سینا پتی باپٹ روڈ پر واقع سم بایوسس کالج کا ایک منظر ۔۔۔۔۔
گیٹ کے اندر مشہور آرٹسٹ آر کے لکشمن کے کارٹونوں میں پاءے جانے والے عام آ دمی کا مجسمہ
تلک واڑا
آدی واسی سنگرہالیہ ۔۔۔۔۔۔۔ میوزیم کا ایک منظر
ایک سفر شہر پونا کا
محمّد اسد اللہ
محمّد اسد اللہ
اس بار نصابی کمیٹی بال بھارتی کی ایک میٹنگ میں شرکت کے لئے پوناجانے کا اتّفاق ہوا۔اسے حسنِ اتّفاق ہی کہا جائے گا کہ اس بار میرا بیٹا توصیف احمد اور شہر ناگپور کے معروف ادیب،ناقد محقق ڈاکٹر شرف الدین ساحل میرے ساتھ تھے ۔اس سے پہلے بارہا اس شہر میں رہ کر اردو کتابوں کے تیّاری،تبصرہ ،ورکشاپ وغیرہ سر گر میوں میں مصروف رہا اورہر بار نئے لو گوں سے ملنا ،اردونواز دوستوں ،ادیبوں ،شاعروں کے ساتھ دیر تک ادبی ،غیر ادبی مو ضوعات پر گفتگو ،ملاقاتیں دعا سلام اوراہلِ اردو کے منفرد خلوص و محبّت،بزرگ قلمکاروں کی شفقت، ایسے تجربات ہیں جو ناگپور سے پونا کے تقریباً سولہ یا اٹّھارہ گھنٹے کی پر مشقّت مسافت کو بخوشی برداشت کرنے پر آ مادہ کر تے ہیں ۔
یوں توہمیں یہاں اس خوش گمانی کے تحت مدعو کیا جا تا ہے کہ ہم نصابی کتا بوں کو بہتر بنانے میں کچھ مدد کریں گے، زبان و ادب پر ہمار ی نظر ہے ،من آنم کہ من دانم ،
ہم بھی اس دعا کے ساتھ رختِ سفر باندھ لیتے ہیں کہ اے خدا! ہمیں ان کے گمان کے مطابق بنادے ۔
ہم میں سے مختلف لو گوں کے یہاں آ نے کے مقاصد یقینا مختلف ہو ا کرتے ہیں ۔ مراٹھی کے ایک ٹیچر نے مجھے بتایا کہ اس سفرمیں جس قدر خرچ ہو تا ہے اتنا تو یہاں ملتا نہیں، مگر ہمار ی بستی میں اس اعزاز سے ہماری شان بڑھ جاتی ہے کہ ہم بورڈ ورک کے لئے گئے ہیں ،میں اسی لئے آ تا ہوں ۔ ہمارے ساتھیوں میں ایک صاحب جو اسی ذہنیت کے مارے تھے ناگپور سے ہوائی جہاز کا ٹکٹ لے کر پو نا آ دھمکے ،منتظمین نے یہ کہہ کر انھیں زور کا جھٹکا دیا کہ ہم بس ہی کا کرایہ آ پ کی خدمت میں پیش کر سکیں گے ۔
میر ی ہی طرح یقینا کئی لو گ ایسے بھی ہوں گے جو اسکول کی گھٹن بھری فضا سے جو ان دنوں ہر جگہ یکساں ہے ،چند پر لطف لمحات چرانے کے لئے اس قسم کی میٹینگوں کو ترجیح دیتے ہیں ۔ میرے لئے تو اس قسم کی مجلسیں ہر بار کچھ نیا سیکھنے اورعلم و ادب کے گلستانوں سے خوشہ چینی کا ایک بہا نا رہا ہے ۔
اس میں کو ئی شک نہیں کہ پو نا بورڈ میں کتابوں کی تیّاری زبان و ادب کے ماہرین اور قلمکاروں کی ان تھک ریاضت، محنت لگن ،انہماک اور خوب سے خوب تر کی جستجو کا مظہر ہے ،یہی سبب ہے کہ لسا نی کمیٹی کے ایک رکن کے قول کے مطابق این سی ای آ ر ٹی جو نصابی کتب کی تیاری میں ایک معتبر ادارہ مانا جا تا ہے ،پو نا بورڈ کی تیار شدہ کتابوں کو قدرکی نگاہ سے دیکھتا ہے ۔ان ہی اراکین میں سے ایک صاحب یہ کتابیں پاکستان لے گئے تو ا ن کتابوں کو ہا تھوں ہاتھ لیا گیا ۔ کیوں نہ ہو جس قدر عرق ریزی اور سنجیدگی سے یہاں کام ہوتا ہے اس کا اثر تو ہو گا ہی ۔
اس بارمیں چاہتا تھا کہ توصف میاں جو ما شااللہ بی۔ ای۔ کے تیسرے سال میں ہیں کتابوں اور اپنے کالج کے ماحول سے نکل کر نئے شہر کی آب و ہوا اور لو گوںسے بھی روشناس ہوں ۔
بقول غالب
بخشے ہے جلوۂ گل ذوقِ تماشا غالب
چشم کو چاہئے ہر رنگ میں وا ہو جا نا ۔
شہر پونا میں کئی قابلِ دید مقامات ہیں ۔شنوار واڑا،کیلکر میوزیم،آغا خاں پیلیس ،سارس باغ ،سنیک پارک ،اعظم کیمپس ،وغیرہ
ہماری میٹینگ کا دوسرا دن تھا۔صبح تقریباً ساڑھے آٹھ بجے میں اور توصیف آٹو کے ذریعے ڈکّن بس اسٹاپ پہنچے ۔پتہ چلا پونا درشن ،ایک بس دن بھر شہر کی سیر کراتی ہے ۔ایک سو چالیس روپئے کا ٹکٹ توصیف کے لئے خریدا اور وہیں ہلکا سا ناشتہ کر کے توصیف بس میں سوار ہو گئے ۔ صبح نو بجے سے شام پانچ بجے تک کے اس سفر میں کئی مقامات ہیں جن میں کئی مندر اور تاریخی عمارات بھی شامل ہیں ۔ میں تو بال بھارتی چلا آ یا اور توصیف شام تک پو نا درشن میں مشغول رہے ۔ اس سفر کی چند تصاویر یہاںپیش کی جا رہی ہیں۔