سچ ہے کہ رگِ جاں سے لگے بیٹھے ہو لیکن
کیوں اس شہرِ جاں کی سیاحت نہیں کر تے
ہے شہر کے لو گوں سے اسے ایک شکایت
تعظیم تو کر تے ہیں محبّت نہیں کرتے
میں نے بھی مکھوٹوں کو ہلا ڈالا ہے جڑ سے
اب لو گ یہاں مجھ کو ملامت نہیں کرتے
مدّت ہو ئی خوشیاں یہ پتہ بھول گئی ہیں
اس گھر کی طرف آ پ بھی زحمت نہیں کرتے
الفاظ کی حرمت کا ہمیں پاس بہت ہے
ہم اپنے مقدّر کی شکایت نہیں کر تے
No comments:
Post a Comment