غزل
نہیں شریک عذابوں کا جانِ جاں کو ئی
خدا گواہ،نہیں ہے نہیں ، یہاں کو ئی
یہ پھیلتی ہو ئی باہیں ہیں اپنی منزل کی
ہمیں گماں ہے کہ ہے راہ درمیاں کوئی
عنایتیں ہیں تری دھوپ سرد مو سم کی
بڑھے جو حد سے تو بیٹھے بھلا کہاں کو ئی
رہا وہ گوش بر آ واز، اور ہمیں بر سوں
خیال تک نہیں آ یا کہ ہے یہاں کو ئی
سوائے حلقۂ یاراں میں اپنی شہرت کے
ہماری ذات کا دشمن یہاں کہاں کو ئی
ہر ایک سمت خموشی کا کفر چھایا ہے
ہماری ذات کے صحرا میں دے اذاں کو ئی