Monday, July 19, 2010

Prem Chand (Urdu)


منشی پریم چند

ایک مایہ ناز ادیب

سیّد جابر علی



//////////////////

یوں تو بے شمار ادیبوں اور شاعروں نے اردو زبان و ادب کے ذخیرے میں قابل قدر اضافہ کیا ہے لیکن اپنی خداداد فنکار انہ مہارتوں اور تخلیقی صلاحیتوں سے اصنافِ ادب کے دامن کو وسیع تر کرنے والے ادیبوں میں منشی پریم چند کو ایک مقام افتخار حاصل ہے۔

پریم چند کے افسانے اور ناول ان کے عہد کا آئینہ ہیں۔ انھوں نے نہ صرف شہروں میں رہنے والے لوگوں کی زندگی کی جھلکیاں اپنی تحریروں میں پیش کیں بلکہ دیہات کے غریب لوگوں کی اصلی زندگی کو ان کی تما تر پریشانیوں اور مسائل کے ساتھ اجاگر کیا ہے۔ انھوں نے افسانوں اور ناولوں کے علاوہ ڈرامے اور مضامین بھی تحریر کئے۔
منشی پریم چند کا اصل نام دھن پت رائے تھا۔ وہ ۳۱ جولائی ۱۸۸۰ء میں بنارس کے قریب طہی گاؤں میں پیدا ہوئے ۔ وہ ابتدا میں نواب رائے کے نام سے لکھتے رہے کیونکہ لوگ انھیں پیار سے نواب رائے پکارتے تھے جب وہ رسالہ ’’زمانہ‘‘ میں لکھنے لگے تو دیا نرائن نگم کے مشورہ پر انھوں نے اپنا قلمی نام پریم چند اختیار کیا۔ پریم چند کا بڑا ادبی سرمایہ اردو زبان میں ہے۔ آخری عمر میں وہ ہندی میں
بھی لکھنے لگے تھے۔


پریم چند کے والد منشی عجائب لال ایک ڈاک خانے میں کلرک تھے۔ پریم چند کی ابتدائی تعلیم گھر پر ہی گاؤں میں شروع ہوئی۔ مولوی صاحب سے انھوں نے اردو اور فارسی سیکھی۔ سوتیلی ماں کی ڈانٹ ڈپٹ اور گھریلو پریشانیوں کے باوجود انھوں نے ہائی اسکول کی تعلیم مکمل کی۔ پریم چند وکیل بننا چاہتے تھے ۔ لیکن کم عمری میں ہی ان کی شادی ہوگئی اور ایک سال بعد والدہ کے انتقال کے بعد گھرکی ذمہ داریاں انھیں سنبھالنی پڑیں۔ اس کے باوجود وہ اپنے گاؤں سے پانچ میل دور بنارس کالج میں پڑھنے جاتے تھے اور وہاں سے دو ٹیوشن پڑھا کر گھر لوٹتے تھے۔ انھیں صرف پانچ روپئے ملتے تھے جس سے گھر کا خرچ چلتا تھا ۔ کچھ عرصے بعد انھیں اٹھارہ روپئے ماہوار تنخواہ پر اسکول ٹیچر کی ملازمت مل گئی۔ اپنی محنت اور لگن سے وہ انسپکٹر آف اسکولز کے عہدے تک پہنچے۔

منشی پریم چند کو مضمون نویسی کا شوق تھا ۔ ۱۳ سال کی عمر ہی سے وہ قصہ کہانیوں کی کتابیں پڑھنے لگے تھے۔ پریم چند نے رسالہ ’’زمانہ‘‘ میں مضامین لکھے اسی میں ان کا ناول ’’اسرار معابد‘‘شائع ہوا۔ ان کی کہانیوں کا پہلا مجموعہ ’’سوزوطن‘‘ ۱۹۰۸ء میں منظرِ عام پر آیا۔ اسے انگریزی حکومت نے ضبط کرلیا تھا۔



پریم چند اپنے سینے میں ایک درد منددل رکھتے تھے۔ انگریزوں کی غلامی میں جگڑے ہوئے ملک میں اپنے اہم وطنوں کی حالت دیکھ کر وہ بہت متاثر ہوئے کسانوں اور دیہات میں رہنے والے غریب لوگوں کے دکھ درد کو انھوں نے محسوس کیا۔ مہاتما گاندھی کی تقریروں سے متاثر ہوکر وہ تحریک آزادی میں شامل ہوئے اور نوکری سے استعفیٰ دے دیا۔ منشی پریم چند نے اپنے افسانوں اور ناولوں میں ایسے کردار پیش کئے جو حالات کے ظلم وجبر کے باوجود سرگرم عمل نظر آتے ہیں۔ انھوں نے محنت کش طبقے کے مسائل کو پر اثر انداز میں پیش کیا ہے۔ پریم چند کی تحریروں میں ہمیں جہاں کسانوں کی زندگی کی عکاسی ملتی ہے وہیں عورتوں ، بیواؤں اور ہریجنوں کے دکھ درد کا فنکار انہ اظہار بھی ملتا ہے۔ ان کے متعلق قمر رئیس لکھتے ہیں۔


وہ اس عہد اور اس نظام کے ہر پہلو کو بڑی بے رحمی سے بے نقاب کرتے ہیں جس میں عوام کے لئے تعلیم ممنوع ہے ، ان کے رہنے کے مکان اور پیٹ پالنے کے لئے روزی میسر نہیں ان کی عزت اور آبرو بھی محفوظ نہیں وہ اپنے خدا کی عبادت بھی نہیں کرسکتے ہیں اس لئے کہ عبادت گاہوں پر ایک مخصوص طبقہ کا اجارہ ہے پھر وہ اس ظلم کے خلاف فریاد بھی نہیں کرسکتے اس لئے کہ غیر قومی حکومت کی سنگین ایک آن میں ان کا محاصرہ کر لیتی ہیں۔
(پریم چند کا تنقیدی مطالعہ ۔ بحیثیت ناول نگار).... صفحہ.23 )


پریم چند فرسودہ رسم ورواج اور انسانیت کے خلاف روایات کے مخالف تھے ۔ انھوں نے بیوہ عورتوں کی شادی کے لئے بھی آواز بلند کی جس کا ذکر انھوں نے اپنے اردو کے ایک ناول میں کیا بعد میں یہ ناول ہندی میں ’’پریما‘‘ کے نام سے شائع ہوا۔ اپنی بیوی کے انتقال کے بعد انھوں نے ایک نچلے طبقے کی بیوہ عورت کے ساتھ شادی کرکے مثال قائم کی۔


پریم چند کے ناول ’’گؤداں‘‘ میں غریب کسانوں کی قابل رحم زندگی کا نقشہ کھینچا گیا ہے۔ ان کے ناول ’’چوگانِ ہستی‘‘ کا پس منظر ہندوستانی تحریک آزادی ہے۔ اسی طرح ناول’’میدان عمل‘‘ ایک سیاسی سماجی اور اصلاحی ناول ہے۔ جس میں سماجی حقیقت نگاری کی بہترین مثال موجود ہے۔ پریم چند نے اپنی تحریروں میں ظلم وجبر کے خلاف متحد ہوکر آواز بلند کرنے کا پیغام دیا۔ اور اپنی تحریروں کے ذریعے مظلوموں کی حالت کی پراثر عکاسی کرکے سماج کو بدلنے کا جذبہ پیدا کیا ہے۔