی تقریر کی ابتدا حضور کی اس حدیث سے کرتا ہوں کہ ماں کے قدموں کے نیچے جنّت ہے ۔ اور وہ ہماری امّی ہی ہیں جن کی وجہ سے ہمارا گھر جنّت کا نمونہ بنا ہوا ہے ۔ اس حقیقت سے بھلا کون انکار کر سکتا ہے کہ امّی کی وجہ سے ہی ہمارے گھر کی گاڑی چلتی ہے ۔وہ نہ ہوںتو کسی کو ایک وقت کا کھانا تو در کنار ایک بوند چائے بھی نہیں مل سکتی ،اس بات کو تو ہمارے ابّو بھی مانتے ہیں ۔ امّی نہ ہوں تو گھر کی کوئی چیز ٹھکانے نہیں رہتی ۔ امّی اگرہر ایک کو ٹوکتی اور بولتی نہ رہے تو گھر کا سارا نظام بگڑ جائے ۔ابّو تو زیادہ تر گھر سے باہر ہی رہتے ہیں اور گھر آنے کے بعد بھی ٹی۔وی اور اخبار میں کھوئے رہتے ہیں ۔
اب صالحہ کی باری تھی ۔اس نے ابّو کی موافقت میں بولنا شروع کیا ۔’ ابھی میرے فاضل بھائی نے امّی کی ذمّہ داریوں کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا ،میں امّی کے مرتبہ اور عزّت و احترام کو دل سے تسلیم، کرتی ہوں اور ان کی اتنی ہی عزّت بھی کرتی ہوں اور یہ بھی جاسنتی ہوں کہ میں اپنے چمڑے کی جوتیاں بنا کر بھی انھیںپہنادوں تو ماں کے احسانات کا حق ادا نہیں ہو سکتا لیکن حقیت کا اقرار اپنی جگہ ہے ،اور حقیقت یہ ہے کہ ہمارا گھر ایک گاڑی کی طرح ہے اور امّی اور ابّو اس کے دو پہیّے ہیں ۔ آپ اچھّی طرح جانتے ہیں کہ ایک پہیّہ والی گاڑی تو صرف سرکس میں ہی چلتی ہے ۔ یہاں امّی گھر سنبھالتی ہیں تو ابّو آفس ۔ان کی تنخواہ ہماری اس گھر کی گاڑی میں پیٹرول کا کام کرتی ہے ۔گھر سے باہرکتنے ہی کام ہیں جن کے لئے ہمیں ابّو پرمنحصر رہنا پڑتا ہے ۔اسی لئے میں[L: 8] یہ کہنا چاہتی ہوں کہ ابّو کی اہمیت بھی امّی سے کسی طرح کم نہیں۔
اس کے بعد یہ ہونے لگا کہ ان بچّوں کو ہر شام کوئی نیا موضوع دیا جاتا جس پر سب اپنی رائے پیش کرتے اور مباحثہ ہوتا ۔کبھی موضوع ہوتا ٹوتھ پیسٹ اہم ہے یا برش کبھی اس بات پر بحث ہوتی کہ اگر اختیار دیا جائے تو آپ شمع بننا پسند کریں گے یا جگنو ؟کیوں ؟اور کبھی اس بات پر دلیلیں پیش کرتے کہ انگریزی ذریعۂ تعلیم بہتر ہے یا اردو بعض اوقات سبزی خوروں اور گوشت خوروں کا مقابلہ ہوتا تو کبھی سائنس اور آرٹس کا۔
چند مہینوں تک گھر میں یہ سلسہ چلتا رہا ۔دھیرے دھیرے صالحہ اس قابل ہوگئی کہ وہ کسی بھی موضوع پر ذراسی تیّاری میں دس پندرہ منٹ تک آسانی کے ساتھ بول سکتی تھی ۔ اس دوران وہ رسائل ، کتابیں اور اخبارات کا مطالعہ بھی کرتی رہی تھی اس کی عام معلومات بھی اچھّی خاصی تھی ۔
دیوالی کی چھٹّیاں شروع ہونے والی تھیں ۔ان دنوں اردو پڑھانے والی ٹیچر چھٹّی پر گئی ہوئی تھیں چند مہینوں کے لئے ایک نئی ٹیچر کا تقرّر ہواتھا ۔ ایک دن وہ کلاس میں آئیں تو بجائے سبق پڑھانے کے انھوں نے بورڈ پر ایک عنوان لکھا ،’تندرستی ہزار نعمت ہے ‘۔ اور کلاس کی سبھی لڑکیوں سے کہا ؛آپ میں سے ہر ایک کو باری باری اس موضوع پر جس قدر بول سکتی ہیں بولنا ہے۔ جو کچھ نہیں بول سکتیںانھیں بھی کم از اکم چار جملے ضرور ادا کرنے ہیں ۔ ورنہ اپنی جگہ کھڑا رہنا ہے ۔ جب صالحہ کی باری آئی تو اس نے اپنے خیالات پیش کرنے شروع کئے اور سبھی اسے حیران نظروں سے دیکھتے رہے۔اس کے شاندار اندازِ بیا ن اور خود اعتمادی کو دیکھ ٹیچر نے اس کی خوب تعریف کی اور کہا در اصل یہ تو ایک ٹیسٹ تھا ۔ شہر کے مشہور انعامی تقریری مقابلہ کے لئے کسی طالبہ کے انتخاب کے لئے ۔اور یہ فی البدیہہ تقریری مقابلہ شہر کے ایک بڑے ہوٹل میں منعقد ہوگا ۔ ہر سال یہ ایک مباحثہ کی شکل میں ہوا کرتا تھا اور عام طور پر فر حانہ اس میں رٹی رٹائی تقریر کرنے پہنچ جاتی ۔اس بار جب ٹیچر نے اسے کلاس میں دئے گئے موضوع پر اپنے خیالات پیش کرنے کو کہا تو وہ خاموش کھڑی رہی ۔ اس تقریری مقابلہ کے لئے صالحہ کو چن لیا گیا تو وہ بری طرح چڑ گئی اوراپنی جگہ کھڑی ہو کر ٹیچر سے کہنے لگی :میڈم اس مقابلہ کے لئے تو ہر سال ہمارا نام بھیجا جاتا ہے ۔ ٹیچر نے دھیرے سے مسکرا کر کہا : اس بار صرف نام نہیں بھیجا جائے گا ،بولنے والوں کو بھیجا جائے گا ،اور تم نے تو اس موضوع پر ایک جملہ تک نہیں کہا وہاں جا کر کیا کروگی ۔؟
آخر وہ دن آپہنچا جب ایک شاندار ہال میں منعقد کئے گئے تقریری مقابلہ میں شریک ہونے کے لئے پہنچی اس کے امّی ابّو بھی ساتھ تھے ۔ اس کے نام کا اعلان کیا گیا تو وہ پورے اعتماد کے ساتھ اسٹیج کی طرف بڑھی ۔ اس کے حصّہ میںجو پرچی آئی اس پر عنوان درج تھا :’زندگی زندہ دلی کا نام ہے‘ ۔صالحہ نے اپنے مخصوص انداز میں[L: 8] بولنا شروع کیا جیسے جیسے وہ بولتی رہی ہال تالیوں سے گونجتا گیا ۔
تمام تقریریں ختم ہونے کے بعد جب نتائج کا اعلان کیا گیا تو وہ مارے خوشی کے اچھل پڑی ،اسے پہلے انعام کا مستحق قرار دیا گیا تھا۔
،،،،،،،،،،،،،،