Friday, October 03, 2008

غزل


مزاحیہ شاعری 
برا وقت 

ہر گھڑی میں وقت ہے بالکل غلط 
واچ میکر کی یہ اک دکان ہے 
جیسے قومی رہنما کی زندگی 
رہنما ئی کا جہاں فقدان ہے 

غزل

میاں شریف یہاں تو تمہارے لالے ہیں 
قدم قدم پہ کمینوں سے پا لا پڑنا ہے 

لبوں سے اس کے چنبیلی کے پھول جھڑ نے ہیں 
ہمارے منہ پہ علی گڑھ کا تالا پڑنا ہے 

کھنک سے مال کے اک بھیڑ سی امڈنی ہے 
اب اس کے چہرے کے گرد ایک ہالا پڑنا ہے 

گنے ہیں لاکھ ٹکے تب ملی ہے یہ سروس 
دیارِ علم میں اب کیا اجالا پڑنا ہے


Thursday, October 02, 2008


علمِ ماحولیات کی اہمیت و افادیت 

گذشتہ صدیوں کے دوران سائنسی ایجادات اور انکشافات نے پوری دنیا میں انقلاب بر پا کر دیا ہے ۔ اسی دوران کئی علوم بھی سامنے آ ئے ان میں علمِ ماحولیات خاص طور پر قابلِ ذکر ہے ۔ علمِ ماحولیات کی اہمیت اور افادیت کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے ہے کہ ہمارے تعلیمی اداروں میں ابتدائی تعلیم سے اعلیٰ تعلیم تک ہر سطح پر اب علمِ ماحولیات کی تدریس کو ضروری قرار دیا گیا ہے ۔ 

علمِ ما حولیات کو تعلیمی اداروں میں نصاب میں شامل کر نے کا ایک مقصد یہ بھی ہے کہ طلباء اس ماحول سے واقف ہوں جس میں وہ رہتے ہیں اس میں مو جود قدرتی وسائل کا صحیح استعمال انھیں آ ئے اور اس کے مضر اثرات سے اپنے آ پ کو بچا سکیں ۔ اسی کے ساتھ دنیا کے مختلف خطّوں میں پا ئی جانے والی انسانی زندگی کے بارے میں بھی ان کو معلو مات حاصل ہو سکے ۔ 

مثل مشہور ہے کہ ضروت ایجاد کی ماں ہے ۔عالمی پیمانے پر ماحول کے بگڑ تے ہو ئے توازن اور اس کے بھیانک نتائج نے ساری دنیا کو چونکا دیا ہے۔ اب ماہرین کے علاوہ حکومتیں بھی یہ سوچنے پر مجبور ہو گئی ہیں کہ ماحول کے تحفّظ کے لئے عوام میں بیداری پیدا نہیں ہو ئی تو اس کرّۂ ارض پر انسانی زندگی کا سانس لینا دو بھر ہو جا ئے گی ۔ 

دراصل گذشتہ برسوں میں انسانی آبادی میں زبردست اضافہ ہو ا ہے ۔۱۹۳۶ میں ہندوستان کی آ بادی ۳۶ کروڑ تھی جو ۲۰۰۶ میں ایک ارب گیارہ کروڑ تک جا پہنچی ہے ۔اسی طرح دنیا کی آبادی میں بھی اضافہ ہوا ہے۔صنعتی ترقّی کے سبب بڑے بڑے جنگالات کا صفایا ہو گیا۔ بڑی بڑی فیکٹریوں اور کثیر تعداد میں دوڑنے والی سواریوں سے نکلنے والے دھویں اور کارخانوں کے بیکار پانی سے کیمیاوی مادّے ندیوںاور آ بی ذخیروں میںشامل ہو تے جا رہے ہیں ان سے اگائی جانے والی سبزیاں بھی مضرِ صحت ہیں ۔جنگلات کی کٹائی کا سلسہ اب بھی جاری ہے۔ اگر یہ سلسہ روکا نہیں گیا تو انسانی صحت اس کے برے اثرات پڑیں گے اور آ ئندہ انسانی نسلیں مختلف بیما ریوں کا شکا ر ہوں گی ۔ 

گذشتہ کئی بر سوں سے عالمی پیمانے پر مو سم میں خطر ناک حد تک تبدیلیاں پیدا ہو رہی ہیں جس کے اثرات ہمارے ملک پر بھی پڑ رہے ہیں ۔اس کے سبب جہاں زراعت اور فصلوں کے نقصان ہو رہا ہے وہیں صحتِ انسانی کے علاوہ صنعت و حرفت اور قدرتی وسائل بھی متاثر ہو رہے ہیں ۔ ہمارے ملک میں دوسرے ممالک کے مقابلے میں تعلیم کی کمی ہے اور اسی وجہ سے ماحول کے متعلق لوگوں میں معلومات کا فقدان ہے ۔ 

ہر ملک میں ماحو ل کے تحفّظ کی خاطر قوانین بنا ئے گئے ہیں اور حکومتیں سختی سے ان کو نا فذ کر نے کی کو شش کر رہی ہے لیکن اس کے با وجود عام طور پر ان اصولوں کی خلاف ورزی کی جا تی ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ عوام میں اس شعور کی کمی ہے جو انھیں اپنے نفع نقصان کو سمجھ کر زندگی گذارنے کے قا بل بنا ئے اور یہ اسی وقت ممکن ہے جب لو گوں میں یہ احساس پیدا ہو گا کہ وہ ماحول کو پرا گندہ ہو نے سے بچا ئیں۔ عالمی پیمانے پر کئی ادا رے ہیںجو اس سلسلہ میں خدمات انجام دے رہے ہیں ۔ ہمارے ملک میں بھی مختلف اداروں کی سرگرمیوں کے علاوہ کئی رسائل ماحولیات کے لئے مخصوص ہیں جو سماجی بیدا ری پیدا کر نے کے کام میں سر گرم ہیں ۔ ۵! جون کو عالمی یومِ ماحولیات کے طور پر منایا جا تاہے ۔ اس مو ضوع پر اخباروں اور دیگر رسائل میں مضامین شائع ہو تے ہیں ۔ جلسے اور مختلف قسم کے تحریری و تقریری مقابلے اور نمائشیں منعقد کر کے لو گوں کو ماحول کی آ لو دگی کے خطرات سے آ گاہ کیاجا تاہے ۔ 

ہماری یہ ذمّہ داری ہے کہ اس سلسہ میں لو گوں کو بیدار کیا جا ئے تاکہ وہ اپنے ماحول کو صاف ستھرا رکھیں اور اس کی حفاظت کریں اور اس کا سب سے بہتر طریقہ یہ ہے کہ ماحول کے بارے میں تعلیم کو عام کیا جا ئے ۔ ہمارے تعلیمی اداروں میں میں اب ابتدا ئی سطح ہی سے ماحولیات کو نصاب میں شامل کیا جا رہا ہے ۔ اس کے فائدے بھی ظاہر ہیں نئی نسل ماحول کی حفاظت کے معاملے میں زیادہ فکر مند اور سر گرم ہے ۔ 








غزل ۔ وہ جو تھا خواہشوں کے خانے میں


غزل 
محمّد اسد اللہ
 
وہ جو تھا خواہشوں کے خانے میں 
مل نہ پا یا ہمیں زمانے میں 

کٹ گئے دن بہار کے آ خر 
اک میرے آشیاں بنانے میں 

دست و بازو کو کیوں تھکاتے ہو 
تم میرا صبر آزمانے میں 

بات کر تے ہیں دل ملانے کی 
ہاتھ مصروف گھر جلا نے میں 

تم سے بڑھ کر نہیں ہے جان عزیز 
خود کو کھویا ہے تم کو پا نے میں 

اب نہ یادِ خدا نہ فکرِ جہاں 
سب ہی الجھے ہیں آ ب و دانے میں


Wednesday, October 01, 2008



خیال پارے    .1 

مقصدِ زندگی 

ہم اس دنیا میں کیوں آئے ہیں ؟ 
ہماری زندگی کا کیا مقصد ہے؟ 

یہ وہ سوالات ہیں جن کا جواب صدیوں سے مفکّر،فلسفی،دانشور اور ادیب و شاعر تلاش کرتے رہے ہیں ۔ 
ہر شخص اپنے زاویے سے زندگی کو دیکھتا ہے ۔
ایک نکتۂ نظر یہ بھی : 
خدا نے حضرتِ آ دم کو ان کی ایک خطا پر عتاب کے بعد اس دنیا میں بھیجا تھا ۔ہم ان ہی حضرتِ آدم کی اولاد ہیں۔کیا یہ ممکن نہیں کہ اس عتاب کا کچھ حصہّ وراثت میں ہمیں بھی ملاہو؟
ہمارے جدِّ امجد سے یہ کہا گیا تھا کہ ایک معیّن مدّت تک انھیں یہاں زندگی گذارنی ہے اور پھر وہ جنّت میں ( جو ان کا اصل گھر ہے ) لو ٹیں گے ۔
یہی طریقہ کار اولادِ آ دم کے ساتھ بھی ہے ۔دنیا کو کار گاہِ عمل قرار دیا گیا۔ 
اللہ تعالیٰ نے اپنی مقدّس کتاب قرآن مجید میں اس کو واضح بھی فر مادیا کہ موت اور حیا ت کو اس لئے بنا یا گیا تاکہ دیکھیں کو ن اچّھے اعمال کر تا ہے ۔ 
گو یا اب ہمارے سامنے کارِ جہاں یہ ہے کہ اسے اس طرح انجام دیا جا ئے کہ خدا راضی ہو ۔ ہوم کمینگ یعنی جنّت میں جانے کے لئے ایک ایسا انسان بن کر دکھا نا ہے جو واقعی وہاں رہنے کے لائق ہو ،اسے اس مملکت میں شہریت اسی صورت میں ملے گی جب وہاں کی شرائط پوری کرے ۔ اس کی سب سے بڑی شرط یہی ہے کہ خدا سے اس کا تعلّق اس درجہ تک پہنچ جائے کہ 
خدا بندے سے خود پو چھے بتا تیری رضا کیا ہے ؟ 
چنانچہ زندگی، اپنے مالک کو راضی کر نے کی تمام تر سعی کا نام ہے ۔ 
اور 
عبادات،اعمالِ صالحہ،خدا کی مخلوقات پر رحم ،حسنِ سلوک ،مصائب پر صبر ،قربانیاں ،جہاد ، ،خدا کے بندوں سے خدا کا تعارف کروانے کی کوششیں اور دین کی محنت یہ سب رضائے الٰہی تک پہنچنے کے راستے ہیں ۔ 

میری زندگی کا مقصد تیرے دیں کی سرفرازی 
میں اسی لئے مسلماں ،میں اسی لئے نمازی 
اقبال