بوڑھے کے رول میں
اور
محمّد اسد اللہ
[][][][][][][][][][][][][][][][][][][][][][][][][][]
,.,.,,,,,.,.,.,.,.,.,.,.,.,.,.,.,.,.,.,.,.,.,.,.,.,.,.,.,.,.,.,.,.,.,.,.,.,.,.,
Dr. Syed Safdar
.................................................
ڈاکٹر سیّد صفدر
ڈاکٹر سیّد صفدر
.
..................................................
جشنِ رونمائی کے مو قع پر پیش کیا گیا مضمون
///////////////////////////////////
انشائیہ ایک نو خیز صنفِ ادب ہے اور ڈاکٹر محمّد اسد اللہ ایک نو عمر تخلیق کار ۔ محمّد اسد اللہ نے ایوانِ ادب میں قدم رکھا تو انشائیہ سے آ نکھ لڑی ۔اب حال یہ ہے کہ دونوں طرف برابر کی آ گ برابر لگی ہوئی ہے ۔ اس نشست میں مجھے انشائیہ اور اسد کے تعارف کاکوشگوار کام تفویض کیا گیا ہے ۔ مجھے دونوں ہی عزیز ہیں ۔اس لئے قلم ہے کہ لبّیک لبّیک پکار رہا ہے ۔محمّد اسد اللہ’بوڑھے کے رول میں‘حرمِ انشائیہ میں داخل ہو ئے ۔ہم سب جانتے ہیں کہ یہ رول تعلق کے باب میں اسمِ اعظم ہے ۔
روحِ تخلیق تک رسائی کی کوشش کا نام تنقید ہے ۔تنقید کے اس تخلیقی عمل نے شعر و ادب کی نئی دنیائیں دریافت کی ہیں۔ ان میں سے ایک انشائیہ بھی ہے ۔شاعری کے ضمن میں یہ بات معلوم ہو ئی کہ
ردیف و قوافی کے چکّر میں پھنس کر
کلامِ مقفّیٰ بھی نا شعر ہو تا ہے اکثر
کہ در اصل اشعار تخلیق کی جھیل کے خوبصورت کنول ہیں
وہ کشتی جو لے جا ئے ہم کو کنول تک۔
کنول تو نہیں ہے
وہ پا نی کہ جس میں کنول ہے۔کنول تو نہیں ہے۔ ( کرشن مو ہن ۔کنول تو نہیں ہے )
اصل شعر کو مو ضوع سے الگ کو نے کی کو شش میں پیکر پسندوں نے مستور حسنِ معنی کی ایک جھلک کو مجسّم کر نا شروع کیااور یوں مختصر نظم وجو د میں آ ئی جیسے مادّے میں مستورجوہری توانائی یا زندہ جسم کی جین دریافت ہوئی ہے۔ اسی طرح سفر ناموں،خطوط ،مضامین اورطنز و مزاح کی رگوں میں دوڑتی توانائی کی دریافت انشائیہ کے نام سے مو سوم ہو ئی ۔
انشائیہ معروض کی جزیات کے بیان کا نام نہیں ،اسے الٹ پلٹ کر دیکھنے اور دکھانے کا عمل بھی نہیں ہے۔انشائیہ نگار معروض کے ان مخفی گو شوں کو ضبطِ تحریر میں لا تا ہے کہ غیر فنکار جن کے نظارے کی بصارت سے محروم ہو تا ہے ۔ اس بات کی تو ضیح کے لئے آ ندرے بریتون کا یہ بیان ملاحظہ فر ما ئیے ۔
گلاب کا پھول گلاب کا پھول ہے
گلاب کا پھول گلاب کا پھول نہیں ہے
پھر بھی گلاب کا پھول گلاب کا پھول ہے ۔ (بریتون ۔بحوالہ: ماہنامہ شب خون ۔الہٰ باد ۔شمارہ ۱۰۱۔ص ۱)
تخلیق کار گلاب کے پھول کو اس طرح دیکھتا ہے کہ وہ گلاب کا پھول نہیں ہے بمع اس کے کہ وہ گلاب کا پھول بھی ہے ۔قطرہ فنکار کے لئے صرف قطرہ نہیں ہے بلکہ قطرہ بمع دجلہ ایک نیااور انوکھا مظہر ہے ۔جب تک یہ نظر میسّر نہیں ہو تی، آ دمی تخلیق کا رنہیں ہو سکتا۔ اور انشائیہ نگار تو بالکل نہیں ہو سکتا ۔ دفتر سیاہ کر نا آ سان ہے مگر ایک مصرعِ تر کی تخلیق مشکل ہے کہ اس عمل میں شاعر کا سیروں لہو خشک ہو تا ہے ۔انشائیہ کہ افسانہ و افسوں کے خول میں محصور ہو نے کا انکاری ہے ۔ شاعری اورشاعری میں بھی غزل سے بہت قریب ہے ۔انشائیہ کا ہر ٹکڑا غزل کے شعر کی طرح آ زاد بالذات ہو تا ہے ۔ انشائیہ نگار غزل گو ئی کی طرح ایک نازک کا رگذاری ہے ۔اس کے لئے زبر دست تخلیقی توانائی در کار ہے ۔
کلاس روم ٹیچینگ کے ذریعے تخلیقی نظر کا حصول ممکن نہیں ہے ۔فنکار کی تربیت ادب پا روں سے ممکن ہے ۔محمّد اسد اللہ نے جوانی کی راتیں مرادوں کے دن مشرق و مغرب کے انشائیہ نگاروں کی معیت میں بسر کئے ہیں ۔جدید دنیا میں سماجی ،جغرافیائی ،لسانی اور ثقافتی سر حدیں ٹوٹ رہی ہیں ۔فرد کی ذات کی حدیں وسیع تر ہو تی جا رہی ہیں ۔ایک ادیب کو تو توسیعِ ذات کے لئے Multilingual ہونا بھی ضروری ہو گیا ہے ۔ ڈاکٹر محمد اسد اللہ خوش نصیب ہیں کہ انھیں براہِ راست انگریزی ،اردو ،مراٹھی اور ہندی ادب تک بے تکلّف دسترس حاصل ہے ۔ادب کی دنیا ہماری خاک ،آب و باد کی دنیا سے وسیع ہو تی ہے ۔ مختلف زبانوں پر دسترس نے محمّد اسد اللہ کی تخلیقی دنیا کو وسیع تر بنا دیا ہے ۔اس لئے ان کی تخلیقی فکر مختلف الجہت اور کثیر اللون ہو گئی ہے ۔ڈاکٹر وزیر آ غا نے اس کتاب کے پیش لفظ میں اسد اللہ کو یوں دادِ سخن دی ہے ۔
’ محمّد اسد اللہ نے گہری سے گہری بات کے بیان میںتازہ کاری اور اپج کا مظاہرہ کیا ہے ۔اس کے ہاں ندرتِ خیال ہے جو بنے بنائے تراشیدہ اقوال کی پیوست پر ہمیشہ سے خندہ زن رہی ہے ۔ ‘
اور ڈاکٹر انور سدید یہ اعتراف کر تے ہیں کہ ’محمّد اسد اللہ کو ’ ایک ان دیکھی دنیا سے باتیں کر نے کا ملکہ حاصل ہے ۔ ‘
اب اس ان دیکھی دنیا کے کچھ مناظر بھی ہم دیکھتے چلیں ۔’بوڑھے کا رول ادا کر تے کر تے کیا ہوا ملاحظہ فر مائیے:
’ کل ہی کی بات لیجئے ،اپنے آ پ سے وفاداری کا تہیہ کر کے میں اپنے اندر اترا اور آ واز لگائی ۔’ اے ،میرے میں!ذرا باہر آ میں تیرا وفادار بن کر زندگی گذارنا چاہتا ہوں ،ایک لمحہ کے توقف سے ایک انتہائی نحیف و نزار بوڑھا لا ٹھی ٹیکتا ہوا باہر آ یا۔ میں اسے دیکھ کر پھوٹ پھوٹ کر رو دیا اس بوڑھے کی طرح جس کی اولاد نا خلف نکل گئی ہو ۔۔۔‘
کیوں صاحب ذمّہ داریاں ہم بھی اٹھاتے ہیں کیا اس اقتباس کو پڑھ کر ایک بے نام مگر گرانبار جذبہ کا کتھارسس نہیں ہو تا؟اور کی ہم اپنے تئیں جذباتی سطح پر سبک بار محسوس نہیں کر تے ؟ یہی وجہ ہے کہ اپنی تخیلی ریاست میں شعراء کو قبول نہ کر نے والا افلاطون بھی حکمِ امتنائی جاری کر نے سے پہلے پھولوں اور خوشبوؤں سے فن کار کا استقبال کر نے کی ہدایت دیتا ہے ۔
محمد اسد اللہ کے انشائیوں میں پے در پے ایسے اقتباسات چلے آ تے ہیں گو یا کہہ رہے ہوں کہ دیکھو اس طرح سے سخن ور سہرا کہتے ہیں ،اسی انشائیے ’ بو ڑھے کو رول میں ‘ سے چند اقتباسات ملاحظہ فرمائیے ۔
’نہ صرف بڑھاپا بلکہ زندگی ہی زبردستی کا سودا ہے ،بچّہ دنیا میں قدم رکھتے ہی احتجاجی چینخوں سے فضا کا سینہ چھلنی کر دیتا ہے۔ہم نو مولو د کے احتجاج کو طربیہ نغمہ تصوّر کرکے خوشیاں مناتے ہیں ۔بچّہ ہماری نا عقلی پر چراغ پا ہو کر چینختا ہے کہ کن احمقوں میں آ پھنسا۔‘
’ سنجیدگی بڑھاپے کا امتیازی وصف ہے ہوش سنبھالتے ہی یہ وصفِ خاص مجھے ودیعت ہوا تو مجھے لگا کہ میری زندگی کے کالج سے کھلنڈرا نو جوان رسٹی کیٹ کر دیا گیا ہے ۔ ‘
’ میں نے چوں چرا کی تو حالات نے ڈانٹ پلا ئی کہ دیکھتے نہیں دنیا کا کیا حال ہے ،تمہارے اطراف حشر بر پا ہے اور تمہیں جوان ہو نے کی سوجھی ہے ۔‘
ہے نا غزل کی سی بات کہ اشعار چلے آ رہے ہیں اندر سے کو ئی کہتا ہے مکرّر ارشاد اور ہم بار بار اس اقتباس کو دہراتے ہیں ۔
مر حوم احمد جمال پاشا نے کہ خود ایک اچّھے انشائیہ نگار اور انشائیے کے پا رکھ تھے ڈاکٹر اسد اللہ کے تعلق سے لکھا ہے کہ
’وہ مو ضوع کا داخلی سفر اس انداز سے طے کر تے ہیں کہ ایک ان دیکھی دنیا کے بالکل نئے مظاہرقاری اچک اچک کر دیکھنے لگتا ہے ۔‘
معروض تواسد کے لئے ایک وسیلہ ہے ۔در اصل اس وسیلے سے جس ان دیکھی دنیا کے مظاہر قاری اچک اچک کر دیکھنے لگتا ہے وہ اس کی ذات کے بطون میں تخلیق ہو تے ہیں ۔وہ یہاں خلّاق علی الاطلاق ہو تا ہے ۔ کہ :
اپنی خلق کی ہو ئی بسیط زمین پر
سمٹتا پھیلتاجارہا ہوں میں
خدائے لم یزل کی سانس کی طرح ( قاضی سلیم)
اسی لئے محمّد اسد اللہ نے مانتین کے اس قول کو کتاب کا سر نامہ بنانا گویا یہ دعویٰ کر نا ہے کہ فن کار نے تخلیق کے رازِ دروں کا سراغ پا لیا ہے ۔اور اندرونی صفحات پرپھیلے انشائیے اس دعوے کی تصدیق کر تے ہیں جس قلم نے دعویٰ کی ہے وہ دلیل بھی فراہم کر تا ہے کہ انگشتِ شہادت بھی ہے ۔ راقم نے ابتدا ء میں مصنّف کو ٹو کا بھی تھا کہ آ پ کی منزل وزیر آ غا نہیں محمّد اسد اللہ ہے ۔ابتدائی انشائیوں ’ انڈا ،نیچر کی گود میں ‘ اور ڈائری میں اور کسی حد تک نا فرمانی میں بھی وہ وزیر آ غا تلاش کرتے پھر تے نظر آ تے ہیں۔
بوڑھے کے رول میں ،انھوں نے محمّد اسد اللہ کو پا لیا ہے اور بڑے اعتماد کے ساتھ اپنی رفاقت میں سر گرمِ سفر ہیں ۔ ’بو ڑھے کے رول میں ‘،’بخار ‘اور ’ گنگنانا‘ایسے انشائیے ہیں جن کا پڑھنا میں سعادت سمجھتا ہوں ۔ میں دعا کر تاہوں کہ اردوادب کے ہرشیدائی کو یہ سعادت نصیب ہو ۔ لکھنے کی حد تک تو مجبوری ہے کہ ’ایں سعادت بزورِ بازو نیست‘،مگر پڑھنے کی سعادت کچھ ایسی مشکل نہیں کہ صرف ۳۵ روپئے میں حاصل ہو سکتی ہے ۔
No comments:
Post a Comment