Tanzia va Mizahiya Mazmoon Aur Inshaiya
By Muhammad Asadullah
Contact:zarnigar2006@yahoo.com
طنزیہ و مزاحیہ مضمون
اور انشائیہ
محمد اسد اللہ
اردو میں طنز یہ و ظریفانہ مضامین کو انشائیہ قرار دینے کا رواج عام ہے۔اس میں اخباروں کے کالم ،ہلکے پھلکے شگفتہ مضامین ،خاکے وغیرہ سبھی پر انشائیہ کا لیبل لگا دیا جاتا ہے ۔ ان تحریروں کے مطالعے سے یہ بھی اندازہ لگایا جا سکتا ہےکہ اگر کوئی ادیب اپنے مضمون میں بھر پور طنز و مزاح کو بروئے کا رنہ لا سکے یعنی وار اوچھا پڑ جائے تو اسے بھی انشائیہ سمجھ لیا جاتا ہے گویا ایک ناکام قسم کا مضمون انشائیہ ہوگیا! بقول ڈاکٹر سید محمد حسنین ’انشائیہ نگاری کو مزاح نگاری قرار دینا بڑی مضحکہ خیز سی بات ہے ۔‘
طنز و مزاح،ہجو ،المیہ ،رومان یہ تحریر کی خوبیاں ہیں ،تحریر کی صورتیںنہیںان صفات کو صنف کیسے قرار دیا جاسکتاہے؟ اور حقیقت یہ ہے کہ انشائیہ ایک صنف ِ ادب ہے نہ کہ کسی صنف کا اندازِ تحریر ۔ اس سلسلےمیں
انشائیہ کی امتیازی حیثیت کو انیس ناگی اس طرح بیان کر تے ہیں۔
’مقالہ یا مضمون ’سیال قسم ‘کی ادبی ہیئت ہے جو تصور یا جذبہ کے ساتھ مختلف
رنگ اختیار کرتی ہے اس لیے اس کی کو ئی معین ہیئت نہیںہے یہ موم کی ناک ہے ۔اگر ہنسی مذاق پھبتی اور جگت سے انشائیہ جنم لیتا ہے تو پھر’ نقا ل‘ بہت بڑے انشا پر داز ہیںاور تہواروں پر جواب الجواب اور تمسخر انشائیوں کے مجموعے ہیں۔
1
اردو میں طنز و ظرافت کی تخلیق دیگر اصناف کی بہ نسبت بیشتر مضمون
ہی کے فارم میں ہو ئی ہے۔ انشائیہ کے فنی آداب و رموز سے بے خبری کے سبب ان تمام تحریروںکو انشائیہ کے زمرے میں شامل کر نے کا رجحان عام رہا ہے ۔طنز و مزاح کی شوخی اور انشائیہ کی شگفتگی کی علاحدہ پہچان نہ ہو سکی ۔ اسی لئے جو طنز و مزاح نگار ہے وہ انشائیہ نگار بھی گر دانا گیا جب کہ یہ دونوں اصناف الگ خواص اور طریقہ کار کو اپناتے ہیں ۔
انشائیہ طنز و ظریفانہ مضامین سے مختلف قسم کے اظہار کا پیمانہ ہے ۔اس میں طنز و مزاح متوازن مقدار میں ایک معاون قوت کے طور پر بروئے کار لایا جاتا ہے لیکن یہ عناصر اپنی طبعی صلاحیتوں کے ساتھ کسی مضمون میں اپنے فرائضِ منصبی سے عہد ہ بر آ ہو نے لگیں ، اس تحریر کا غالب رجحان بن جائیں اور زندگی یا کائنات کے مظاہر سے متعلق کسی انوکھے نقطہ نظر کو پیش کر نے کا وہ مقصد جو انشائیہ کے پیشِ نظر ہو تا ہے فوت ہو جائے تو اس صورت میں وہ تحریر طنز و ظرافت کا اعلیٰ معیار قائم کر نے کے با وجود انشائیہ نہیں کہلا سکتی
۔ اسے طنزیہ مزاحیہ مضمون ہی کے زمرے میں شامل کر نا ہوگا۔
اس ضمن میں ڈاکٹر وزیر آ غا لکھتے ہیِں۔
’ طنزیہ مزاحیہ مضامین انشائیہ نگاری کے مختلف اسالیب نہیں بلکہ قطعاً الگ قسم کی تحریریں ہیں اور یہ فرق محض لہجہ اور انداز کا فرق نہیں مزاج کا فرق بھی ہے۔ مثلاً غور کیجئے کہ ایک مزاحیہ مضمون کا طرّہ امتیاز یہ ہے کہ اس میں فاضل جذبہ خارج ہو جاتا ہے جب کہ انشائیہ میں جذبہ صرف ہو تا ہے۔
2
انشائیہ اور طنزیہ و مزاحیہ مضمون میں جذبہ کے صرف ہو نے کی نوعیت مختلف ہونے کی وجہ سے ان دونوںسےپیدا ہو نے والا تاثر بھی جدا گانہ ہو تا ہے۔ انشائیہ چونکہ فطری اظہار اور انشائیہ نگار کے خیالات و تاثرات کاآ ئینہ ہو تا ہے نیز ایک متوازن اور مہذب شخصیت کا اظہارِ خیال ہے اس لئے اس میں ایک ٹھہرائو اور لطیف انداز پا یا جا تا ہے۔
طنز و مزاح ایک شعوری کاوش کے طور پر تحریر کی مجموعی فضاپیدا کر تا ہے جو اس کے مخصوص ارادوں اور مقاصد کی نمائندگی سے عبارت ہے ۔ اس میں طنز اور مزاح الگ الگ رول ادا کر تے ہیں ۔ اسٹیفن لی کاک کے بقول :
’مزاح زندگی کی ناہمواریوں کے اس ہمدردانہ شعور کا نام ہے جس کا اظہار فنکارانہ طور پر کیا گیا ہو۔‘
کلیم الدین احمد طنز و ظرافت کے فرق کو یو ں سمجھاتےہیں:
خالص ظرافت نگارکسی بے ڈھنگی شے کو دیکھ کر ہنستا ہے اور پھر دوسروں کو ہنساتا ہے وہ اس نقص ،خامی ،بد صورتی کو دور کر نے کا خواہش مند نہیں ۔ہجو گو اس سے ایک قدم آ گے بڑھتا ہے اس ناقص و ناتمام منظر سے اس کا جذبہ تکمیل حسن ، موزونیت ،انصاف جوش میں آ تا ہے اور اس جذبہ سے مجبور ہو کر اس مخصوص مذموم منظر کواپنی ظرافت اور طنز کا نشانہ بناتا ہے ۔نظری اعتبار سے کہہ سکتے ہیں کہ خالص ظرافت اور ہجو کی راہیں الگ الگ ہیں اور منزلیں جدا جدا ہیں۔ لیکن واقعہ یہ ہے کہ ان دونوں کو جدا کر نا عموماً دشوار ہے۔‘3
طنز اور ظرافت یاہجو کو الگ کرنا دشوار سہی لیکن نا ممکن نہیں ۔ اسے کسی بھی فن پارے میں یا عملی زندگی میں علاحدہ کر نے میں جو دشواری پیش آ تی ہے اس کی اصل وجہ یہ ہے کہ طنز یا ہجو کے ذریعے کسی برائی یا نا پسندیدہ عمل کا احساس دلایا جاتا ہے اور اس مقصد کے لئے طنز کر نے والا مبالغہ آ رائی کا سہارا لیتا ہے اسی لئے چسٹر ٹن کے مطابق :
’ ایک سوّر کو اس سے بھی زیادہ مکروہ شکل میں پیش کر نا جیسا کہ خودخدا ہے Satire ‘۔نے بنایاہے طنز یا تضحیک سٹائر
اس سے واضح ہوتا ہے کہ طنز کا اصل مقصد نا پسندیدہ افعال یامظاہر کی روک تھام ہے ۔ اور مزاح جو اسٹے فن لی کاک کے مطابق زندگی کی نا ہمواریوں کے شعور کے نتیجے میں پیدا ہو تا ہے اس کا مقصد بھی نا ہمواریوں پر قہقہوں کے ذریعے ایک نرم قسم کی تنقید ہی ہے ۔اس ضمن میں ڈاکٹر وزیر آغاکا خیال ہے :
’ہنسی ایک ایسی لاٹھی ہے جس کی مدد سے سوسائٹی کا گلہ بان محض شعوری طور پر ان تمام افراد کو ہانک کر اپنے گلّے میں دوبارہ شامل کر نے کی سعی کرتا دکھائی دیتا ہے جو کسی نہ کسی وجہ سے سو سائٹی کے گلّے سے علاحدہ ہو کر بھٹک رہے تھے۔ یعنی ہنسی ایک ایسا آ لہ ہے جس کے ذریعے سوسائٹی ہر اس فرد سے انتقام لیتی ہے جو اس کے ضابطہ حیات سے بچ نکلنے کی سعی کر تا ہے‘ ۔4
مقصد کے اعتبار سے طنز اور مزاح میں ناہمواریوں اور عدم توازن پر اظہارِ ناپسندیدگی ایک قدر ِ مشترک ہے اس اعتبار سے یہ بات انشائیہ کے سلسلے میں ایک نیا زاویہ نظر مہیا کر تی ہے کہ انشائیہ ایک غیر مقصدی صنفِ ادب ہے ۔ طنز و مزاح کے ذریعے جن جذبات کا اظہار کیا جا تا ہے انشائیہ میں یہ عناصر ان مقاصد کے ساتھ رچ بس نہیں سکتے۔ دوم یہ کہ برہمی یا بہجت کے جذبات طنزیہ مزاحیہ تحریر میں طنز و ظرافت کی شکل میں ایک ردِ عمل کی صورت میں ظاہر ہو تے ہیں ۔ جب کہ انشائیہ میں ان جذبات کی فقط عکاسی ہو تی ہے شاید ڈاکٹر وزیر آ غا کے قول کے مطابق فاضل جذبے کے خارج ہو نے اور صَرف ہونے کے مابین بھی یہی فرق ہے ۔ اسی مختلف ردّ ِ عمل اور طریقہ کار کو سمجھانے کی غرض سے ڈاکٹر انور سدید لکھتے ہیں ۔
’طنز میں ادیب ایک مصلح کا روپ اختیار کر لیتا ہے اور بقول ڈاکٹر وزیر آ غا وہ فراز پر کھڑا ہو کر نشیب کی ہر چیز پر ایک استہزائی نظر ڈالتاہے مزاح میں ادیب استہزا اور ہئیت کذائی کا خود نشانہ بنتا ہے ۔دوسرے لفظوں میں وہ نشیب میں گر کر ناظر کے جذبہ ترحم کو بیدا رکرنے کی کوشش کر تا ہے ۔وہ بھی اس طرح کہ پہلے ناظر کے لبوں پر قہقہہ بیدار ہو تا ہے پھر دل کی کسی اندرونی گہرائی میں رحم کا جذبہ ،انشائیہ میں ادیب ایک ہموار سطح پر ناظر کے دوش بہ دوش کھڑا ہوکر منظر سےتحصیل ِ مسرت کر تا ہے اور اپنا ردِ عمل بھی رواں دواں اندا ز میں بیان کر تا جاتا ہے ۔
5
ان تما م شواہد کی روشنی میں یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ انشائیہ طنزیہ مزاحیہ مضامین سے قدرے مختلف چیز ہے ۔یہ عناصر انشائیہ میں جگہ تو پا سکتے ہیں لیکن ان کی حیثیت معاون قوت ہی کی طرح ہے نیزانشائیہ میں ان کا مقام بھی وہی ہے جو ان دیگر اجزا کا ہے جن کی شمولیت انشائیہ میں ممکن ہے مثلاً رامائیت ، افسانوی انداز ،شاعرانہ احساس
فلسفیانہ تفکر وغیرہ ،لیکن ان تمام یاکسی ایک عنصر کی موجودگی میں بھی انشائیہ انشائیہ ہی رہے گا نہ کہ ڈرامہ، افسانہ یا شاعری کہلائے گا۔ اسی طرح ان ہی اصناف میںاگر انشائیہ کی کو ئی خصوصیت در آ ئے تو محض اسی بنیاد پر اسے انشائیہ کے زمرے میں داخل نہیں کیا جائے گا۔
ہمارے ہاں پائے جانےوالے اس تصور کے باوجود کہ مزاح یا طنز اور انشائیہ ایک ہی چیز ہے ، انشائیہ کی فنی اور فکری تنظیم و تشکیل ،شگفتگی اورشوخی کی متحمل تو ہو سکتی ہے مگر اس کا وجود لازمی نہیں ہے ۔
انشائیہ طنزیہ و مزاحیہ مضامین سےقطعی مختلف قسم کے مزاج ،طریقہ کار
اور تاثر کو جنم دیتاہے۔اسی لیے ان دونوں کے درمیان واضح حدِّ فاصل موجود ہے۔
حواشی
1۔ انیس ناگی، بحوالہ :انشائیہ کی بنیاد ، ڈاکٹر سلیم اختر ،1986ص365
2۔ڈاکٹر وزیر آغا ،انشائیہ کا سلسلہ نسب ،مشمولہ: تنقید اور مجلسی تنقید ،نئ دہلی،
1982 ،ص53
3۔کلیم الدین احمد ،اردو میں طنز و ظرافت،مشمولہ: طنز و مزاح ۔تاریخ و تنقید،
مر تّبہ : طاہر تونسوی ،دہلی 1986ص27
4۔ڈاکٹر وزیر آ غا،اردو ادب میں طنز و مزاح ،نئ دہلی ،1978ص24
5۔ڈاکٹر انور سدید ،اردو انشائیہ،مشمولہ: ذکر اس پری وش کا،سرگودھا،1982
ص30
No comments:
Post a Comment