A blog by Muhammad Asadullah featuring Urdu articles, poetry, children's literature, translations, and other Urdu literary forms.
Saturday, October 09, 2010
Saturday, September 11, 2010
Friday, September 10, 2010
Thursday, September 09, 2010
Wednesday, September 08, 2010
Tuesday, August 31, 2010
Monday, August 23, 2010
Wednesday, August 18, 2010
Friday, August 13, 2010
Wednesday, August 11, 2010
Ramazan ..۔رمضان المبارک
ذوالجلال والے اکرام کے مہینہ کا احترام کیجئے
Muhammad Shareef Nagpur
.....................................
یوں تو سارا زمانہ اللہ کا ہے۔ پوری کائنات تن تنہا اللہ ہی کی ملک ہے۔ اللہ تعالیٰ نے خود تمام آسمانوں اور زمینوں کو اپنی ملکیت فرمائی ہے۔ ارشاد ہے للہ ما فی السموت ومافی الارض ترجمہ : ’’ جو کچھ آسمانوں او زمین میں ہے اللہ ہی کے لئے ہے ‘‘۔لیکن دنیا میں جن چیزوں کی نسبت اللہ کی طرف کردی جائے وہ بہت زیادہ قابل احترام ہوجاتی ہے۔ مثلاً بیت اللہ یعنی اللہ کاگھر۔ ہر مسلمان پر بیت اللہ کا احترام واجب ہے۔ کتاب اللہ یعنی اللہ کی کتاب قرآن پاک کا احترام ہر مسلمان کرتا ہے۔ نہ کوئی مسلمان بیت اللہ کی طرف پیر کرتا ہے نہ قرآن کی طرف۔ قرآن کی طرف تو کوئی پیٹھ بھی نہیں کرتا ۔ رسول اللہؐ یعنی اللہ کے رسولؐ کا احترام ہر مسلمان واجب سمجھتا ہے۔اسی طرح اولیاء اللہ یعنی اللہ کے ولی کا احترام بھی ہر مسلمان کرتا ہے حتیٰ کہ وفات کے بعد ان کی مزاروں کا بھی اکرام کیا جاتا ہے۔ ایسے ہی رمضان المبارک کو اللہ کا مہینہ ہونے کی خصوصی شرافت حاصل ہے۔ رسول اللہؐ کا ارشاد ہے الشعبان شھری والرمضان شھر اللہ (اوکماقال) یعنی شعبان میرا مہینہ ہے اور رمضان اللہ کا مہینہ ہے۔ اس لئے ہر مسلمان پر رمضان المبارک کا احترام واجب ہے۔رمضان المبارک میں روزے جو اسلام کی بنیادوں میں سے ہیں ، مسلمان کے لئے شعائر اسلام میں سے ہیں۔ اور شعائر اسلام کی تعظیم کرنے کو تقویٰ کی علامت بتایا گیا ہے۔ قرآن پاک میں ہے ومن یعظم شعائر اللہ فانھا من تقویٰ القلوب ترجمہ : ’ جو اللہ کی نشانیوں کی تعظیم کرتے ہیں تو یہ ان کے دلوں کا تقویٰ ہے ‘‘۔رسول اللہؐ خود رمضان المبارک کا انتظار فرماتے تھے اور رمضان تک پہنچنے کے لئے رجب اور شعبان ہی سے دعافرماتے تھے۔ آپؐ سے یہ دعا منقول ہے اللھم بارک لنا فی رجب والشعبان وبلغنا الیٰ رمضان ترجمہ : ’’ اے اللہ ہمارے لئے رجب اور شعبان میں برکت عطا فرما اور رمضان تک ہمیں پہنچادے ‘‘۔
اب سنئے کہ رمضان کا احترام کیا ہے۔ رمضان میں دو خصوصی اعمال مسلمان پر عائد ہوتے ہیں ایک تو روزہ ہے جو ہر مسلمان پر فرض ہے سوائے مسافر اور مریض کے۔ روزہ ارکان اسلام میں سے ایک ہے حضورؐ کا ارشاد ہے بنی الاسلام علی خمسٍ شھادۃ ان الاالٰہ الااللہ والصلوٰۃ و صوم رمضان و زکوٰۃ والحج ترجمہ : ’’ اسلام کی بنیاد پانچ چیزوں پر ہے اول اس بات کی گواہی دینا کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں، نماز، رمضان کے روزے ، زکوٰۃ اور حج ‘‘۔ رمضان المبارک کے روزوں کی فرضیت قرآن سے بھی ثابت ہوتی ہے جس میں رمضان کی فضیلت بھی شامل ہے۔ شھر رمضان الذی انزل فیہ القرآن ھدی للناس وبینت من الھدی والفرقان فمن شھد منکم الشھر فلیصمہ ترجمہ : ’’ رمضان کا مہینہ وہ ہے جس میں قرآن نازل کیا گیا جو لوگوں کے لئے ہدایت ہے اور جس میں حق و باطل میں تمیز کرنے کے لئے نشانیاں ہیں، پس تم میں سے جو اس مہینہ کو پائے وہ اس میں روزہ رکھے ‘‘
اس حکم میں صرف دو لوگ مثتشنٰی کئے گئے ہیں ، ایک مسافر دوسرے مریض۔ مسافر بھی شرعی مسافر جس کی مقدار ۴۸! میل ہے اور وہ بھی اس زمانہ کے لحاظ سے بہت معمولی چیز ہے اس لئے ہمارے اس زمانہ میں مسافر کو بھی حتی الامکان روزہ رکھنا چاہئے نہ رکھ سکے تو اس کے بعد کسی اور مہینہ میں روزہ رکھنا ہوگا۔ اسی طرح ایسا مریض جس کے لئے دیندار ڈاکٹر یا حکیم روزہ کو منع کریں تو رخصت ہے چاہے بعد میں رکھ لے یا فدیہ دے دے ۔ یہ دونوں طبقات بھی اگر معذوری کی وجہ سے روزہ نہ رکھ سکیں تو ان کے لئے بھی رمضان کا احترام ضروری ہے کہ کھلم کھلا کھاتے پیتے نہ پھریں۔ اسی طرح چھوٹے بچے جو روزہ کا تحمل نہ کرسکیں والدین کی ذمہ داری ہے کہ وہ بچوں میں بھی روزہ کے احترام کی عادت ڈالیں کہ وہ گھر میں جلدی سے چھپ کر کچھ کھا پی لیں اور باہر اپنا روزہ دار نہ ہونا معلوم نہ ہونے دیں۔ ہٹے کٹے مسلمان کھلے عام بازار میں کھاتے پیٹے نظر آتے ہیں ، مسلمانوں کے محلہ میں ہوٹلیں کھلی ہوتی ہیں۔ چائے کے ریسٹورینٹ اور پان کے ٹھیلے کھلے ہوئے بلکہ بھرے ہوئے ہوتے ہیں۔ یہ اللہ کے عذاب کو دعوت دینے والی چیز ہے شعائر اسلام کی بے عظمتی ہے۔ اگر کوئی غیر قوم ہمارے شعائر میں سے کسی شعار کی توہین کرے تو ہم مشتعل ہوجاتے ہیں لیکن ہم خود ہی توہین کررہے ہیں۔ ہمارا کام ہے کہ ایسے ہوٹل والے، چائے کی دوکان اور پان کی دوکان والوں کو سمجھائیں کہ وہ دن میں اپنی ہوٹلیں بند رکھیں افطار کے بعد کھولیں۔ اللہ تعالیٰ اس پر قادر ہے کہ وہ دن بھر ہوٹل بند رکھنے کے بعد بھی شام کے چند ہی گھنٹوں میں پوری روزی دے دے ۔ اگر کوئی ایک آدھ ہوٹل پورے مسلم ایریا میں کھلی بھی ہو تو مسافروں کی نیت سے اور اس طرح کہ سامنے پردے پڑے ہوئے ہوں۔ مسافر بھی پردہ کے ساتھ کھاپی لے۔ صحت مند مسلمان کا کھلے عام کھانا پینا، سڑک پر پان کھاتے پھرنا یا بیٹری سگریٹ پیتے ہوئے گذرنا اتنا بڑا جرم ہے کہ اسلامی حکومت کو ایسے شخص کے لئے قتل کا حکم ہے کہ یہ اللہ کے شعائر کی توہین کررہا ہے۔ اگر اسلامی حکومت نہ ہونے کی صورت میں کوئی قتل نہ کرسکے تو یہ مطلب نہیں کہ بچ گئے بلکہ اللہ کا بے آواز کوڑہ اپنا کام ضرور کرتا ہے۔ اگر افراد ایسے جرم کا ارتکاب کرتے ہیں تو ڈاکٹروں کے ذریعہ ان کا کھانا پینا بند کرادیاجاتا ہے اور مجمع جب عام طور پر رمضان کی توہین کرتا ہے تو قحط سالی، فسادات اور سیلاب جیسے مصائب ڈال کر، بغیر روزے کے اللہ انہیں بھوکا اور پیاسا رکھتا ہے۔ اس لئے تمام مسلمانوں پر لازم ہے کہ وہ اپنی دنیا اور آخرت کو سنوارنے کے لئے روزوں کا اہتمام کریں جس میں اپنا ہی نفع ہے۔
دوسرا اہم عمل رمضان المبارک میں تراویح کی نماز ہے۔ روزانہ عشاء کی نماز کے بعد ۲۰! رکعت نماز پڑھنا سنت موکدہ (قریب واجب) ہے۔ بہت سے لوگ رمضان کے صرف ابتدائی ایام میں تراویح پڑھتے ہیں پھر چھوڑ دیتے ہیں اور آخری کے چند روز پڑھ لیتے ہیں۔ بعض لوگ ایک نومولود مسلک اہل حدیث کہلانے والے مسلک کی اقتداء کر کے صرف آٹھ رکعت پر اکتفا کرتے ہیں۔ جو مسلک خیر والقرون میں وجود میں آنے کی بجائے ۱۲! سو سال کے بعد وجود میں آیا ہو وہ حق کیسے ہو سکتا ہے۔ جبکہ حضورؐ کا ارشاد ہے خیر القرون قرنی ثم الذین یلونھم ثم الذین یلونھم یعنی بہترین زمانہ میرا ہے ، پھر اس کے بعد کا اور پھر اس کے بعدکا ۔ یہ مسلک تو مسلمان کے ۴! مسلکوں پر اجماع کو توڑنے کے لئے باطل کی سازش ہے۔ اس لئے تمام مسلمان ۲۰! رکعت تراویح کا اہتمام کریں۔ باقی پنج وقتہ نمازوں کو بھی اس اہتمام سے پڑھیں کہ پورا سال نماز کے اہتمام کی توفیق ہو۔ تراویح میں قرآن پاک سننے کے ساتھ ساتھ ویسے بھی ناظرہ قرآن پاک کی تلاوت کریں۔ اور جو بھی خیر کا کام زیادہ سے زیادہ اس مہینہ میں کرنے کی کوشش کریں۔ اس ماہ میں نوافل کا ثواب فرض کے برابر اور فرج کا ثواب ۷۰! فرائض کے برابر کردیا جاتا ہے۔ اس ماہ کاپہلا عشرہ رحمت ، دوسرا مغفرت اور تیسرا آگ سے خلاصی کا عشرہ ہے۔ یہ مہینہ اللہ سے اپنے تعلق کو بڑھانے کے لئے عطا ہوا ہے۔ خوب اللہ کی طرف متوجہ ہوں دعاؤں کا اہتمام کریں۔ خصوصاً افطار اور تہجد کے وقت دعاؤں میں سستی نہ کریں۔ صدقہ و خیرات کی کثرت کریں۔ اور ہر طرح کی خیر اس ماہ میں سمیٹنے کی کوشش کریں کیا پتہ یہی رمضان ہماری زندگی کا آخری رمضان ہو۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی قدر دانی کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین۔
Monday, August 09, 2010
Boodhe Ke Role Mein ...Inshaiye ..انشائیہ
بوڑھے کے رول میں
اور
محمّد اسد اللہ
[][][][][][][][][][][][][][][][][][][][][][][][][][]
,.,.,,,,,.,.,.,.,.,.,.,.,.,.,.,.,.,.,.,.,.,.,.,.,.,.,.,.,.,.,.,.,.,.,.,.,.,.,.,
Dr. Syed Safdar
.................................................
ڈاکٹر سیّد صفدر
ڈاکٹر سیّد صفدر
.
..................................................
جشنِ رونمائی کے مو قع پر پیش کیا گیا مضمون
///////////////////////////////////
انشائیہ ایک نو خیز صنفِ ادب ہے اور ڈاکٹر محمّد اسد اللہ ایک نو عمر تخلیق کار ۔ محمّد اسد اللہ نے ایوانِ ادب میں قدم رکھا تو انشائیہ سے آ نکھ لڑی ۔اب حال یہ ہے کہ دونوں طرف برابر کی آ گ برابر لگی ہوئی ہے ۔ اس نشست میں مجھے انشائیہ اور اسد کے تعارف کاکوشگوار کام تفویض کیا گیا ہے ۔ مجھے دونوں ہی عزیز ہیں ۔اس لئے قلم ہے کہ لبّیک لبّیک پکار رہا ہے ۔محمّد اسد اللہ’بوڑھے کے رول میں‘حرمِ انشائیہ میں داخل ہو ئے ۔ہم سب جانتے ہیں کہ یہ رول تعلق کے باب میں اسمِ اعظم ہے ۔
روحِ تخلیق تک رسائی کی کوشش کا نام تنقید ہے ۔تنقید کے اس تخلیقی عمل نے شعر و ادب کی نئی دنیائیں دریافت کی ہیں۔ ان میں سے ایک انشائیہ بھی ہے ۔شاعری کے ضمن میں یہ بات معلوم ہو ئی کہ
ردیف و قوافی کے چکّر میں پھنس کر
کلامِ مقفّیٰ بھی نا شعر ہو تا ہے اکثر
کہ در اصل اشعار تخلیق کی جھیل کے خوبصورت کنول ہیں
وہ کشتی جو لے جا ئے ہم کو کنول تک۔
کنول تو نہیں ہے
وہ پا نی کہ جس میں کنول ہے۔کنول تو نہیں ہے۔ ( کرشن مو ہن ۔کنول تو نہیں ہے )
اصل شعر کو مو ضوع سے الگ کو نے کی کو شش میں پیکر پسندوں نے مستور حسنِ معنی کی ایک جھلک کو مجسّم کر نا شروع کیااور یوں مختصر نظم وجو د میں آ ئی جیسے مادّے میں مستورجوہری توانائی یا زندہ جسم کی جین دریافت ہوئی ہے۔ اسی طرح سفر ناموں،خطوط ،مضامین اورطنز و مزاح کی رگوں میں دوڑتی توانائی کی دریافت انشائیہ کے نام سے مو سوم ہو ئی ۔
انشائیہ معروض کی جزیات کے بیان کا نام نہیں ،اسے الٹ پلٹ کر دیکھنے اور دکھانے کا عمل بھی نہیں ہے۔انشائیہ نگار معروض کے ان مخفی گو شوں کو ضبطِ تحریر میں لا تا ہے کہ غیر فنکار جن کے نظارے کی بصارت سے محروم ہو تا ہے ۔ اس بات کی تو ضیح کے لئے آ ندرے بریتون کا یہ بیان ملاحظہ فر ما ئیے ۔
گلاب کا پھول گلاب کا پھول ہے
گلاب کا پھول گلاب کا پھول نہیں ہے
پھر بھی گلاب کا پھول گلاب کا پھول ہے ۔ (بریتون ۔بحوالہ: ماہنامہ شب خون ۔الہٰ باد ۔شمارہ ۱۰۱۔ص ۱)
تخلیق کار گلاب کے پھول کو اس طرح دیکھتا ہے کہ وہ گلاب کا پھول نہیں ہے بمع اس کے کہ وہ گلاب کا پھول بھی ہے ۔قطرہ فنکار کے لئے صرف قطرہ نہیں ہے بلکہ قطرہ بمع دجلہ ایک نیااور انوکھا مظہر ہے ۔جب تک یہ نظر میسّر نہیں ہو تی، آ دمی تخلیق کا رنہیں ہو سکتا۔ اور انشائیہ نگار تو بالکل نہیں ہو سکتا ۔ دفتر سیاہ کر نا آ سان ہے مگر ایک مصرعِ تر کی تخلیق مشکل ہے کہ اس عمل میں شاعر کا سیروں لہو خشک ہو تا ہے ۔انشائیہ کہ افسانہ و افسوں کے خول میں محصور ہو نے کا انکاری ہے ۔ شاعری اورشاعری میں بھی غزل سے بہت قریب ہے ۔انشائیہ کا ہر ٹکڑا غزل کے شعر کی طرح آ زاد بالذات ہو تا ہے ۔ انشائیہ نگار غزل گو ئی کی طرح ایک نازک کا رگذاری ہے ۔اس کے لئے زبر دست تخلیقی توانائی در کار ہے ۔
کلاس روم ٹیچینگ کے ذریعے تخلیقی نظر کا حصول ممکن نہیں ہے ۔فنکار کی تربیت ادب پا روں سے ممکن ہے ۔محمّد اسد اللہ نے جوانی کی راتیں مرادوں کے دن مشرق و مغرب کے انشائیہ نگاروں کی معیت میں بسر کئے ہیں ۔جدید دنیا میں سماجی ،جغرافیائی ،لسانی اور ثقافتی سر حدیں ٹوٹ رہی ہیں ۔فرد کی ذات کی حدیں وسیع تر ہو تی جا رہی ہیں ۔ایک ادیب کو تو توسیعِ ذات کے لئے Multilingual ہونا بھی ضروری ہو گیا ہے ۔ ڈاکٹر محمد اسد اللہ خوش نصیب ہیں کہ انھیں براہِ راست انگریزی ،اردو ،مراٹھی اور ہندی ادب تک بے تکلّف دسترس حاصل ہے ۔ادب کی دنیا ہماری خاک ،آب و باد کی دنیا سے وسیع ہو تی ہے ۔ مختلف زبانوں پر دسترس نے محمّد اسد اللہ کی تخلیقی دنیا کو وسیع تر بنا دیا ہے ۔اس لئے ان کی تخلیقی فکر مختلف الجہت اور کثیر اللون ہو گئی ہے ۔ڈاکٹر وزیر آ غا نے اس کتاب کے پیش لفظ میں اسد اللہ کو یوں دادِ سخن دی ہے ۔
’ محمّد اسد اللہ نے گہری سے گہری بات کے بیان میںتازہ کاری اور اپج کا مظاہرہ کیا ہے ۔اس کے ہاں ندرتِ خیال ہے جو بنے بنائے تراشیدہ اقوال کی پیوست پر ہمیشہ سے خندہ زن رہی ہے ۔ ‘
اور ڈاکٹر انور سدید یہ اعتراف کر تے ہیں کہ ’محمّد اسد اللہ کو ’ ایک ان دیکھی دنیا سے باتیں کر نے کا ملکہ حاصل ہے ۔ ‘
اب اس ان دیکھی دنیا کے کچھ مناظر بھی ہم دیکھتے چلیں ۔’بوڑھے کا رول ادا کر تے کر تے کیا ہوا ملاحظہ فر مائیے:
’ کل ہی کی بات لیجئے ،اپنے آ پ سے وفاداری کا تہیہ کر کے میں اپنے اندر اترا اور آ واز لگائی ۔’ اے ،میرے میں!ذرا باہر آ میں تیرا وفادار بن کر زندگی گذارنا چاہتا ہوں ،ایک لمحہ کے توقف سے ایک انتہائی نحیف و نزار بوڑھا لا ٹھی ٹیکتا ہوا باہر آ یا۔ میں اسے دیکھ کر پھوٹ پھوٹ کر رو دیا اس بوڑھے کی طرح جس کی اولاد نا خلف نکل گئی ہو ۔۔۔‘
کیوں صاحب ذمّہ داریاں ہم بھی اٹھاتے ہیں کیا اس اقتباس کو پڑھ کر ایک بے نام مگر گرانبار جذبہ کا کتھارسس نہیں ہو تا؟اور کی ہم اپنے تئیں جذباتی سطح پر سبک بار محسوس نہیں کر تے ؟ یہی وجہ ہے کہ اپنی تخیلی ریاست میں شعراء کو قبول نہ کر نے والا افلاطون بھی حکمِ امتنائی جاری کر نے سے پہلے پھولوں اور خوشبوؤں سے فن کار کا استقبال کر نے کی ہدایت دیتا ہے ۔
محمد اسد اللہ کے انشائیوں میں پے در پے ایسے اقتباسات چلے آ تے ہیں گو یا کہہ رہے ہوں کہ دیکھو اس طرح سے سخن ور سہرا کہتے ہیں ،اسی انشائیے ’ بو ڑھے کو رول میں ‘ سے چند اقتباسات ملاحظہ فرمائیے ۔
’نہ صرف بڑھاپا بلکہ زندگی ہی زبردستی کا سودا ہے ،بچّہ دنیا میں قدم رکھتے ہی احتجاجی چینخوں سے فضا کا سینہ چھلنی کر دیتا ہے۔ہم نو مولو د کے احتجاج کو طربیہ نغمہ تصوّر کرکے خوشیاں مناتے ہیں ۔بچّہ ہماری نا عقلی پر چراغ پا ہو کر چینختا ہے کہ کن احمقوں میں آ پھنسا۔‘
’ سنجیدگی بڑھاپے کا امتیازی وصف ہے ہوش سنبھالتے ہی یہ وصفِ خاص مجھے ودیعت ہوا تو مجھے لگا کہ میری زندگی کے کالج سے کھلنڈرا نو جوان رسٹی کیٹ کر دیا گیا ہے ۔ ‘
’ میں نے چوں چرا کی تو حالات نے ڈانٹ پلا ئی کہ دیکھتے نہیں دنیا کا کیا حال ہے ،تمہارے اطراف حشر بر پا ہے اور تمہیں جوان ہو نے کی سوجھی ہے ۔‘
ہے نا غزل کی سی بات کہ اشعار چلے آ رہے ہیں اندر سے کو ئی کہتا ہے مکرّر ارشاد اور ہم بار بار اس اقتباس کو دہراتے ہیں ۔
مر حوم احمد جمال پاشا نے کہ خود ایک اچّھے انشائیہ نگار اور انشائیے کے پا رکھ تھے ڈاکٹر اسد اللہ کے تعلق سے لکھا ہے کہ
’وہ مو ضوع کا داخلی سفر اس انداز سے طے کر تے ہیں کہ ایک ان دیکھی دنیا کے بالکل نئے مظاہرقاری اچک اچک کر دیکھنے لگتا ہے ۔‘
معروض تواسد کے لئے ایک وسیلہ ہے ۔در اصل اس وسیلے سے جس ان دیکھی دنیا کے مظاہر قاری اچک اچک کر دیکھنے لگتا ہے وہ اس کی ذات کے بطون میں تخلیق ہو تے ہیں ۔وہ یہاں خلّاق علی الاطلاق ہو تا ہے ۔ کہ :
اپنی خلق کی ہو ئی بسیط زمین پر
سمٹتا پھیلتاجارہا ہوں میں
خدائے لم یزل کی سانس کی طرح ( قاضی سلیم)
اسی لئے محمّد اسد اللہ نے مانتین کے اس قول کو کتاب کا سر نامہ بنانا گویا یہ دعویٰ کر نا ہے کہ فن کار نے تخلیق کے رازِ دروں کا سراغ پا لیا ہے ۔اور اندرونی صفحات پرپھیلے انشائیے اس دعوے کی تصدیق کر تے ہیں جس قلم نے دعویٰ کی ہے وہ دلیل بھی فراہم کر تا ہے کہ انگشتِ شہادت بھی ہے ۔ راقم نے ابتدا ء میں مصنّف کو ٹو کا بھی تھا کہ آ پ کی منزل وزیر آ غا نہیں محمّد اسد اللہ ہے ۔ابتدائی انشائیوں ’ انڈا ،نیچر کی گود میں ‘ اور ڈائری میں اور کسی حد تک نا فرمانی میں بھی وہ وزیر آ غا تلاش کرتے پھر تے نظر آ تے ہیں۔
بوڑھے کے رول میں ،انھوں نے محمّد اسد اللہ کو پا لیا ہے اور بڑے اعتماد کے ساتھ اپنی رفاقت میں سر گرمِ سفر ہیں ۔ ’بو ڑھے کے رول میں ‘،’بخار ‘اور ’ گنگنانا‘ایسے انشائیے ہیں جن کا پڑھنا میں سعادت سمجھتا ہوں ۔ میں دعا کر تاہوں کہ اردوادب کے ہرشیدائی کو یہ سعادت نصیب ہو ۔ لکھنے کی حد تک تو مجبوری ہے کہ ’ایں سعادت بزورِ بازو نیست‘،مگر پڑھنے کی سعادت کچھ ایسی مشکل نہیں کہ صرف ۳۵ روپئے میں حاصل ہو سکتی ہے ۔
Wednesday, August 04, 2010
Sunday, August 01, 2010
Subscribe to:
Posts (Atom)